گزشتہ ہفتے اپنے ایک کالم میں عرض کیا تھا اِس ملک کی تباہی کا ذمہ دار اکثر ہم اپنے سیاسی حکمرانوں کو محض اِس لیے ٹھہراتے ہیں وہ بے چارے”سافٹ ٹارگٹ“ ہیں، جبکہ اِس ملک کی تباہی کے اصل ذمہ داران اِس ملک کے اصلی حکمران ہیں جِن کا نام کُھل کر لیتے ہوئے ہم تو خیر کِسی کھاتے میں ہی نہیں آتے اُس ”خان اعظم“ کے پر بھی جلتے ہیں جو کہتا ہے ”انسان جب کلمہ پڑھتا ہے ہرقِسم کے خوف سے آزاد ہو جاتا ہے“ …… بھئی آپ اگر کِسی خوف میں مبتلا نہیں تو صاف صاف کیوں نہیں بتاتے آپ کو ہٹانے والی اصلی قوتیں کون تھیں؟ یہ بھی بتادیں کِس وجہ سے آپ کو ہٹایا گیا تھا؟ اور اگر آپ کو دوبارہ لایا گیا جِس کے اچھے خاصے چانسز ہیں تو اِس کے پیچھے کیا ایجنڈہ ہوگا؟۔ صاف چُھپتے بھی نہیں ہو سامنے آتے بھی نہیں ہو…… اصلی حکمرانوں میں ہمارے بیوروکریٹس بھی شامل ہیں، اِس ملک کو تباہ کرنے میں اُن کا کردار بھی بہت بنیادی نوعیت کا ہے، مجموعی حیثیت میں پاکستان کو ترقی کے راستے پر ڈالنے کے لیے بیوروکریسی نے اپنے ذاتی ومالی مفادات کو پرے رکھا ہوتا۔ اللہ نے جس مقام ومرتبے سے اُنہیں اُن کی اوقات سے بڑھ کر نوازا اُس کے پیش نظر محروم لوگوں کی اُنہوں نے خدمت کی ہوتی،اپنی اہلیتوں وصلاحیتوں کا استعمال نیک نیتی سے کیا ہوتا۔ سیاسی و دیگر حکمرانوں کے ناجائز احکامات پر آنکھیں، منہ وکان وغیرہ بند کرکے عمل نہ کیا ہوتا۔ آج ملک اِس قدرتباہیوں و بربادیوں کا شکار شاید نہ ہوتا…… اِن ”فرشتوں“ کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، سب سیاسی حکمرانوں کے آگے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑے رہتے ہیں، پاکستان میں مبینہ طورپر لُوٹ مار کرنے والے بے شمار سیاستدانوں پر مقدمے بنے، اُنہیں عدالتوں اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا، ذلتوں اور اذیتوں کا سامنا کرناپڑا۔ میں یہ نہیں کہتا اُن سب کے ساتھ غلط ہوا، جِس نے جو بویا اُسے کاٹنا چاہیے، مگر کتنے ایسے بیوروکریٹس اُن کے ساتھ گرفتار ہوئے جنہوں نے اُنہیں لوٹ مار کے راستے دکھائے؟ اِن راستوں میں جو،اُن کے ”سہولت کار“ بنے رہے؟ سوائے دوچار افسروں کے جنہیں جیل میں بھی ہرطرح کی سہولتیں میسر رہیں، اُن کے ”پیٹی بند بھائیوں نے جیل کی تمام سختیوں کو نرمیوں میں بدلے رکھا، بے شمار افسران نے اپنی نااہلیوں سے اپنے اپنے محکموں کو کروڑوں اربوں کے نقصانات پہنچائے، اِن افسروں سے اگر حساب لیے جائیں اور اُن کے اعمال کے مطابق اُنہیں سزائیں دی جائیں، اُنہیں گرفتار کیا جائے پاکستان کی جیلیں صرف اِن افسران سے بھر جائیں گی۔پر ہمارا جو سسٹم ہے اُس کے مطابق اِن ”زمینی خداؤں“ کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے، وہ اِس یقین میں مبتلا ہیں آخرت میں بھی اُنہیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اِن میں ”جرأت اقرار“ بہت ہوتی ہے ”جرأت انکار“ نہیں ہوتی، ”کماؤ عہدوں“ کے حصول کے لیے اُن میں سے اکثر سیاسی واصلی حکمرانوں کی جِس انداز میں جوتیاں چاٹنے کے لیے اپنے عہدوں کی گریس تک کو داؤ پر لگادیتے ہیں اُس پرشرم آتی ہے اور ہم شکرکرتے ہیں ہم نے مقابلے کا کوئی امتحان نہیں دیا تھا، اِن میں سے اکثر کی ساری عمر کماؤ عہدہ حاصل کرنے اور اُسے بچانے میں گزرجاتی ہے، اِس ”عظیم جدوجہد“ سے باہر نکل کر اُنہوں نے کبھی سوچا ہی نہیں اِس مُلک کے کچھ قرض بھی اُنہوں نے چُکانے ہیں، کچھ فرض بھی ادا کرنے ہیں جِن کا آخرت میں اُن سے حساب ہوگا۔……آج کل ایک نیا ”ٹرینڈ“ چل نکلا ہے، میں اِس کی تفصیلات اکٹھی کررہا ہوں، ہوش رُبا حقائق ہیں کون کون سا افسر غیرملکی شہریت حاصل کرنے کے لیے کیا کیا ناجائز حربے آزما رہا ہے۔ اِس ضِمن میں پاکستان کے وقار کو بھی اُنہوں نے داؤ پر لگایا ہوا ہے، میں کچھ ایسے افسران کو جانتا ہوں جو پاکستان میں کِسی کا ناجائز کام کرنے کا معاوضہ یا رشوت پاکستان کے بجائے اب بیرون ملک یورپ، امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ وغیرہ میں وصول کررہے ہیں، ہرشعبے کے اعلیٰ افسران نے بیرون ملک اتنی جائیدادیں بنالی ہیں اُس کی تفصیل کے سامنے زرداری اور شریف برادران ”فرشتے“ محسوس ہوتے ہیں، …… کِسی کی کیا مجال اُن کی طرف آنکھ اُٹھا کر کوئی دیکھے؟۔ ایک افسر پر اینٹی کرپشن کے چھ پرچے ہیں، اگلے روز ایک شادی میں مجھے وہ مِلا میں نے پوچھا آپ پر اتنے مقدمے ہیں، آپ کُھلے عام پھرتے ہیں، کوئی آپ کوپوچھنے والا نہیں ہے؟؟ چھاتی چوڑی کرکے وہ بولا ”میں نے کوئی چھوٹی موٹی کرپشن کی ہے جو مجھے کوئی پوچھے گا؟“…… چھوٹی موٹی کرپشن کو اب لعنت سمجھا جانے لگا ہے، کیونکہ اِس میں ”پکڑ“ کے چانسز زیادہ ہوتے ہیں، بڑی کرپشن کرکے اُس کا کچھ حصہ دے دِلا کر خود کو ”باعزت بری“ کروانے میں ہرکوئی بڑی سہولت محسوس کرتا ہے، اِن افسروں کے ”چاکے“ اس قدر کُھل گئے ہیں اگلے روز ایک افسر سے میں نے کہا ”آپ نے میرے فلاں رشتہ دار سے دولاکھ روپے رشوت لی ہے اُس کا کام بھی ابھی تک نہیں کیا، شرم نہیں آتی آپ کو؟“۔بڑی ڈھٹائی سے وہ بولا ”بٹ صاحب میں نے رشوت لی ہے تو کام کروں گا، میں نے اپنے بچوں کو کبھی حرام نہیں کھلایا“ ……اب عرض میں یہ کرنا چاہتا ہوں پانچوں اُنگلیاں برابر نہیں ہوتیں، جہاں بیوروکریسی کی غلاظتوں پر ہم بات کرتے ہیں، جہاں اُس کی نااہلیوں کے نتیجے میں ملک کو پہنچنے والے ناقابل تلافی نقصانات کی ہم بات کرتے ہیں، جہاں ہم اُس کے ”اقرار ناموں“ کی بات کرتے ہیں، وہاں اُن افسروں کا بھی ذکر خیر ہمیں کرنا چاہیے جنہوں نے کماؤ عہدوں یا مال وزرکو کبھی اپنا ”دین ایمان“ نہیں بنایا، ایسے افسروں کی تعداد یا تو واقعی آٹے میں نمک کے برابر ہے یا پھر چونکہ ہم اچھائی نہ دیکھنے کی ”معاشرتی خرابی“ کاشکار ہیں تو ممکن ہے ایسے افسران کی تعداد زیادہ ہو مگر وہ ہماری آنکھ سے اوجھل ہوں، …… جگنو سوگئے ہیں یا ہم اندھے ہوگئے ہیں؟۔ بہت کچھ ہمارے سامنے ہے اور کچھ نہ کچھ ہمارے سامنے شاید نہیں بھی ہے۔ گزشتہ دِنوں پنجاب کے دواعلیٰ افسروں سے میری تفصیلی ملاقات ہوئی، اُنہوں نے بڑی محبت سے بلایا، میں چلے گیا، میرا بیٹا بھی ساتھ تھا، اچھے لوگوں سے مِلوانے کے لیے میں اکثر اُسے ساتھ لے جاتا ہوں، تاکہ وہ اُن سے کچھ سیکھے اور اُن کی ”اچھائیوں“ کو اپنی زندگی کا حصہ بناکر پُرسکون زندگی گزارنے میں آسانی محسوس کرے، …… ایک خوبصورت شام چیف سیکرٹری پنجاب جناب کامران علی افضل اور دوسری اچھی شام آئی جی پنجاب فیصل شاہکار کے ساتھ گزری(جاری ہے)