سیاسی آلودگی جانچنے کا کوئی معتبر پیمانہ ہوتا تو پاکستان یقینا دنیا کا سب سے آلودہ ملک قرار پاتا۔ گرد و غبار کہیں یا آندھی، دُھند کہیں یا سموگ، قومی زندگی کا ہر شعبہ سیاسی آلودگی کی زد میں ہے۔ سیلاب، متاثرین، غربت، مہنگائی، بیروزگاری، امن و امان، عالمی مالیاتی اداروں کی دھونس، ہچکیاں لیتی معیشت، سبھی کچھ میلے اور پرانے کپڑوں والی سیلن زدہ کوٹھڑی میں پھینک دیا گیا ہے۔ یہ مسئلہ ہی نہیں کہ کیسے طرح طرح کے عوارض میں مبتلا سیاست کے دامانِ دریدہ کی بخیہ گری کی جائے اور اُسے طِفلان کوچہ و بازار کی سنگ زنی سے بچاتے ہوئے بے ذوق سرکس کی تماشا گاہ سے نکال کر سنجیدگی، متانت اور حکمت کے دائرے میں لایا جائے۔ کم نصیبی اور تہی دامانی کے بیسیوں اسباب ہیں لیکن سب سے بڑا دائمی عارضہ سیاسی عدم استحکام ہے۔ مارشل لاؤں کو تو جانے دیجئے کہ اُنہیں جمہوریت کے لہو کی پیاس ہوتی ہے۔ خود جمہوری ادوار میں بھی طوفان اٹھانے اور بھونچال جگانے والی ہواؤں کو چین نہیں آتا۔ شاید ہی کسی منتخب جمہوری حکومت کو دلجمعی اور سکون کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہو۔ کچھ نہ ہو تو اہل سیاست خود ہی ایک دوسرے کا گریبان نوچتے اور ساکن جھیل کے گہرے پانیوں میں کنکر پتھر پھینکتے رہتے ہیں۔ سیاستدانوں کی آلودہ مزاجی، سیاسی زلزلوں اور ارتعاش مابعد (After Shocks) کی ماری ہوئی ریاست کا جو حال ہونا چاہئے وہی ہمارا ہے۔ پون صدی بیت گئی۔ ابھی تک ہمارے قدموں تلے زمین مسلسل تھرتھرا رہی ہے۔ پاؤں جمنے میں نہیں آ رہے۔
لانگ مارچ کے دوران عمران خان کو نشانہ بنانے کا واقعہ ہر پہلو سے قابل مذمت ہے۔ پسٹل سمیت ایک شخص کی گرفتاری کی وڈیو محفوظ ہو گئی جسے پورا پاکستان بار بار دیکھ چکا ہے۔ اب تک سامنے آنے والی تین ویڈیوز کے اندر جو کچھ اُس نے کہا، وہ بھی ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ مزید شواہد سامنے آ رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی اس دنیا میں یہ پتہ چلانا مشکل نہیں کہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے، کس حد تک درست ہے۔ اس کا سیل فون بہت کچھ بتا سکتا ہے۔ اگر وہ جھوٹ بول رہا ہے تو سچ تک رسائی کی سنجیدہ کوشش ہونی چاہئے۔ اگر وہ سچ کہہ رہا ہے اور یہ معاملہ مذہبی جنونیت کی ویسی ہی واردات ہے جیسی ماضی میں ہوتی رہی ہیں تو اس پر اُسی زاویے سے نگاہ ڈالنی چاہئے۔ وزیراعلیٰ پرویز الٰہی سمیت پی ٹی آئی کی پوری قیادت، کیمروں کے سامنے آنے والے پستول بردار نشانہ باز، اُسے گرفت میں لینے والے کارکن کی گواہی اور خود ملزم کے بیانات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔ ممکن ہے تحریک انصاف کے پاس اسکی کوئی ٹھوس منطق ہو۔ بظاہر اسکی ایک ہی وجہ دکھائی دیتی ہے۔ یہ کہ ملزم کا اعترافی بیان، مذہبی جنونیت میں مبتلا ایک غیر متوازن ذہن کی ترجمانی کرتا ہے۔ تحریک انصاف اسے درست مان لے تو افسوسناک وقوعے کا رُخ سیاسی اہداف کی طرف موڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔ میڈیا کے ذریعے کروڑوں انسانوں کے سامنے مسلح ملزم کی گرفتاری کو جھٹلانا بہرحال مشکل ہے۔ اس کے اعترافی بیانات پر سوال اٹھانا بھی کارِ محال ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس سب کو تسلیم کر لینے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ عمران خان پر حملے میں وفاقی حکومت، ان کے سیاسی مخالفین اور کسی دوسرے ادارے کا کوئی عمل دخل نہیں۔ یہ مان لیا جائے تو کئی روز دن کو برساتی کینچوے کی طرح رینگتے اور رات کو کنڈلی مار کر سو جانے والے لانگ مارچ کی بے ثمری کا کیا کیا جائے؟
عمران خان کے سیاسی افکار و اعمال پر ہزار اعتراضات کیے جا سکتے ہیں اور کیے جا رہے ہیں۔ اپریل 2022 میں آئینی طریق کار کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کر دیئے جانے کے بعد سے وہ مسلسل آتش زیر پا ہیں۔ اپوزیشن کی قراردادِ عدم اعتماد کو امریکہ کی سازش قرار دیتے ہوئے انہوں نے قومی سلامتی کے اداروں کو بھی نشانے پہ رکھ لیا۔ تنقید کو تضحیک کی حدوں تک لے گئے، اپنے مداحوں کے لہو میں مخالفین کے خلاف شعلہ فشاں نفرتوں کے بیج بوتے اور اُن کی سوچوں پر مسلسل بارود پاشی کرتے رہے۔ خود کو حق، سچ، خیر اور صالحیت کا مثالی نمونہ قرار دیتے ہوئے اپنی سیاسی حرکیات کو جہاد کا درجہ دیتے رہے۔ مخالفین کو منکرین، منافقین اور مرتدین کے طور پر گردن زدنی قرار دیتے رہے۔ سرِراہ دوسروں پر آوازیں کسنے اور پگڑیاں اچھالنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ کئی دہائیوں پر مشتمل میری یادداشت میں یہ پہلا دل ہلا دینے والا واقعہ تھا کہ خون کے پیاسوں کو قبائیں اور گالیاں دینے والوں کو دعائیں دینے والے پیغمبر انسانیت ؐ کی بارگاہِ عالی کی مشکہو فضاؤں میں گالیوں کی آلودگی بکھیری گئی۔ اس سب کچھ کے باوجود عمران خان قومی سیاست کا ایک اہم کردار ہیں۔ ان کی سیاست کو ناپسند کرنے، حتیٰ کہ اُن سے نفرت کرنے والے کو بھی یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ اُن کی آواز کو دبانے یا انہیں سیاست سے بے دخل کرنے کیلئے وہ کچھ کیا جائے جو اُن کے مارچ میں شریک جنونی شخص نے کیا یا کرنا چاہا۔ مقام شکر ہے کہ وہ اور ان کے ساتھی سلامت رہے۔ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے سینے میں پیوست گولی کو تو ایک مدت ہو چکی، بینظیر بھٹو شہید کے زخموں سے ابھی تک لہو رس رہا ہے۔ قومی سیاست اس طرح کی خونریزی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
سیاست کی ہر کروٹ سے مفاد کشی (Point Scoring) روا سہی۔ لیکن جب معاملہ عمران خان پر قاتلانہ حملے جیسی سنگین واردات کا ہو تو ایسی طفلانہ مشق سے گریز کرنا چاہئے۔ یہ بات قابل فہم ہے کہ عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کو چیتے کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ دونوں خان صاحب کی وزارت عظمیٰ کے دور میں معتوب رہے۔ دونوں پر مقدمات بنے۔ دونوں جیلوں میں ڈالے گئے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ قاتلانہ حملے کے فوراً بعد (جبکہ فائرنگ کرنے والا ملزم گرفت میں بھی آ چکا ہے) مرہم پٹی سے فارغ ہوتے ہی وہ اپنے مصاحبین کے ذریعے قتل کا الزام، وزیراعظم، وزیر داخلہ اور فوج کے ایک اعلیٰ عہدیدار پر لگا دیں۔ نہ صرف یہ بلکہ مطالبہ کریں کہ تینوں فی الفور مستعفی ہو جائیں۔ لمحہ بھر کو سوچئے۔ اگر حکومت پی ڈی ایم کی ہوتی۔ اگر تب بھی چودھری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ ہوتے۔ اگر تب بھی یہ افسوسناک واقعہ گجرات کے گرد و نواح میں پیش آیا ہوتا تو خان صاحب کا موقف کیا ہوتا؟
میرے ننھیال کے گاؤں میں قائم دین نامی ایک شخص ہوا کرتا تھا۔ اسکی عمر کا بڑا حصہ تھانوں، کچہریوں، مقدموں اور عدالتوں میں گزرا۔ ناخواندہ ہونے کے باوجود اُسے قانون کی اچھی خاصی شُد بُد ہو گئی تھی۔ وہ گاؤں، بلکہ گرد و پیش کے سارے دیہات میں ”قائم قنونیا“ کے نام سے مشہور تھا۔ جب بھی کوئی چھوٹی موٹی واردات ہو جاتی، جان پہچان رکھنے والا ایک فریق قائم قنونیا کے پاس آتا اور مشورہ طلب کرتا۔ قائم قنونیا پہلے تو واردات کے حقائق جانتا، تفصیلات پوچھتا، ملزم کے کوائف معلوم کرتا۔ پھر مشوروں کی زنبیل کھولتے ہوئے بتاتا کہ پرچہ فلاں اور فلاں پر کٹواؤ۔ بتایا جاتا کہ وہ تو موقع پر موجود ہی نہیں تھے۔ قائم قنونیا اپنی کھچڑی داڑھی کھجاتا، ہنستا اور کہتا ”یہ معاملہ مجھ پر اور وکیل پر چھوڑ دو“۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سیاستدانوں پر ہونے والے حملے قائم قنونیا نظریے کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ اس لیے کہ نشانہ بننے والا حقیقی مجرم کیفر کردار تک پہنچانے کے بجائے اپنے سیاسی حریف کی کھال کھینچنا اُن کی اولین ترجیح بن جاتی ہے۔