پاکستان کی شناخت پر حملہ

ہم سیلاب کی تباہ کاریوں پر غمزدہ انفرادی اور قومی گناہوں کا عمومی احساس اُجاگر کرکے مغفرت طلب رہے۔ نہیں جانتے تھے کہ ہماری قومی، اجتماعی غفلت سے ایک ہولناک جرم پوری دیدہ دلیری سے کیا گیا۔ دنیا بھر میں بڑھتا پھیلتا ہم جنس پرستی کا قبیح ترین گناہ32ممالک میں باضابطہ شادی کا حق رکھتا ہے۔2011ء میں اقوام متحدہ نے LBGTQکی مذموم اصطلاح کو انسانی حقوق کے زمرے میں شامل کیا۔ رکن ممالک پر ان کیلئے قوانین بنانے اور تحفظ دینے پر زورڈالا۔ پاکستان نے بڑھ کر لبیک کہا۔قرآن کریم کے واضح احکام سے متصادم ایک قانون چاروں بڑی سیاسی جماعتوں کے اتفاق واشتراک سے بنا دیا گیا۔ ایک گناہِ کبیرہ کو دبے پاؤں چور دروازے سے قانونی حیثیت دے دی گئی۔ یعنی عمل قوم لوط،سدومیت کو اب معاشرہ قبول کرلے، میلی آنکھ سے نہ دیکھے، عزت دے، اُف بھی نہ کرے۔ ہم سیلاب کی شدت میں اللہ تعالیٰ کا بے پناہ غضب محسوس تو کرتے تھے، مگر نہ جانتے تھے کہ ہم تین عالمی مذاہب اور ان کی کتب وصحائف میں واضح طور پر اس جرم کی شناعت،گرفت اور بدترین عذاب کی تفصیلات کے باوجود یہ ہم کر گزریں گے؟ 20سال برادر ملک پر مسلم کشی کے جرم میں صلیبی جنگ(بش کے الفاظ) میں حصہ داری کا گناہ، سود پرا للہ رسول کے خلاف جنگ کی، قرآنی وعید کے باوجود احکام الٰہی سے مکمل اعراض گویا کافی نہ تھا ہماری بربادی کو۔
تفصیل اس قانون کی، مضمرات، نتائج دیکھئے۔ یہ ملک پر ان مخدوش ترین حالات میں دینی اساس، نظریاتی سرحدوں پر جارحانہ تہذیبی ثقافتی قانونی حملہ ہے، جس نے ہماری جڑ بنیاد میں بارودی سرنگیں بچھا دی ہیں۔مسئلہ زیر بحث یوں ہے کہ: ازل سے دنیا میں دو ہی اصناف انسانوں میں پائی جاتی ہیں۔ مرد اور عورت۔ تیسری صنف، صنفی ابہام کی بنا پر مخنث، خنثیٰ اور انگریزی میں انڑ سیکس یا ’ہر مافروڈائٹ‘کہلاتی ہے۔ یہ بہت کم تعداد میں پائی جاتی ہے۔ محتاط تخمینے کے مطابق 0.5فی صد یا 0.018فی صد بیان کیے جاتے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے کہ پیدائشی نقص کی بنا پر (نابینا، گونگے کی طرح) ان کا تحفظ، درست شرعی رویہ، عزت کا حق ہم سبھی کے ذمے ہے۔ اس پر تہذیبی جہالت، ثقافتی استحصال کی درستی یقینا حکومت کی بھی ذمہ داری ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ان کا نام لے کر، عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر مغربی لنڈے بازار سے ایڈز (HIV) سے لتھڑی متعفن ہم جنسی کی آلودگی کو قانون کا تقدس خاموشی سے دے دیا گیا۔
مغرب میں خاندانی نظام بکھر گیا۔ ماں کی گود چھن گئی۔ گھروں میں سکینت اور تحفظ کی جگہ وحشت بھر گئی۔ چھوٹے بچے باپ کے نام سے محروم، لاعلم بلا نکاح دھڑا دھڑ دنیا میں لاپٹخے جاتے رہے۔ بچوں کی نگہداشت(Day Care) کے مراکز کی آیائیں یا ٹوٹے گھروں کے متبادل گود لینے والوں کے ہاں حقیقی مامتا کے لمس، امڈتے جذبات سے لبالب بھری محبت انڈیلتے وجود سے محروم پلتے بچے۔ نفسیاتی امراض، تشنگی، محبت کی پیاس، تلاش زندگی بھر کا روگ بن جاتی ہے۔ اسی روگ کا نتیجہ ایک چوتھی صنف کا مغرب میں اُبھر آنا تھا، جسے ٹرانس جینڈر کہا گیا۔ یعنی دو اصناف کے درمیان ذہنی نفسیاتی طور پر متذبذب یہ کھڑے ہیں۔ پیدا تو واضح جسمانی ساخت پر ہوئے ہیں۔ مکمل مرد، مکمل عورت، لیکن نفسیاتی الجھن، خللِ دماغی (معاشرتی دباؤ یا ذاتی پسند وناپسند کے نتیجے میں) کی بنا پر صنفی شناخت کے نفسیاتی ابہام کے عارضے میں مبتلا ہیں جسےGender Dysphoriaکہا جاتا ہے۔ یعنی صنفی بے چینی، گھبراہٹ، بے قراری، اضطراب، بے یقینی، اس کا نتیجہ چڑچڑاہٹ اور عدم اطمینان ہوتا ہے۔
ایسی نفسیاتی بیماریوں کا علاج حکیم ِمغرب کے پاس کیونکر ہوسکتا ہے، کیونکہ وہاں تو: شادباد اے مرگ عیسیٰ آپ ہی بیمار ہے۔ یہ ایک طرح کا صنفی منافق ہوتا ہے۔ مرد ہوتا ہے، عورت بن کر رہتا/ رہنا چاہتا ہے۔ عورت ہوتی ہے مرد بن کر رہتی/رہنا چاہتی ہے۔ ہمارے نارمل دماغ(بحمد للہ) تو ان کیفیات کو سمجھنے میں ہی چکرا کر رہ جاتے ہیں۔ یہاں سے ہم جنس پرستی معاشرے میں قدم رکھتی ہے۔ شیطان نے باریک چال سے اسے متعارف کروادیا اور پھر چل سو چل۔ فرد کے علاج کی بجائے فرائیڈی نفسیات، جبلتوں کی غلامی کے تصور پر جہنم رسید ہونے کا سرکاری اہتمام ہوگیا۔ یعنی ایک مرد(جو یہ کہتا ہے) جو خود کو عورت محسوس کرتا، عورت بن بیٹھتا ہے(زبانی کلامی یا باضابطہ ہارمونی علاج کروا کر احساسات کے تابع)اور پھر ایک مرد سے شادی کرلیتا ہے۔ یا ایک عورت جو خود کو مرد کہہ کر ظاہری حلیہ مردانہ اختیار کرلیتی ہے اور پھر ایک عورت سے شادی کرلیتی ہے۔ یہ دیوانگی، گناہِ عظیم کل تک پاکستان میں ممکن نہیں تھا۔ جرم تھا۔ گھروالے اسے پاگل خانے میں تو داخل کرواسکتے تھے مگر ایسی شادی کسی طور رچا نہ سکتے تھے۔ گناہِ کبیرہ تھا۔ معاشرتی طور پر ناقابل قبول تھا۔ خلافِ قانون تھا۔ اب یہ ہے وہ بل جو پاکستان مسلم لیگ نون اور قاف، پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی مکمل تائید اور چاروں کے اشتراک سے پیش ہوا۔ جولائی 2018ء میں تحریک انصاف نے(جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے اختلاف کے باوجود)بہ صد فخرو انبساط، ریاست مدینہ(نعوذ باللہ) کے دعوؤں کے بیچ اسے قانون کی شکل دے دی۔
اب ایک مکمل مرد اپنے احساسات (Self-Perceived Gender Identity) کی بنیاد پر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں خود کو اپنی پیدائشی شناخت بدل کرنادرا کے شناختی کا غذات، تمام سرکاری دستاویزات میں ’عورت‘ کی جنس کے طور پر رجسٹر کرواسکتا ہے۔ چاہے تو ٹرانس جینڈر یعنی بے صنف بھی لکھوا سکتا ہے۔ یہی حق ایک عورت کو بھی حاصل ہے۔ دیگر ملکی، شرعی قوانین سے قدم قدم متصادم یہ قانون عالمی متعفن باڑوں میں ’LBGTQ‘ نام کے خنازیر پالتے اور دنیا بھر میں جسمانی روحانی نفسیاتی وباؤں،بیماریوں کو پھیلا کر انسانیت پر ظلم عظیم ڈھاتے ہیں، اب یہی پاکستان میں بھی کھول دیا گیا ہے۔ مذکورہ بالا ’L‘ (سدومی عورتیں)،’B‘ جن میں مرد وزن (حلال حرام) سے قطع نظر سبھی سے استفادہ ممکن ہے(یعنی سدومی مرد وزن)’G‘(سدومی مرد)’T‘ (ٹرانس جینڈر) ذہنی مریض اور ’Q‘یعنی ’Queer‘بے ڈھب، منحرف، غیر حقیقی(جنسی تعین کے معاملے میں) بدلتے رویے کا حامل۔  ٹرانس جینڈر کو بھی امریکی رپورٹ میں صنفی منحرف کہا گیاہے۔
امریکا میں  ٹرانس جینڈر 14لاکھ ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق امریکی عوام(خلافِ فطرت ہونے کی بنا پر) انہیں قبول نہیں کرپاتے۔ ہر جگہ ان سے تفریق برتی جاتی ہے۔ ملازمت، شادی، فوج وغیرہ میں۔ امریکی سپریم کورٹ نے 2020ء میں ضابطے سے حق ملازمت انہیں دیا۔ جس چھچھوندر کو امریکا، آسٹریلیا، برطانیہ، اسرائیل، بھارتی حلق سے کما حقہ (جتنا شیطان اور یو این نے چاہا تھا) نہ اُتار سکے، وہ ہماری لاعلمی میں گدھے کے گوشت اور لمپی اسکن کے بیمار جانوروں کی طرح ہمیں ٹھنسا دیا گیا!
اب ذرا اس کا نتیجہ دیکھئے۔ جولائی2018ء میں یہ قانون منظور ہوا (ٹرانس جینڈر ایکٹ)۔ امریکی رینڈ کارپوریشن کے منصوبے کے تحت تیاری پہلے سے یہاں 20برسوں میں ہوچکی تھی۔ انہوں نے علی الاعلان کہا تھا کہ ہم اسلام کا اصل چہرہ ہی بدل ڈالنا چاہتے ہیں، چنانچہ جولائی2018ء تا جون 2021ء وزارتِ داخلہ کے مطابق 3برسوں میں 28,723افراد نے اپنے محسوسات، جذبات(جسمانی حقائق نہیں)کے مطابق اپنی پیدائشی جنس جو کاغذات میں درج کی گئی تھی، اسے وہ شناختی کارڈ/ دستاویزات میں تبدیل کرواچکے ہیں۔ ان میں 16530مرد ہیں۔ یہ صنفی دیوانے کھلے پھر رہے ہیں۔ شلوار قمیض دوپٹہ پہنے، سرخی پاؤڈر لگائے۔  اب یہ اصلاً مرد مگر کاغذی وظاہری عورت بنے زنانہ بیت الخلاء، سوئمنگ پول، جم غرض خواتین کیلئے مختص ہر جگہ قانون کے تحفظ میں جاگھسے گا/ گی۔ خواتین کے تمام حقوق پائے گا/ گی۔
12,154اصلاً خواتین ہیں مگر کاغذی، قانونی مرد بن چکی ہیں۔ ان پر جو بیتے گی تو کون سادر کھٹکھٹائیں گی/ گا؟ حیا دار، باپردہ، خاندانی خواتین/  مردوں کیلئے یہ کھلے پھرنے والے/ والیاں کتنے خوفناک ہیں، از حیار فتہ طبقہ کیا جانے! اس قانون میں ڈاکٹری طبی معائنے کا کوئی گزر نہیں۔ بہکے بھٹکے احساسات کی حکمرانی ہے۔ جنوں کا نام خرد رکھ دیا خرد کا جنوں! ابلیسی وعدہ پورا ہوا پاکستان میں:’میں انہیں حکم دو گا اور وہ میرے حکم سے خدائی ساخت میں رد وبدل کریں گے۔‘(النساء:آیت 119)۔ یہی کارندے ہیں حزب الشیطان کے۔ اس پیدائشی بناوٹ میں رد وبدل کو شیطانی فعل قرار دیا گیا ہے۔ اس قانون سے ہم جنس پرستی جواز پا کر پھیلے گی حکومتی سر پرستی میں۔
تحریک ِانصاف،پیپلز پارٹی لبرل دین سے فارغ جماعتیں ہیں،انہیں اس کا غم کیوں ہو؟بلا وجہ تو قانون نہیں بنایا۔البتہ مسلم لیگ ن اور’ق‘ دینی شناخت بظاہر نہ رکھتے ہوے بھی روایتی اسلام اور اقدار والے کارکنان بھی تو رکھتی ہے۔شریف خاندان کے اصل رجحانات بہر طور اسلامی تھے۔اس قانون سے عورت کاغذ میں مرد بن کر قانونِ وراثت درہم برہم کر دے گی جوا للہ سے بغاوت ہے۔ وعید شدید ترین ہے۔(النساء: 13-14) نظریاتی کونسل مئی 2022ء میں اس قانون کو خلافِ شریعت قرار دے چکی ہے۔ اکتوبر میں اس قانون پر پارلیمنٹ نے حتمی فیصلہ دینا ہے۔اگر قانون بن گیا تو یہ دینی مسلّمات پر قاتلانہ حملہ ہو گا۔ یہی وقت ہے کہ تمام جماعتیں، تنظیمیں، علماء،مدارس بیک زبان غیور عوام الناس کو لے کر اُٹھ کھڑے ہوں۔ہر سطح پر اس قانون کی شرمناکی واضح کی جائے۔قانون بدلوایئے۔یہ ہر مسلمان کا ایمانی فرضِ اولین ہے۔ا للہ کے شیروں کوآتی نہیں روباہی!