موسمیاتی تبدیلی کا شکار پاکستان اور عالمی ذمہ دار ی

ایک خوش آئند امر یہ ہے کہ وطنِ عزیز کے وزیر اعظم شہباز شریف کو موسمیاتی تبدیلیوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے مسائل کے حل کی عالمی تنظیم (سی او پی 27) کی نائب صدارت دینے کا اعلان کیا گیا ہے جب کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے ایک بار پھر بڑے صنعتی ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ سیلاب سے بری طرح متاثر ملک کی مدد کے لیے آگے آئیں کیونکہ پاکستان سنگین موسمیاتی ناانصافی کا شکار ہے۔ دوسری جانب وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان کو ایک اور بڑی کامیابی ملی ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں سے تباہی پر قرارداد منظور ہوگئی ہے، چین، امریکا اور روس بھی پاکستان کے لیے ایک پیج پر آگئے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ دنیا میں موسمیاتی بحران زیادہ سنگین اور زیادہ واضح ہوتا جا رہا ہے، جس کا خمیازہ پاکستان جیسے ممالک بھگت رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان عالمی سطح پر 1فیصد سے بھی کم اخراج کے باوجود عالمی سطح پر 10 غیر محفوظ ممالک میں سے ایک ہے۔ بلاشبہ عالمی برادری کو مشترکہ لائحہ عمل اپنانا چاہیے اور موسمی تبدیلیوں کے شدید خطرات کا سامنا کرنے والے ملکوں کی ترجیحی بنیادوں پر امداد کرنی چاہیے۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ممالک میں شامل ہے جس کے ثمرات حالیہ مون سون کے شدید اسپیل، قبل از وقت گرمی کا موسم شروع ہونے، گلیشیئرز پگھلنے اور ہیٹ ویو کی صورت میں نظر بھی آرہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی اور پاکستان میں تیزی سے بڑھتے ہوئے اس کے تباہ کن اثرات پر بات کی جائے تو ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان 2025 تک پانی کی قلت کا شکار ہو جائے گا۔ سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان کا چوتھا نمبر ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی 1017 کیوبک میٹر ہے، یعنی پاکستان دریاؤں کے پانی کا فقط دس فیصد ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ گزشتہ برس اقوام متحدہ کے بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی رپورٹ نے انسانیت کے لیے ایک کوڈ ریڈ جاری کیا تھا، اس کے تحت اگر دنیا نے موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے لیے ابھی عمل نہیں کیا تو شدید گرمی کی لہروں، خشک سالی، سیلاب اور خوراک کی کمی کا انتباہ کیا گیا تھا۔ اس وقت جنگوں سے زیادہ انسان کو درجہ حرارت میں اضافے سے خطرہ ہے، کیونکہ ہر 6 اموات میں سے ایک موت ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ موسم بدلتے ہی لاہور میں ایک مرتبہ پھر اسموگ کے خطرات بڑھنے لگے ہیں۔ سموگ سے سب سے زیادہ متاثر لاہور تا گجرات جی ٹی روڈ کے دونوں جانب کی گنجان صنعتی پٹی پر شاید ہی کوئی قطعہِ زمین خالی نظر آئے۔ لگتا ہے پاکستان کی سب سے بڑی صنعتی پٹی پر 122 کلو میٹر تک ایک ہی شہر دوڑے چلا جا رہا ہے جب کہ
دوسری صنعتی پٹی شیخوپورہ تا فیصل آباد تک چل رہی ہے، اگر صرف اسی صنعتی پٹی کے کارخانوں کی چمنیاں بدل دی جائیں؟ سڑکوں پر رواں ماحول دوست دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے جعلی فٹنس سرٹیفکیٹس کے معاملے میں قانون پر عملدرآمد کرایا جائے تو سموگ میں آدھی کمی آ سکتی ہے؟ اس کے ساتھ ساتھ عالمی ادارہ صحت کی ایک چشم کشا رپورٹ بھی سامنے آچکی ہے کہ فضائی آلودگی سے ہر سال 15سال سے کم عمر کے تقریباً 6 لاکھ بچے مر جاتے ہیں۔ نزلہ، کھانسی، گلا خراب، سانس کی تکلیف اور آنکھوں میں جلن وہ ظاہری علامات ہیں جو سموگ کے باعث ہر عمر کے شخص کو بری طرح متاثر کرتی ہیں، جب کہ سموگ انسانی صحت کو ایسے نقصانات بھی پہنچاتی ہے جو بظاہر فوری طور پر نظر تو نہیں آتے لیکن وہ کسی بھی شخص کو موذی مرض میں مبتلا کر سکتے ہیں، جیسا کہ پھیپھڑوں کا خراب ہونا یا کینسر۔ عالمی ادارہ صحت کی مذکورہ رپورٹ عام دنوں کے حوالے سے ہے اور اس امر کی شاہد ہے کہ ہماری فضا اس قدر زہریلی ہو چکی کہ اس میں سانس لینا بھی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ سموگ کو زمینی اوزون بھی کہا جاتا ہے، یہ ایک وزنی پیلی سرمئی دھند ہے جو فضا میں جم جاتی ہے اور ماہرین کے مطابق فیکٹریوں اور گاڑیوں کا دھواں اور درختوں کا بیدردی سے کاٹا جانا صورتحال کو مزید تشویشناک بنا دیتا ہے۔ اس ماحول کی ہلاکت خیزی کا ذمے دار کوئی اور نہیں ہمارے وہ سابق حکمران ہیں جنھوں نے ماحول کو صاف کرنے کے لیے درخت نہیں لگائے، انتظامات نہیں کیے اور جن تھرمل بجلی گھروں سے دنیا چھٹکارہ حاصل کر رہی ہے وہی پاکستان میں لگا کر ماحول کو آلودہ کیا جارہا ہے۔ گزشتہ سال سموگ کی وجہ بتائی گئی کہ بھارتی پنجاب کے ہزاروں کسانوں کی طرف سے دھان کی فصل کی باقیات جلانے سے ایسا ہوا،لیکن اب سموگ کی وجہ کیا ہے؟ فیکٹریاں اور گاڑیاں بدستور فضا میں دھواں چھوڑ رہی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کمیشن فضائی آلودگی کا خاتمہ کیونکر کرے گا؟ لازم ہے کہ ہر وہ فیکٹری یا گاڑی، بھٹہ یا کوئی اور شے جو دھواں پھیلانے کا باعث بنتی ہے بند کردی جائے۔ ڈاکٹروں کے مطابق بچے اور بوڑھے افراد سموگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور اس لیے جب سموگ بڑھ جائے تو انھیں گھروں میں ہی رہنا چاہیے۔پاکستان میں موسم کی خلاف توقع تبدیلیوں نے انسانی زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے، موسم بہار میں ہی گرمی انتہا پر پہنچی اور مارچ میں ہیٹ ویو شروع ہوگئی۔ ماہرین نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ جلد موسمیاتی تبدیلیوں سے نہ نمٹا گیا تو پاکستان میں واٹر اور فوڈ سیکیورٹی کا خطرہ شدت اختیار کر جائے گا۔ ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسی تسلسل سے یہ موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہوتی رہیں تو جانداروں کی زندگی خطرے میں پڑجائے گی۔ دنیا کے وہ ترقی یافتہ ممالک جو موسمیاتی تبدیلیوں کے تدارک کے لیے گرین ٹرانزیشن کرچکے ہیں ان میں سرفہرست ڈنمارک پاکستان سے اشتراک کے لیے کوشاں ہے۔ ڈنمارک نے موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے انفرادی اور قومی سطح پر سخت قانون سازی کی، اس پر عملدرآمد کرایا اور اب گرین ٹرانزیشن کی طرف گامزن ہے۔ اس حوالے سے ڈنمارک کے ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ دوسری جانب ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بدلتے ہوئے موسم سے موافقت اختیار نہ کی تو پاکستان پانی اور غذائی قلت کا شکار بھی ہوسکتا ہے، سد باب کے لیے پالیسی لیول پر اقدامات ناگزیر ہیں۔ یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ گرین ہاؤس گیس ایمیشن جو کرہِ ار ض پہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ بن رہی ہے، اس میں وطنِ عزیز کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، تاہم افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس کی قیمت پاکستان کو چکانا پڑ رہی ہے۔ ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکا کے صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ پاکستان سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے، اسے مدد کی ضرورت ہے۔ عالمی برادری سیلاب متاثرین کی بھرپور مدد کرے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ پاکستان کو سیلاب کی وجہ سے مشکلات، موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا سامنا ہے جس کے لیے تمام ممالک کو مل کر اقدامات کرنا ہوں گے۔