ایک خوشی جو اچانک صدمے میں بدل گئی!

غم اتنا بدتمیز ہے آپ کی زندگی میں بغیر پوچھے داخل ہوجاتا ہے، بتاکر یادروازہ کھٹکھٹاکر نہیں آتا، کہ آپ اسے روک دیں، میرے گھرمیں محفل جاری تھی، مہمانوں کے قہقہوں کا ایک طوفان بلکہ ”طوفان بدتمیزی“برپا تھا۔ گپیں لگائی جارہی تھیں۔ لطیفے سنائے جارہے تھے، میرے محترم بھائی نامور تجزیہ نگار سہیل وڑائچ اور منفرد ڈرامہ رائٹر وشاعر خلیل الرحمان قمر اپنی زندگی کے یادگار واقعات سنارہے تھے، وہ اچانک پریشان ہوگئے بلکہ بوکھلا گئے، میں نے پوچھا ”خیر تو ہے؟۔ بولے ”یار میرے سگریٹ مُک گئے نیں“ …… میں نے کہا ”خلیل بھائی شکر کریں آپ کے ”ستو“ نہیں مُک گئے سیگریٹوں کا کیا ہے، سگریٹ تو ابھی آجائیں گے“۔……یاسر شال پھُدک کر کبھی ایک مہمان کے پاس جاکر کوئی شرارت کرآتا، کبھی دوسرے مہمان کے کان میں کوئی ایسی گدگدی کرتا اُس کا ہنس ہنس کر بُرا حال ہوجاتا، ایک واقعہ موقع کی مناسبت سے میں نے بھی سنایا ”میں 1994میں پہلی بار یورپ کے ایک ملک ناروے گیا، وہاں ایک مشاعرہ تھا، منیر نیازی، عطا الحق قاسمی، امجد اسلام امجد، ڈاکٹر حسن رضوی، ڈاکٹر اجمل نیازی  بھی ہمارے ساتھ تھے، میں اُن دِنوں گورنمنٹ کالج لاہور کا طالب علم تھا، منیر نیازی اور اجمل نیازی یعنی دو نیازیوں کی ساتھ جتنے دِن ناروے میں گزرے خوف ہی میں گزرے۔ خیر یہ ایک الگ داستان ہے سفر کی تھکان سے چُور چُور جب ہم اپنے میزبان جمشید مسرور کے گھرپہنچے ہمارا اِرادہ آرام کرنے کا تھا، میزبان نے منیر نیازی سے پوچھا ”نیازی صاحب کیا اِرادے ہیں، ”پب“چلیں گے“……نیازی صاحب کی برجستگی کے صدقے جاؤں،  بولے ”کیوں نئیں چلاں گے؟ ساہڈیاں تے عمراں لنگیاں پباں“بھار“…… محفل جاری تھی،میری پوری توجہ اپنے گھرمیں موجود مہمانوں پر تھی کہ اُن کی خدمت میں کوئی کسر نہ رہ جائے، مہمانوں کی خدمت کا ایک انداز یہ بھی تھا میں اُس روز پورا”میراثی“ بناہوا تھا، دلدارپرویز بھٹی کی اپنے ساتھ بیتی ہوئی کچھ یادیں میں شیئر کررہا تھا مہمانوں کا ہنس ہنس کر بُرا حال ہوگیا، اُنہیں ہنستے مسکراتے دیکھ کر میں خوش ہورہا تھا، والد محترم مرحوم کے حکم کے مطابق میں مہمانوں کی موجودگی میں عموماً فون کالز نہیں لیتا، وہ فرماتے تھے ”یہ مہمانوں کی توہین ہے آپ اُن کی موجودگی میں فون سنتے رہیں اور وہ بے چارے آپ کا منہ تکتے رہیں“…… ایک بار یہی بات اُنہوں نے ذرا زیادہ زور دے کر کہی۔ میں نے بڑے ادب سے اُن سے کہا ”ابوجی ہم تو آپ کے حکم کے مطابق مہمانوں کی موجودگی میں فون نہیں سنتے، مگر اُن مہمانوں کا کیا کریں جو میزبان کی موجودگی میں گھنٹوں فون سنتے ہیں اور میزبان بے چارہ اُن کا منہ دیکھتا رہتا ہے؟“…… فرمانے لگے ”وہ مہمان ہیں، اُن کے جو جی میں آئے وہ کریں، آپ کو مگر ”آداب میزبانی“ کِسی صورت میں نہیں بھُولنے چاہئیں“…… سو ہفتے کی شب میں پوری توجہ سے مہمانوں کی خدمت میں مصروف تھا، اِس دوران میرے موبائل فون پر بے شمار کالز آرہی تھیں جو میں مسلسل نظرانداز کررہا تھا۔ جب کھانا لگ گیا، مہمان کھانا کھانے میں مصروف ہوگئے۔ میں نے سوچا کافی دیر سے میں نے موبائل فون نہیں دیکھا، چیک کرلُوں کوئی ضروری کال یا مسیج نہ آیا ہو، ایک مسیج نے دِل دہلا کررکھا دیا، ایک لمحے کے لیے یوں محسوس ہوا اچانک کوئی ڈراؤنا خواب شروع ہوگیا ہے واٹس ایپ پر آنے والا یہ مسیج میرے عزیز چھوٹے بھائی سلمان بٹ کا تھا جو انکم ٹیکس میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں، لکھا تھا ”روزنامہ جنگ کے چیف رپورٹر مقصود بٹ کے بڑے صاحبزادے عاصم افتخار بٹ کی نماز جنازہ کل بعد ازنماز ظہور ای بلاک مسجد ماڈل ٹاؤن میں ادا کی جائے گی“ …… میں نے سوچا آج کہیں یکم اپریل تو نہیں؟۔ آج کہیں اپریل فول تو نہیں؟۔ پھر سوچا یکم اپریل بھی ہو سلمان بٹ نے ایسے مذاق کی توقع اِس لیے نہیں کی جاسکتی وہ ایک انتہائی مہذب ایک انتہائی سنجیدہ نوجوان ہیں، ……مجھے زور کا ایک جھٹکا لگا جیسا جھٹکا مجھے اپنے والدین کی وفات پر لگا تھا۔ عاصم افتخار بٹ گورنمنٹ ایف سی کالج لاہور میں میرا سٹوڈنٹ بھی تھا۔ سٹوڈنٹس اولاد کی طرح ہوتے ہیں، اُس کے ساتھ تو دہرا رشتہ تھا، وہ میرے محترم  و محسن بھائی مقصود بٹ کا بیٹا تھا، انتہائی فرماں بردار، والدین اور اساتذہ کی بے پناہ عزت کرنے والا۔ بزرگوں کا ادب کرنے والا۔ اخلاقی روایات کو ہرحال میں مقدم رکھنے والا نوجوان …… مسیج پڑھ کر یکدم میرا سانس اُکھڑنے لگا۔ میں کھینچ کھینچ کر سانس لے رہا تھا۔ مجھے لگا مجھے کچھ ہونے والا ہے، میں نے کسی مہمان کو نہیں بتایا۔ وہ سب کھانے میں مگن تھے، میں چند لمحوں کے لیے بیڈروم میں چلا گیا، بیڈ پر سیدھا لیٹ کے گہرے گہرے سانس لینے لگا، میری نبض ہوا کے گھوڑے پر سوار تھی۔ میں نے میڈیسن لی۔ بیگم باورچی خانے سے اچانک بیڈروم میں آئی میری حالت دیکھ کر پریشان ہوگئی، اُس نے پوچھا ”آپ کو کیا ہوا؟۔ مقصود بٹ صاحب کے ساتھ ہمارا ایک ذاتی تعلق ہے۔ وہ اُس وقت ہمارے کام آتے رہے جب شہر میں اِس فقیر کو کوئی نہیں جانتا تھا، میں نے بیگم کو بتایا وہ یہ خبر سُن کر مجھ سے زیادہ پریشان ہوگئی۔ میں نے اپنے  بھائی ذوالفقار بٹ کو فون کیا وہ مقصود بٹ صاحب کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے ہیں، اُنہوں نے بتایا ”عاصم بٹ کوشدید ہارٹ اٹیک ہوا۔ پہلے اُنہیں حمیدلطیف ہسپتال لے جایا گیا، حمید لطیف ہسپتال کی انتظامیہ نے اُن سے کہا اِسے فوراً پی آئی سی شفٹ کریں۔ پی آئی سی کے ڈاکٹروں نے اُس کی جان بچانے کی بہت کوشش کی۔ فوری طورپر سرجری کا اہتمام بھی کیا، مگر ہارٹ اِس قدر ڈیمیج ہوچکا تھا شریانوں سے مسلسل خون بہہ رہا تھا جو بہاکر اُنہیں موت کی وادی میں لے گیا“، زندگی تو بے وفا ہے ایک دِن ٹھکرائے گی“ ……زندگی اِتنی بے وفا ہے ایک دِن میں نہیں ایک پل میں ٹھکرا دیتی ہے، یہ بھی نہیں سوچتی کوئی اُسے گزارکیسے رہا تھا؟۔(جاری ہے)