آنریبل منسٹر فارسکول ایجوکیشن پنجاب، میں نے کچھ برسوں سے سیاسی و سماجی تقریبات میں شرکت محدود کردی ہے کیونکہ ہم وہی وقت اپنوں کو دے سکتے ہیں، اپنے کام اورمطالعے کو دے سکتے ہیں مگر میں بدھ کے روز وحدت روڈ پرانصاف اکیڈمی کی افتتاحی تقریب میں اس لئے شرکت کے لئے پہنچ گیا تھا کہ مجھے سب سے پہلے آپ کے دفتر سے محمد عاطف صاحب نے فون کر کے شرکت کی درخواست کی اور تفصیلات واٹس ایپ کیں، اس کے بعد پراجیکٹ کے فوکل پرسن کے طور پر خود کو متعارف کروانے والے جناب خالد مسعود کے پیغامات موصو ل ہوئے۔ اس کے بعد اور صاحب کالز کرتے رہے کہ وہ دعوت نامہ لے کرآنا چاہتے ہیں اور وہ دفتر پہنچ گئے۔ مجھے لگاکہ یہ طالبعلموں کی مدد کے لئے واقعی کوئی اہم اقدام ہے اور مجھے تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر میں بہتری سے ذاتی طور پر دلچسپی ہے۔ ایک صحافی اور کالم نگار کی ذمہ داری بھی یہی ہوتی ہے کہ جہاں وہ اچھا کام دیکھے اس کی تعریف کرے، جو سوالات ہوں وہ پوچھے اور غلطیوں پر تنقید کرے۔ میرے ذہن میں بنیادی طورپر دو سوالات تھے، اول، ہمیں اکیڈمی کے نام اور کلچر کی ترویج کی ضرورت کیوں ہے، کیا ہم اپنے سرکاری سکولوں کو اس قابل نہیں بنا سکتے کہ وہاں سے طالب علم اپنے سبق کو مکمل طور پر سمجھ سکے اور دوسرے یہ کہ سرکاری وسائل سے بنائی گئی اس اکیڈمی کانام آپ کی سیاسی جماعت کے نام پرکیوں ہے، کیا سندھ کی حکومت پیپلز اکیڈمی اور وفاق میں نواز لیگ اپنے نام پر اکیڈمی بنا کے بچوں کی ذہن سازی شروع کر دے، چلیں،میرا شکوہ بعد میں، پہلے مدعا بیان کر لیتاہوں۔
آنریبل منسٹر فار سکول ایجوکیشن پنجاب،مجھے حیرت ہوئی کہ آپ ایک سو فیصد تعلیمی تقریب میں سیاست کوگھسا رہے تھے، آپ کی گفتگو کے ہر پیراگراف کا اختتام نواز لیگ کی اس کرپشن پر ہو رہا تھا جسے آپ لوگ آج تک کسی عدالت میں ثابت نہیں کرسکے۔ آپ کہہ رہے تھے کہ آپ نے محکمے میں تبادلوں میں ٹرانسفر پوسٹنگ کی ایپ بنا کے اڑھائی ارب جبکہ مجموعی طور پر دس ارب روپے سالانہ کی کرپشن کا خاتمہ کر دیا۔ آپ کا فقرہ دل کو لگا کہ خواتین اساتذہ کو ٹرانسفرکے لئے حکومتی ارکان کے ڈیروں پرجانا پڑتا تھا، آپ نے فیمیل، عزت اور مس یوز جیسے الفاظ استعمال کئے۔آپ نے بتایا کہ آپ کے دور میں آن لائن ٹریننگ شروع ہوئی اور آپ سے پہلے اساتذہ کا یہ تربیتی مرکز ایک کھنڈر تھا اور یہ کہ آپ کے آنے سے پہلے پانچویں کے بعد ڈراپ آوٹ ریٹ ستر فیصد تھا اور نواز لیگ دو سو پچانوے ارب سے دس سال میں سات ہزار آٹھ نئے سکول بنانا چاہتی تھی وہ آپ نے پرائمری سکولوں میں سیکنڈ شفٹ شروع کر کے ایک برس میں ہی ایک لاکھ بچے سکولوں میں پہنچا دئیے۔ آپ نے کہا کہ پانچویں اورآٹھویں کے امتحانات میں ٹیچرز چیٹنگ کرواتے او ر سکھاتے تھے اور یہ چیٹرز نون لیگ کے ووٹرز بن جاتے تھے سو آپ نے وہ ایگزام ہی ختم کر وا دئیے۔ آپ نے سنگل نیشنل کریکولم اور ٹرانس سکولز کا بھی کریڈٹ لیا۔
آنریبل منسٹر فار سکول ایجوکیشن پنجاب، میں آپ کی باتوں سے بہت متاثر ہوا، میں نے باقاعدہ نوٹس لیے اورچاہا کہ ان تمام اچھی باتوں پر ایک پروگرام کروں مگر خالدمسعود نامی آپ کے بندے نے پروگرام میں شرکت کی دعوت کا جواب تک نہ دیا اور میں اس وقت حیران رہ گیا جب مجھے پتا چلا کہ آپ کی انصاف اکیڈمی اصل میں شہباز شریف کے پروگرام ’ای لرن‘ کی نقل ہے جسے آپ اپنی اور اپنے ماہرین کی ایجاد قرار دے رہے تھے۔آپ سوشل میڈیا پر شہباز شریف کے ڈیجیٹلائزیشن کے مشیر عمر سیف کے بھانڈا پھوڑنے کا جواب تک نہیں دے سکے۔ میں نے گوگل کیا تو مجھے علم ہوا کہ ابھی تک ای لرن پروگرام انٹرنیٹ پر موجود ہے جو آپ کے دعوے کا منہ چڑا رہا ہے۔ میرا سوال تھا کہ جب ہمارے اسی فیصد طالب علموں کے پاس انٹرنیٹ یا ڈیجیٹل گیجٹ ہی موجود نہیں تو اس آن لائن اکیڈمی کا فائدہ کیا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ سوال ای لرن بارے بھی ہوا جس پر اس کا تمام تر ڈیٹا سکولوں کی کمپیوٹر لیبارٹریوں میں منتقل کیا گیا اور وہاں سے یہ لیکچر ڈیلیور کروائے گئے۔ مجھے ان چار، پانچ چہروں پر بھی حیرانی ہوئی جو آپ کے دائیں بائیں کھڑے ہو کے اپنی ایجاد پر بے شرمی کے کے ساتھ اپنے لئے تالیاں بجوا رہے تھے اور کسی میں یہ اخلاقی جرات نہ تھی کہ سابق حکومت کے پروگرام کا نام تک لیتا۔ سابق حکومت کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے ہونہار بچوں میں لاکھوں کی تعداد میں لیپ ٹاپ تقسیم کئے یعنی ای لرن پروگرام تک رسائی کے وہ قابل ہوگئے مگر آپ کی حکومت نے چار برسوں میں کسی ایک طالب علم کو بھی لیپ ٹاپ نہیں دیا۔ آپ نے تو مفت وائی فائی کا نظام ہی ختم کر دیا لہذا ایسے میں آپ کا آن لائن انصاف اکیڈمی کے ذریعے ہر گھر کے سکول بننے کا دعویٰ مضحکہ خیز نہیں ہے؟
آنریبل منسٹر فار سکول ایجوکیشن،اس صورتحال نے مجھے آپ کے دعووں پر شک میں مبتلا کیا اور میں نے تحقیق کی تو علم ہوا کہ ای ٹرانسفر کا کام کمپیوٹرائزڈ ڈیٹا سے ہی ممکن تھا اور یہ کام بھی شہباز شریف کے دور میں ہی ہوا، آپ نے صرف اس کی ایپ بنائی۔ دلچسپ بات تو یہ پتا چلی کی اس ایپ پر ٹرانسفر ہوتی ہی نہیں تھی اور وہاں ٹرانسفر پر’بین‘ ہی چلتا رہتا تھا،اس کے لئے خواتین اساتذہ کو آپ کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کے ڈیروں پر جانا پڑتا تھا اورپھرہارڈ شپ کیسز پر آپ حکم جاری کرتے تھے۔ اس ٹرانسفر کا ریٹ بھی پچا س ہزار سے ہی شروع ہوتا تھا۔ مجھے رانا مشہود احمد خان نے بتایا کہ آپ حکومت ختم ہونے پر جاتے جاتے تین روز میں پندرہ ہزار ٹرانسفریں کر کے اربوں روپوں کی دیہاڑی لگاگئے اور یہ معاملہ مبینہ طورپر اینٹی کرپشن میں ہے اور اسی وجہ سے آپ نے ڈی جی اینٹی کرپشن کو تبدیل کروایا ہے۔رانا مشہود احمد خان کہہ رہے تھے کہ وہ آپ کے خلاف کرپشن کا کیس تیار کر رہے ہیں، ان کی مکمل گفتگو آپ کے لئے چشم کشاہو گی جو میرے پروگرام ’نیوز نائیٹ‘ کے سوشل میڈیا پیجز پر موجود ہے۔ آن لائن ٹریننگ بھی کوئی کمال نہیں کہ کورونا کے دوران پوری دنیا انٹرنیٹ پر ہی شفٹ ہوچکی ہے۔ یہ بھی دلچسپ رہا کہ اگر آپ کے مطابق کسی امتحان میں نقل ہوتی تھی تو آپ نے نقل کی بجائے امتحان ہی ختم کردیا۔
میرا اعتراض تھا کہ ہمیں اپنے سکولوں کو اس قابل بنانا چاہیے کہ بچوں کو ٹیوشن کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو، میں اس پر بات کرنا چاہتا ہوں مگر یہ بات لمبی ہوجائے گی لہذاآپ کی اس کارکردگی پر میں کالم کے دوسرے حصے میں بات کروں گا، یہاں صرف یہ ذکر کردیتا ہوں کہ آپ نے جو ’آفٹر نون‘ سکول بنائے وہاں مہینو ں سے تنخواہیں ہی نہیں مل رہیں۔ آپ نے کالجوں کی طرح سکولوں میں بھی معمولی تنخواہوں پر جو معمولی تعلیم یافتہ ’ایس ٹی آئیز‘ بھرتی کروائے، ان سکولوں اور اساتذہ بارے پتا کر لیجیے، ورنہ اعداد و شمار میں دے دوں گا۔ (جاری ہے)