گمراہ کن مہم کے خالق پر ہاتھ ڈالیں

ملک کو جس طرح فری فار آل کر دیا گیا ہے اس سے پاکستان کی ریاست اور ریاستی ادارے شدید خطرات سے دوچار ہیں۔ ہائیبرڈ وار کے نام پر کچھ حلقوں نے اپنی سیاسی مہمات کو کامیاب بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر بھرتیاں کی تھیں اس مقصد کے لیے ریاستی وسائل کا استعمال بے دردی سے کیا گیا۔ یہ جنگجو ہر قسم کی اخلاقیات سے عاری تھے اور ان کا ایک ہی کام تھا کہ جھوٹ کو اتنا پھیلا دو کہ سچ کے بارے میں لوگ جان ہی نہ سکیں۔ دن رات یہ لوگ اس کام میں جتے رہے اور اس کے بل بوتے پر جھوٹ پر مبنی بیانیہ تشکیل دینے میں کامیاب ہو گئے۔ جن کے پاس یہ اہلیت تھی کہ وہ سچ اور جھوٹ میں تمیز کر سکیں انہیں دبا دیا گیا ان کی ٹرولنگ کی گئی، سوشل میڈیا پر انہیں گالیاں دی گئیں اور مقصد صرف یہ تھا کہ وہ چھپ کر بیٹھ جائیں اور کسی جگہ سے کوئی آواز نہ ابھرے۔ مطلب سچ کی آواز کوئی نہ پھیلا سکے۔ آپ صبح شام دن رات جھوٹ کی فصل بوتے رہیں گے تو جھوٹ کی فصل ہی تیار ہو گی۔ خیبر پختونخواہ میں ایک ہزار سے پندرہ سو سوشل میڈیا انفلیونسر بھرتی کیے گئے اور عمومی طور پر ان کی تنخواہ 25 ہزار روپے مقرر کی گئی اور انہیں اس بریگیڈ کا حصہ بنا دیا گیا۔ پندرہ سو کو آپ پانچ سے ضرب دے لیں تو آپ کو علم ہو جائے گا کہ ایک ہی وقت میں جب ایک غلط بات کو پھیلانے والے اتنی زیادہ تعداد میں سوشل میڈیا پر تشہیر کا کام کریں گے تو ٹرینڈ بھی بنیں گے اور جھوٹ پھیلانے والوں کے فالوورز بھی اسی شرح سے پیدا ہوں گے۔ ایک ہی ہیش ٹیگ کو جب ایک وقت میں آٹھ سے دس ہزار لوگ پرموٹ کریں گے تو ٹرینڈ بنتے دیر کاہے کی۔ پھر ارسلان بیٹے کو ایک کام پر لگا دیا جائے کہ گوگی بٹ کے خلاف جو بولے اسے غداری کے ساتھ جوڑ دو۔ سبحان اللہ العظیم۔ بت شک میرا رب سب سے بڑا ہے اور وہ جھوٹ پھیلانے والوں کا چہرہ ضرور بے نقاب کرتا ہے۔ آج کل ہم یہی دیکھ رہے ہیں۔ مکاری، ہوشیاری اور کینہ پروری کی تہیں آہستہ آہستہ اتر رہی ہیں اور اندر سے بھیانک چہرے برآمد ہو رہے ہیں۔ معاملہ صرف خیبر پختونخوا کا نہیں بلکہ وفاق اور پنجاب میں یہ سب ہوا ہے۔ اس پر ایک تحقیقاتی کمیشن قائم ہونا چاہیے جو اس بات کا کھوج لگا سکے کہ بیروزگار افراد کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے کس طرح استعمال کیا گیا۔ ان سوشل میڈیائی انفیونسرز کی ملازمت کی شرائط کیا تھیں اور انہوں نے اپنا کام کیا بھی ہے یا نہیں؟
آئی ایس پی آر نے کل لسبیلہ ہیلی کاپٹر حادثے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والے تاثر پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ اس حادثے کے حوالے سے چلائی جانے والی یہ میڈیائی مہم انتہائی گمراہ کن اور شہدا کے خاندانوں کے جذبات سے کھیلنے کے مترادف تھی۔ آرمی کا ہیلی کاپٹر سیلاب زدگان کے ریلیف کے کام کی نگرانی کر رہا تھا اور اس میں کورکمانڈر کوئٹہ جنرل سرفراز سمیت فوج کے سینئر
حکام سوار تھے۔ موسم اور فنی خرابی کے باعث یہ ہیلی کاپٹر گر گیا اور تمام لوگ شہید ہو گئے۔ سوشل میڈیا پر بیٹھے ہوئے لوگوں نے منظم انداز میں یہ مہم چلائی کہ اس ہیلی کاپٹر کو امریکہ نے ڈرون کے ذریعے نشانہ بنایا۔ ایک تھیوری یہ گھڑی گئی کہ بلوچستان میں برسرپیکار دہشت گردوں نے اسے نشانہ بنایا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک اور گمراہ کن مہم چلی جسے یہاں بیان کرنا بھی ممکن ہے۔ شہدا کے خون کے ساتھ مذاق کیا گیا اور اس کے پیچھے جو جماعت تھی اس کا نام لینا ضروری نہیں اسے اس کام سے ہی پہچانا جا سکتا ہے۔ شہدا کے خاندانوں میں غصہ اتنا زیادہ تھا کہ انہوں نے فوج کی قیادت سے کہا کہ وہ صدر مملکت عارف علوی کو جنازے میں شریک نہ ہونے دیں حالانکہ وہ سپریم کمانڈر تھے جس کے بعد انہیں جنازے میں شرکت سے منع کر دیا گیا۔ آئی ایس پی آر نے اس مہم کے حوالے سے اپنے جذبات سے قوم کو آگاہ کیا لیکن آئی ایس پی آر کو یہ بھی جاننا چاہیے کہ قوم گزشتہ چار برسوں سے اس عذاب کو جھیل رہی ہے۔ اس گالی بریگیڈ نے کسی ایک سیاسی جماعت کے خلاف کام نہیں کیا بلکہ ہر اس شخص کو نشانہ بنایا ہے جو اس کے راہ میں مزاحم ہوا۔ کیا وقت نہیں آ گیا کہ اس بریگیڈ کو بنانے والے اس کی نشوونما کرنے والے اور اس کی حفاظت پر مامور اپنے جرم کو قبول کریں اور اجتماعی طور پر قوم سے معافی مانگیں۔ اس کے ساتھ ایک اور ٹرینڈ چلایا گیا۔ ڈرون اوپر ڈالر نیچے۔ اس کا پس منظر لسبیلہ کے ہیلی کاپٹر کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ امریکہ نے افغانستان میں جو ڈرون حملہ کیا اس کے ساتھ جوڑا گیا۔ یہ مہم چلی کہ پاکستان نے امریکہ کو فوجی اڈے دیے ہیں اور یہ بھی یہ ڈرون پاکستان سے اڑ کر گیا اور پاکستان کی فضائی حدود کو استعمال کیا۔ پاکستان میں فوجی اڈے امریکہ کو دینے یا ڈرون حملے کے لیے پاکستان کی فضائی حدود کو استعمال کرنے کی بات طالبان نے کی نہ امریکہ نے مگر یہ لوگ کہاں باز آنے والے تھے۔ جعلی حب الوطنی کا لبادہ اوڑھ کر اور خودمختاری کا لیبل چڑھا کر سوشل میڈیا پر مہم کا آغاز کر دیا گیا۔ طالبان اس حملے پر ابھی تک خاموش ہیں اور یہ اطلاعات بھی آ رہی ہیں کہ طالبان میں سے کچھ لوگوں نے ایمن الظواہری کی افغانستان میں موجودگی کی اطلاع دی تھی۔ ایمن الظواہری کی ہلاکت نے طالبان کو مشکل میں ڈال دیا ہے کہ انہیں اب یہ جواب دینا ہے کہ اسے کس نے پناہ دے رکھی تھی۔ یہاں طوفان بدتمیزی برپا ہے کہ پاکستان کو اس لیے ڈالر مل رہے ہیں کہ پاکستان نے اس میں مدد فراہم کی ہے۔
میں ہمیشہ آزادی اظہار رائے کا حامی رہا ہوں لیکن مادر پدر آزادی کا قائل نہیں ہوں۔ یہ آزادی اظہار نہیں ہے بلکہ انتشار کو پرموٹ کرنے کا ایجنڈا ہے۔ ایسے عناصر کے خلاف کارروائی میں تاخیر قومی المیے جنم دیتی ہے۔ پاکستان میں کئی درجن ایجنسیاں کام کر رہی ہیں اور ان عناصر کا کھوج لگانا چنداں مشکل نہیں۔ ان بے روزگار نوجوانوں کو بھی ان کے چنگل سے نجات دلانی چاہیے جو ان کے منظم پروپیگنڈے کو پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں اور ان افراد کے خلاف کارروائی کی جائے جو یہ سب کچھ کرا رہے ہیں۔ اگر ایجنسیوں کو ان کے ہینڈلرز کا پتہ نہیں تو پھر ان اداروں کو تحلیل کردیں اور ان میں کام کرنے والی افرادی قوت کو بجری کوٹنے پر لگا دیں تاکہ کم از کم سڑکیں تو اچھی بنیں۔
پاکستان کی قوم کچھ وقت کے لیے بھول جائے کہ ہمارے ارد گرد کیا ہو رہا ہے بلکہ صرف اس پر توجہ دے کہ ہمارے اندر کیا چل رہا ہے۔ اگر ہم اندرونی طور پر مضبوط ہوں گے تو انہیں جرات نہیں ہو گی کہ وہ ہمارے خلاف سازش کر سکیں۔ پاکستان کو معاشی طور پر جہاں کھڑا کر دیا گیا ہے، دنیا والے اب اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اندر سے کھوکھلا پاکستان کیسے اپنی حفاظت کرے گا۔ اداروں کا کام ہے کہ وہ ان عناصر کے خلاف کارروائی میں ایک لمحے کی تاخیر نہ کریں جو اندر سے ملک کو کمزور کرنے کے ایجنڈے پر کار فرما ہیں۔ جہاں میٹھے بول بولنے سے کام ہو سکتا ہے وہاں اس حربے کو استعمال کیا جائے اور جہاں لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے والا معاملہ ہو وہاں اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔ فتنے کی جڑ سے بیخ کنی ہو گی تو ملک آگے بڑھے گا۔