سیاسی عدم استحکام

اس وقت ملک میں سب سے بڑا مسئلہ جو درپیش ہے۔ وہ سیاسی اداروں کا مسلسل عدم استحکام ہے۔ اگرچہ مختلف حلقوں کی جانب سے بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں کہ اب مقتدر قوتیں نیوٹرل ہو چکی ہیں۔ اس بحث کو وقت کا زیاں ہی کہا جا سکتا ہے۔ برسوں اقتدار پر بالواسطہ یا بلاواسطہ قابض رہنے والے اتنی آسانی سے واپس کیسے ہو سکتے ہیں یا شاید جان بوجھ کر دانستہ طور پر یہ تاثر دیئے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے بہرحال ایسا بالکل بھی نہیں ہے سب کچھ پرانی طرز پر ہی چلایاجا رہا ہے۔ کوئی نیوٹرل ہوا ہے نا سیاسی اداروں کو آزادی ملی ہے آزاد خارجہ پالیسی کے بغیر ایساکبھی ممکن نہیں ہوسکتا۔جب تک ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کی توجہ آزاد خارجہ پالیسی کی جانب مبذول نہیں کرائی جائے گی اس وقت تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آسکتا اور ہم مصائب کا شکار ہی رہیں گے کون نہیں جانتاکہ ایک طویل عرصہ سے ملک کو غیر آئینی طریقے سے چلایاجا رہا ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ آج تک کسی بھی منتخب وزیراعظم کو مدت پوری کرنے نہیں دی گئی۔ سیاسی اداروں کو مختلف حربوں سے ہمیشہ کمزور سے کمزور تر کیاجاتا رہا ہے اور یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے کہ 75 سال بعد بھی ملک میں سیاسی استحکام پیدا نہیں ہو سکا۔ آج کا معاشی بحران اسی کا شاخسانہ ہے بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام لائے بغیر ملکی معیشت مضبوط ہو سکے دراصل ہمیں ہوا میں تیر چلانے کی عادت ڈال دی گئی ہے، ہمیں منزل کا پتہ ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کے کوئی آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ جو حلقے ملک میں جمہوری نظام کی ترویج چاہتے ہیں ملک میں مربوط سیاسی استحکام چاہتے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کی حامی قوتوں کو پوری طرح عوام کے سامنے بے نقاب کر کے ان کی حوصلہ شکنی کریں۔ آخر کب تک یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔ کب تک عوام
کی تقدیر سے کھیلا جائے گا کیا ابھی کوئی کسر باقی ہے عوام کی تقدیر اور عوام کے نمائندوں کے ساتھ کیا کیانہیں کیا گیا۔ کتنے وزراء اعظم کو گولی کھانا پڑی۔ کتنے وزیراعظم کو بے آبرو کر کے نکالا گیا۔ ان کو ملک بدر کیا گیا اور سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت ہر ادوار میں جمہوریت اور سیاستدانوں کو بدنام کر کے اپنے مقاصد حاصل کیے گئے۔ جمہوریت پسند رویوں کے حامیوں کو کتنی بار پابند سلاسل کیا گیا اور ہنوز ان کو عبرت ناک سزائیں دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ سیاسی اداروں میں نقب زنی کرنے کے لیے اپنے آلہ کاروں کو اس کا حصہ بنادیا گیا ہے جو ہمہ وقت اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار کھڑے نظر آتے ہیں جن کو عرف عام میں گیٹ نمبر چار کا کھلاڑی یا پیداوار کہا جاتا ہے۔ اس سے بڑھ کر المیہ یہ ہے مقتدر قوتیں جب چاہتی ہیں پینترا بدل کر اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کر لیتی ہیں جس طرح پچھلے دنوں ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے مقتدر قوتوں کو اب ایک نئی جلا بخشی ہے تحریک انصاف کی حکومت گرانے کے لیے تحریک عدم اعتماد لا کر اپنے اپنے بیانیے دفن کر دیے۔ عمران خان جو ہائبرڈ نظام کی پیداوار تھے وہ بری طرح نظام حکومت چلانے میں ناکام ثابت ہوئے تحریک عدم اعتماد لا کر اس مردہ گھوڑے میں ایک بار پھر جان ڈال دی گئی جو اب اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ سب کو للکارتا ہوا نظر آرہا ہے جو ہوا سو ہوا بہرحال ایک بات تو طے ہے کہ سیاسی اداروں میں مداخلت کرنے والوں کی بیخ کنی کیے بغیر ان کا سدباب کیے بغیر ہم خوشحالی کی جانب ایک قدم بھی نہیں بڑھ سکتے۔کسی بھی قوت کوہرگز یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی سیاسی جماعت کی پشت پناہی کر کے سیاسی اداروں کو کمزور کریں جس طرح 2014ء میں دھرنوں کے ذریعے سیاسی عدم استحکام ملک میں پیدا کیا گیا تھا اور ایک نیا تجربہ کرکے ملک کے بخیے ادھیڑ دیے گئے جس کی وجہ سے آج ہم دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ معاشی اور سیاسی عدم استحکام روز بروز بڑھتا ہی جا رہاہے یہ سب عاقبت نااندیش پالیسیوں کی بدولت ہی ہوا ہے۔ اس ساری گمبھیر صورتحال کے باوجود حالات جوں کے توں ہیں نہ کوئی نیوٹرل ہوا ہے وہی پرانی سوچ اور وہی پرانے رویے ہیں۔ برسوں اقتدار پر قابض رہنے والی قوتیں آج بھی اسی ڈگر پر ہے۔ عوام کے مقدر اتنے اچھے کہاں۔ ان قوتوں نے اقتدار سے الگ ہونے کے بجائے صرف اپنا طریقہ کار تبدیل کیا ہے۔ آپ اسے پراکسی یا ہائبرڈ نظام کہہ سکتے ہیں اگر سیاسی جماعتیں ملک میں حقیقی جمہوریت کی حامی ہیں تو ان کو ملک کی تمام سیاسی و مذہبی سٹیک ہولڈر جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے اس نقطہ پر متفق کرنا ہو گا کہ جب تک سیاسی اداروں میں مقتدر قوتوں کی مداخلت بند نہیں کی جائے گی یا ان کو مداخلت بند کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اس وقت تک جمہوری نظام ملک میں نشوونما نہیں پا سکتا اور نہ ہی سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔