شہید جمہوریت کی جہد مسلسل

شہید جمہوریت چودھری ظہو رالٰہی کی 41 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے۔ گجرات کے ایک چھوٹے سے گاؤں نت میں 7 مارچ 1920 کو آنکھ کھولنے والے چودھری ظہور الٰہی کی پوری زندگی کھلی کتاب کی مانند سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے عمر بھر ڈرائینگ روم کی سیاست، جھوٹ، منافقت اور استحصال کے خلاف بھرپور جدوجہد جاری رکھی۔ چودھری ظہور الٰہی شہید ملکی سیاست کا بڑا نام 1944کے بعد عملاً داخل ہوئے اور مسلمانوں کی خدمت کو اپنا شعار بنایا۔ سیاسی میدان میں آنے کے بعد چودھری ظہورالٰہی کا ہر قدم آگے کی جانب اٹھتا گیا۔ چودھری ظہورالٰہی کی شخصیت اور رویے میں ایسا سحر تھا کہ بہت جلد ان کے تعلقات اعلیٰ حلقوں تک استوار ہو گئے۔ چودھری ظہورالٰہی شہید نے علاقے میں پہلی بڑی سیاسی کامیابی اس وقت حاصل کی جب 1962 کے انتخابات میں ان کے گروپ نے نوابزادہ اصغر علی خان کے مقابلے میں واضح کامیابی حاصل کی۔1970 کے انتخابا ت میں چودھری ظہورالٰہی نے علاقے کی اہم شخصیت نوابزادہ اصغر علی خان کو شکست دی اور قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ چودھری پرویز الٰہی کہتے ہیں کہ چودھری ظہور الٰہی کی محبت آج بھی لوگوں کے دلوں میں موجود ہے۔ ان کی سیاسی زندگی جدوجہد سے بھری پڑی ہے۔ دور دور سے لوگ آتے ہیں اور آج بھی ان کے دلوں میں اسی طرح محبت ہے اور اسی طرح ہی اس گھر سے محبت ہے۔ اسی طرح ہمارے خاندان سے محبت ہے۔ ہم ہر دفعہ ان کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں۔ چودھری ظہورالٰہی، مرحوم بھٹو سمیت کسی سے بھی ذاتی اختلافات کے قائل نہیں تھے البتہ وہ اصولوں پہ کسی بھی طرح  مفاہمت کے قائل نہیں تھے۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں انہیں بلوچستان کے دور افتادہ علاقے میں لے جایا گیا تاکہ ان کے وجود کو ختم کر دیا جائے۔ لیکن بلوچستان کے ممتاز سیاسی رہنما نواب اکبر بگٹی نے اپنے دوست کے خلاف سازش کو ناکام بنا دیا۔ چودھری ظہور الٰہی شہید بنیادی طور پر رحمدل، مخیر، دکھی انسانیت کیلئے دردمندانہ دل رکھنے والے اور انسان دوست شخصیت کے مالک تھے۔ چودھری ظہورالٰہی نے مجلس شوریٰ کے رکن اور وفاقی وزیر کی حیثیت میں بھی ہمیشہ عوامی فلاح کے کاموں کو اپنی مصروفیات کا حصہ بنائے رکھا۔ چودھری ظہورالٰہی 25 ستمبر 1981 کو لاہور میں تخریب کاری کے واقعہ میں شہید ہوئے۔ دشمنوں کا اصل ہدف لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین تھے لیکن وہ بچ گئے اور چودھری ظہور الٰہی اپنے ڈرائیور سمیت شہید ہو گئے۔
چودھری ظہو رالٰہی پاکستان کی سیاسی تاریخ کا روشن باب اور عہد ساز شخصیت تھے۔ ان کی ملک و قوم کیلئے خدمات کسی صلے کی متمنی نہ تھیں۔ ظہور الٰہی شہید قائداعظم سے والہانہ محبت رکھتے تھے۔ ظہور الٰہی شہید نے پسماندہ لوگوں کی نمائندگی کی اور ان کے حقوق کیلئے بھرپور آواز اٹھائی۔ انہوں نے عام آدمی کے حقوق کے تحفظ کو اپنا مشن بنایا اوراس مشن کی کامیابی کیلئے انہیں کئی کٹھن مرحلوں سے بھی گزرنا پڑا لیکن ان کے پائے استقامت میں ذرا بھی لغزش نہ آئی اور ہر امتحان میں سرخرو ہو کر نکلے۔ اپنے سیاسی کیریئر میں چودھری ظہورالٰہی نے قید و بند کی صعوبتوں کا بھی سامنا کیا لیکن وہ ہمیشہ ثابت قدم رہے۔ انہوں نے عوامی خدمت کے لیے سیاست کو سرکاری ملازمت پر ترجیح دی۔  چودھری ظہور الٰہی شہید صدارتی انتخابات کے موقع پر جنرل ایوب خان کے خلاف فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑے تھے۔ انہوں نے جھوٹے مقدمات کا مقابلہ کیا، آمریت اور ظالمانہ قوانین کو چیلنج کیا۔ انہوں نے ہمیشہ جمہوریت کے لیے جدوجہد کی۔ انہیں روایتی مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی کا سیکرٹری جنرل مقرر کیا گیا۔ظہور الٰہی 1958 میں گجرات ڈسٹرکٹ بورڈ کے چیئرمین منتخب ہوئے اور انہوں نے ایک دہائی سے زائد عرصے تک نیشنل بینک میں خدمات انجام دیں۔ انہوں نے سخت انتخابی اداروں کے نااہلی آرڈر کو چیلنج کیا لیکن قید کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ ٹریبونل نے انہیں تمام الزامات سے بری کردیا۔چوہدری ظہور الٰہی منصفانہ سیاست کی علامت تھے اور وہ نہ صرف گجرات بلکہ پورے پاکستان کے لیے باعث فخر تھے۔پاکستان کی آزادی کے بعد انہوں نے اپنے بھائی چوہدری منظور الٰہی جو کہ ایک ٹیکسٹائل انجینئر تھے، کے ساتھ اپنا ٹیکسٹائل کا کاروبار شروع کیا۔ انہوں نے گجرات میں گجرات سلک ملز اور پاکستان ٹیکسٹائل ملز قائم کیں۔ بعد ازاں اس خاندان نے لاہور اور راولپنڈی میں فلور ملیں بھی لگائیں۔
چودھری ظہور الٰہی شہید دھرتی کا بیٹا تھا اور وطن عزیز کی محبت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔