کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

عمران خان کو مہنگائی لے ڈوبی تھی اور اس حکومت کا مسئلہ مہنگائی نہیں ہے اور جہاں تک ڈوبنے کا تعلق ہے تو انہیں علم ہے کہ اگر ابھی انتخابات ہوئے تو وہ پہلے سے ہی ڈوب ہوئے ہیں۔ عمران خان جلد انتخابات کی رٹ اس لیے لگا رہے ہیں کہ فصل پکی ہوئی ہے اس لیے وقت پر اسے سنبھال لیا جائے ورنہ کوئی بھی آندھی طوفان پکی ہوئی فصل کو تباہ کر سکتا ہے۔ یہی وہ خوف ہے جس کا تصور کر کے عمران خان سوتے میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتا ہے اور رونا شروع کر دیتا ہے۔ حالات اس طرح کے ہیں کہ کوئی اسے لولی پاپ دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ عادت بن گئی ہے اس لیے نظر انداز کرو خود ہی رو رو کر چپ ہو جائے گا۔ مطالبہ تسلیم نہ ہونے پر وہ چھت سے چھلانگ لگانے کی دھمکی بھی دے سکتا ہے۔ آج رحیم یار خان سے اس نے خطاب کرنا ہے اور کل رات کو ہی ایک پیغام جاری کیا گیا تھا کہ وہ اس جلسہ میں اہم اعلان کرے گا۔ ہر جلسے میں وہ اہم اعلانات ہی کر رہا ہے لیکن بیل منڈھے نہیں چڑھ رہی۔ مارچ تک انتخابات کروا کر حکومت حاصل کرنے کا خواب چکنا چور ہونے کے قریب ہے۔ اس دوران اگر نئے آرمی چیف کی تقرری ہو گئی تو ارمانوں پر اوس پڑ جائے گی۔ پھر لمبی تان کر سونے کا وقت شروع ہو جائے گا۔ میر کا شعر یاد آگیا
سرہانے میر کے کوئی نہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
وہ جو کل تک غدار تھے آج ان کے پاؤں میں گر کر معافی مانگ رہا ہے۔ اقتدار کے لیے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔ ایاک نعبدو سے تقریر شروع کرنے والا جب معافی کا خواستگار ہوتا ہے تو معافی قبول کرانے کے لیے کچھ بھی کرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ اسلام آباد میں گزشتہ پیشی کا حال سب کے سامنے ہے۔ اندر معافی مانگی اور باہر آ کر ان کے وکیل کہہ رہے ہیں کہ معافی نہیں مانگی بلکہ معذرت کی ہے۔ اس ملک کی تقدیر میں کیسے کیسے حکمران لکھے گئے ہیں ویسے کسی نے ٹھیک کہا کہ جیسی روح ویسے فرشتے۔ جیسی قوم ویسے حکمران۔ ساری عمر مانگتے گذر گئی اور اب خوداری کا بخار چڑھ گیا۔ تعریف تو بنتی ہے کہ دس روپے مانگنے سے سفر کا آغاز کیا تھا اور آج لاکھوں اور کروڑوں روپے اینٹھے جاتے ہیں۔ جب شرم ہی اتر گئی تو پھر جہاں مرضی لے چلو۔
آرمی چیف سے ملاقات کی کہانی بھی منظر عام پر آ چکی ہے کہ کس طرح ترلے منتیں کر کے ایک ملاقات پر راضی کیا گیا اور پھر یہ ہوائی اڑا دی گئی کہ اسٹیبلشمنٹ سے صلح ہو گئی ہے اور اسٹیبلشمنٹ نے رجوع کر لیا ہے۔ اس ملاقات کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں نکلا کہ اس میں عمران خان کو ان کی کارکردگی دکھا دی گئی۔ سلیم صافی نے اس ملاقات کی تفصیلات بیان کی ہیں اور وہ خاصی دلچسپی ہیں۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ عمران خان مسلسل آرمی چیف سے ملاقات کے لیے اصرار کر رہے تھے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ جس کا بھی اچھا تعلق ہے اس سے سفارشیں کروائی گئیں۔ اس کے رشتہ داروں اور سسرال تک کو اپروچ کیا گیا۔ زلمے خلیل کا  ترلا کیا گیا۔ جی زلمے خلیل زاد امریکی شہری ہیں اور افغانستان کے امور کو دیکھتے رہے ان کا پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ سے اچھا تعلق رہا ہے لیکن جنرل قمر جاوید باجوہ نے ملنے سے انکار کر دیا۔  ان کا کہنا تھا کہ ملاقات کیوں اور کس لیے؟ امریکی نیوکانز کے رکن زلمے حکومت کی تبدیلی کے ایک ماہ بعد پاکستان آئے تھے اور نیازی صاحب سے خفیہ اور طویل ملاقات کی تھی۔ وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی بھی ملاقات کے لیے کوششیں کرتے رہے اور لاہور میں ہونے والے جلسہ میں انہوں نے اس کا اعلان بھی کر دیا کہ عمران خان اور فوج کے درمیان وہ معاملات کو ٹھیک کرانے میں کامیاب ہو گئے
ہیں۔ جب برف نہ پگھلی تو پی ٹی آئی کے نامزد کردہ صدر عارف علوی اچانک آرمی چیف کے گھر پہنچ گئے اور کافی دیر تک منت ترلہ کرنے کے بعد آرمی چیف کو ایوان صدر میں ملاقات کے لیے راضی کر لیا۔ انہی دنوں عارف علوی نے انٹرویوز دینے کا سلسلہ شروع کیا اور کہا کہ وہ سیاسی جماعتوں میں مفاہمت کرانے کے لیے تیار ہیں اور اس پر کام کر رہے ہیں لیکن حقیقت میں وہ عمران خان کے لیے کام کرتے رہے اور اب بھی وہ ان کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ان کے تمام تر اقدامات واٹس اپ پر جاری ہونے والے احکامات کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ بدقسمتی دیکھیں کہ ایوان صدر میں بیٹھا ہوا شخص جسے ریاست کا صدر ہونا چاہیے تھا وہ ایک جماعت کی غلامی کر رہا ہے۔
اجازت دیں تو حبیب جالب کے دو اشعار آپ کی نذر کروں
جب کمینے عروج پاتے ہیں
اپنی اوقات بھول جاتے ہیں
کتنے کم ظرف ہیں یہ غبّارے
چند پھونکوں سے پھول جاتے ہیں
یہ تمام ڈویلپمنٹ حکومت کے علم میں تھی اور آرمی چیف نے اس بارے میں وزیراعلی شہبازشریف کو اعتماد میں لیا اور اس ملاقات کے لیے ایوان صدر میں پہنچ گئے۔ عمران خان کا مطالبہ یہ تھا کہ آرمی چیف ایم کیو ایم اور باپ پارٹی کو حکومت سے الگ کر دیں اور اس کے بدلے گارنٹی کے ساتھ ایکسٹینشن دینے کا وعدہ کیا گیا۔ بس اس حکومت کو ختم کر کے نئے انتخابات کروائیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اعدادوشمار عمران خان کے آگے رکھ دیے کہ اگر عمران خان کی حکومت رہتی تو جون تک ملک دیوالیہ ہو جاتا۔عمران خان کو بتایا گیا کہ امریکی سازش کے بیانیے نے بھی ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔انہیں بتانے کے ساتھ ساتھ سمجھا دیا جاتا تو اس کا زیادہ اثر ہوتا۔ سلیم صافی کے مطابق” عمران نیازی اصرار اور عارف علوی وغیرہ بیچ بچاؤ یا منت ترلہ کرتے رہے تو جواب میں انہیں بتایا گیا کہ ان کی تمام احسان فراموشیوں اور فوج میں تقسیم کی کوشش کے باوجود فوجی قیادت ان کے ساتھ دشمنی نہیں چاہتی اور نہ یہ چاہتی ہے کہ ان کے ساتھ وہ سلوک ہو جو بھٹو یا نواز شریف وغیرہ کے ساتھ ہوا لیکن فوج انہیں فوری طور پر الیکشن نہیں دے سکتی۔ وجہ اس کی یہ بتائی گئی کہ موجودہ سیٹ اپ نے آئی ایم ایف سے ڈیل کرکے وقتی طور پر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ معاشی استحکام آگیا ہے۔ اب بھی ڈالر اور مہنگائی کنٹرول میں نہیں آرہے ہیں۔ روزانہ فوج اور حکومت کوششیں کرکے چند ارب کا انتظام کرتی اور ملکی انتظام چلاتی ہے جبکہ اوپر سے سیلاب نے کسر پوری کردی۔ تاہم اگر اتحادی جماعتوں کا آپس میں کوئی مسئلہ آجاتا ہے اور حکومت خود ٹوٹ جاتی ہے یا پھر اگر معاشی استحکام کے بعد متفقہ طور پر سیاسی جماعتیں قبل ازوقت انتخابات کراتی ہیں تو فوج نہ رکاوٹ بنے گی اور نہ مداخلت کرے گی۔”
عمران خان کو آرمی چیف نے یہ ضرور یقین دہانی کرائی کہ حکومت اگر خود ٹوٹ جاتی ہے یا اتحادی قبل از وقت انتخابات کا فیصلہ کرتے ہیں تو فوج اس میں رکاوٹ نہیں بنے گی اور جس طرح ضمنی انتخابات میں فوج نے مداخلت نہیں کی اس طرح آنے والے انتخابات میں بھی وہ اپنا کردار ادا کرے گی۔ اس سے زیادہ لیوریج عمران خان کو کیا مل سکتا ہے؟ چکوال میں ہونے والی تقریر اور تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے اجلاس میں اسٹیبلشمنٹ سے تعلق رکھنے والوں پر برسنے کے پیچھے یہی وجوہات کار فرما تھیں۔ آج کے جلسہ میں دیکھنا یہ ہے کہ وہ ایک قدم آگے بڑھتے ہیں یا ریورس گیئر لگاتے ہیں۔
اس ملک میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ بات کا بتنگڑ بنایا جا سکتا ہے۔ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کیا جا سکتا ہے۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والے جمہوریت کش اقدام تو ہمیشہ سے کرتے رہے ہیں۔ آرمی چیف نے بھی عمران خان کو اسمبلیوں میں واپسی کے لیے کہا ہے اور سپریم کورٹ نے بھی یہی صلاح دی ہے۔ اس کے پیچھے کی حکمت کو سمجھنے کی بجائے یہی رٹ جاری ہے کہ فوری انتخابات کروائے جائیں۔ ملک میں سیلاب ہو یا کوئی اور بڑی آفت بھی آ جائے کوئی پرواہ نہیں لیکن انتخابات کروائے جائیں تاکہ وہ اقتدار میں آ سکیں۔ یہ کام جمہوری عمل سے ہو یا غیر جمہوری راستہ اختیار کیا جائے کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ویسے موصوف پہلے کونسی جمہوری عمل سے اقتدار میں آئے تھے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو بے دست و پا کر کے انہیں معمولی اکثریت دلائی گئی تھی سو یہ معاملہ ان کے نزدیک اہم نہیں ہے۔ پہلے ان کے لیے بساط بچھائی جا سکتی ہے تو اب کیوں نہیں۔ جمہوری عمل کے ذریعے اس اسمبلی کی مدت حکومت کی خواہش کے برعکس کم نہیں کی جا سکتی ہاں قائد ایوان تبدیل ہو سکتا ہے۔ اپوزیشن اقتدار میں آ سکتی ہے لیکن یہ تو اسمبلی سے باہر ہیں۔ ایک ہی طریقہ ہے کہ یہ اسمبلی میں واپس جائیں اور پھر اعتماد کے ووٹ کے ذریعے انہیں فارغ کیا جائے۔ دیکھتے ہیں کہ اس حوالے سے یو ٹرن کب لیتے ہیں۔ ویسے پہلی محبت کم ہی بھولتی ہے ورنہ توہین عدالت کے کیس میں اتنے ناز نخرے اٹھانے کی کوئی دوسری وجہ سامنے نہیں آتی۔ یہ تسلیم کرنے کے باوجود کہ بھٹو اور نوازشریف کو فوج نے اس انجام سے دوچار کیا ان سے دشمنی نہ کرنے کی کوئی تو دلیل دیں کہ انہیں یہ رعایت کیوں دی جا رہی ہے۔ اس کے لاڈ کیوں اٹھائے جا رہے ہیں۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔