سیاست اگر پاکستان میں واقعی ”عبادت“ ہوتی جیسا کہ اُن مہذب ملکوں میں ہوتی ہے جوخدا کو نہیں مانتے مگر خُداکی مانتے ہیں، ہمارا المیہ یہ ہے ہم خُداکو مانتے ہیں، خُداکی نہیں مانتے…. سیاست اگر واقعی عبادت ہوتی آج مجھے اپنے کالم کا یہ عنوان نہ رکھنا پڑتا ”خِدمت کریں سیاست نہ کریں“ …. ہمارے ہاں کوئی جھوٹ بول رہا ہو، منافقت کررہا ہو، کوئی کسی کو دھوکہ دے رہا ہو، امانت میں خیانت کررہا ہو، ظلم وزیادتی کررہا ہو، لُوٹ مار کررہا ہو، دوسروں کی پگڑیاں اُچھال رہا ہو، اُس کے بارے میں اکثر ہم یہ کہتے ہیں” وہ سیاست کررہا ہے“ …. جیسے کل ایک مجلس میں ایک صاحب دوسرے سے کہہ رہے تھے ” مجھے یہ بات سچ سچ بتانا، میرے ساتھ سیاست نہ کرنا“ …. گویا سیاست ہمارے ہاں جھوٹ کا دوسرا نام ہے، منافقت کا دوسرا نام ہے۔ پاکستانی سیاست کی اِن ہی ”خصوصیات“ کے پیش نظر ہم اپنے سیاستدانوں اور حکمران سیاستدانوں کی خِدمت میں دست بستہ عرض کرنا چاہتے ہیں اِس وقت سیلاب زدگان پہ جواُفتاد آن پڑی ہے، جو قیامت اُن پر ٹوٹی ہوئی ہے قیامت خیز اِن لمحات میں اپنی ذاتی اغراض، ذاتی دُشمنیوں اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر ایک ہو جائیں، اور دیگر ”خصوصیات“ کو خود سے الگ کرکے اپنی ساری توجہ فی الحال سیلاب زدگان کی مدد اور اُن کی خدمت پر دیں ، موجودہ حکمرانوں نے کروڑوں روپے کے اشتہارات سے سیلاب زدگان کی مدد کی آڑمیں اپنی ذاتی تشہیر کا سلسلہ شروع کررکھا ہے، اگر اشتہارات دینا اتنے ہی ضروری ہیں تو اُن اشتہاروں میں اپنی اُن شکلوں کو دیکھانے سے گریز کیا جائے جو دیکھ دیکھ کر لوگ تنگ آچکے ہیں، مختلف اقسام کی ڈرامہ بازیوں میں جو وقت اور پیسہ ضائع کیا جارہا ہے اگر وہ سیلاب زدگان کے درمیان رہ کر اُن کی بحالی پر خرچ کیا جائے تو سیلاب زدہ علاقوں میں زندگی برسوں میں نہیں چند مہینوں میں معمول پر لائی جاسکتی ہے، خصوصاً ہمارے مرکزی حکمران اپنی ”کارکردگی“ کے اتنے اشتہارات دیتے ہیں اِس بناءپر بھی اگر ہم اُنہیں ”اشتہاری حکمران“ قرار دیں یہ غلط نہیں ہوگا۔ جو رقم اشتہارات پر خرچ کی جارہی ہے وہ سیلاب زدگان پر خرچ ہونی چاہیے، ویسے بھی حکمران اپنی جو ”مشہوریاں“ کروڑوں روپے کے اشتہارات سے کرتے ہیں وہ اگر نہ بھی کریں میڈیا میں اُن کی کوریج ہوہی جانی ہوتی ہے، اِس وقت ایک ایک پیسہ بچانے کی ضرورت ہے۔ کم ازکم مصیبت کی اِس گھڑی میں تو حکمرانوں کو سادگی اختیار کرنی چاہیے، اگلے روز ایک حکمران کو میں دیکھ رہا تھا انتہائی قیمتی پوشاک پہن کر سیلاب زدگان کے درمیان وہ کھڑا تھا، جن سے وہ مخاطب تھا اُن کے تن پر پورے کپڑے بھی نہیں تھے، میں پورے وثوق سے کہتا ہوں اس حکمران کی قیمتی پوشاک سے سیلاب سے متاثرہ پورا ایک شہر دوبارہ آباد ہوسکتاہے،…. مگر المیہ یہ ہے شہروں کو اُجاڑنے کا تجربہ رکھنے والے شہروں کوآباد کیسے کرسکتے ہیں؟۔ یہ جذبہ اگر اُن میں ہوتا پاکستان کے یہ حالات آج نہ ہوتے، ….دوسری طرف ”تبدیلی“ کا دعویدار جسے باقی سیاستدانوں سے ہم نے ہمیشہ مختلف قرار دیا، وہ بھی اِن دِنوں اپنی کُرسی چِھن جانے کے دُکھ سے باہر ہی نہیں نکل پارہا، سیلاب زدگان کا دُکھ اُس نے کیا محسوس کرنا ہے گزشتہ روز میں نے اپنی فیس بُک وال پر لِکھا ”جب آرمی پبلک سکول پشاور پر خودکش حملہ ہوا جِس کے نتیجے میں بے شمار بچے شہید ہوئے خان صاحب نے اُس کے سوگ میں اُس وقت کے حکمرانوں کے خلاف اسلام آباد میں دیا جانے والا اپنا طویل ترین دھرنا فوراً ختم کردیا تھا“….اُس وقت اسٹیبلشمنٹ کی وہ ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتے تھے اب اُن کی ہمدردیوں سے وہ محروم ہیں، سیلاب زدگان کمزور لوگ ہیں، بے یارومددگار ہیں۔ اُن کی خاطر کچھ عرصے کے لیے خان صاحب اپنی سیاست بھلا کیسے ملتوی کرسکتے ہیں؟ ۔کُرسی چِھن جانے کے دُکھ کو سیلاب زدگان کے دُکھ پر قربان وہ بھلا کیسے کرسکتے ہیں؟۔ میں تو یہ توقع کررہا تھا کہیں اُن کا یہ بیان نہ آجائے ” پاکستان میں حالیہ سیلاب بھی ایک امریکی سازش ہے جس میں موجودہ حکمران پوری طرح ملوث ہیں“….وہ ہمارے ملک کے شاید واحد ”سیاستدان“ ہیں جو پہلے بولتے ہیں پھر سوچتے ہیں اور اگر اُنہیں یقین ہوجائے اُنہوں نے غلط بولا ہے پھر اُس پر ڈٹ جاتے ہیں۔ اور صحیح بولنے پر اکثر یوٹرن لیتے ہوئے ہم نے اُنہیں دیکھا ہے۔ اُنہیں اگر کُرسی کے بجائے واقعی پاکستان سے محبت ہوتی گزشتہ ہفتے جہلم میں ”جلسہ گردی“ کرنے کے بجائے پہلے ہی روز وہ یہ اعلان کردیتے ”سیاست کو میں بعد میں دیکھوں گا فی الحال مجھے اپنی ساری توجہ اپنے ملک کے مصیبت زدگان کی مدد پر دینی ہے“…. میڈیا یا سوشل میڈیا کا اُن پر پریشر نہ پڑتا سیلاب زدگان کے حق میں ایک بیان تک دینے سے وہ شاید گریز کرتے، شکر ہے کل اُنہوں نے سیلاب زدگان کے لیے ایک ٹیلی تھون کرلیا، ورنہ یوں محسوس ہورہا تھا وہ شاید اِس وہم میں مبتلا ہیں اگر اندرون وبیرون ملک سے سارا چندہ لوگوں سے اُنہوں نے سیلاب زدگان کے لیے لے لیا بعد میں پی ٹی آئی کیلئے چندہ اُنہیں کون دے گا ؟…. جہاں تک مرکزی حکمرانوں کا تعلق ہے وہ کوئی کام اپنی ”روایت“ سے ہٹ کر نہیں کررہے، وہ سمجھتے ہیں کم ظرفیوں میں اُنہیں خان صاحب کا مقابلہ نہیں کرنا، اِس مقابلے میں اُن سے آگے نکلنا ہے۔ یہی وجہ ہے سیلاب پر مشاورت کے لیے وزیراعظم شہباز شریف نے جو اے پی سی بلائی اُس میں ملک کی ایک بڑی جماعت پی ٹی آئی یا اُس کے سربراہ کو دعوت ہی نہیں دی گئی۔ مجھے یقین ہے خان صاحب نے اِس اے پی سی کا بائیکاٹ ہی کرنا تھا مگر حکمرانوں نے اُنہیں دعوت نہ دے کر جس کم ظرفی کا مظاہرہ کیا وہ کم ازکم اُنہیں اِس موقع پر ہرگز نہیں کرنا چاہیے تھا۔ یہ موقع اُنہیں خان صاحب کو دینا چاہیے تھا کہ وہ اے پی سی میں شرکت نہ کرکے ثابت کرتے اُنہیں صرف ذاتی مفاد ہی عزیز ہے، …. خان صاحب کی الیکٹرانک میڈیا پر لائیو کوریج پر بھی پابندی ہے، اِس سے بھی اُنہیں کوئی فرق نہیں پڑ رہا، وہ جوکچھ اول فول کہتے ہیں کسی نہ کسی ذریعے سے لوگوں تک پہنچ جاتا ہے، ویسے بھی لوگوں کو پتہ ہوتا ہے اُنہوں نے وہی کہنا ہے جو پچھلے کتنے ہی برسوں سے وہ کہتے چلے آرہے ہیں، میرے خیال میں اُن پر یہ پابندی ہٹا دینی چاہیے، خصوصاً سیلاب زدگان کے لیے اُنہوں نے جو ٹیلی تھون کیا اُس کی لائیو کوریج کی اجازت نہ دینے کا اقدام انتہائی بھونڈا ہے !!