الیکشن کمیشن نے ممنوعہ فنڈنگ کیس کا تاریخی فیصلہ سنا دیا ہے جس کے مطابق تحریک انصاف نے ممنوعہ فنڈز حاصل کئے، پی ٹی آئی نے امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، اسرائیل سے فنڈ وصول کئے۔ پی ٹی آئی نے 16 اکائونٹس چھپائے، عمران خان نے بحیثیت سربراہ پارٹی جھوٹے سرٹیفکیٹ جاری کئے۔ اس موضوع پر تفصیلاً لکھنا ابھی شاید ممکن نہیں ہے کیونکہ الیکشن کمیشن کے تین ممبران پر مشتمل کمیش نے متفقہ طور پر فیصلہ سنایا ہے جو 70 صفحات پر مشتمل ہے فیصلے کی تفصیلات میڈیا کے ذریعے سامنے آ رہی ہیں مکمل فیصلہ ابھی ہماری دسترس میں نہیں ہے اور کالم لکھنے کا وقت ختم ہونے کے قریب ہے اس لئے فیصلے کے حوالے سے تبصرہ ہی پیش خدمت کیا جا سکتا ہے۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق عمران خان اور ان کی پارٹی فنڈز کے حصول کے لئے غیرآئینی اور غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے۔ ان کی پارٹی کے سرکردہ افراد ایسے اکائونٹس چلانے کے حوالے سے مجرم قرار پائے ہیں جو صریحاً غیرقانونی تھے عمران خان بطور پارٹی سربراہ نہ صرف ایسی سرگرمیوں میں خود ملوث رہے بلکہ دیگر ایسے پارٹی اہلکاروں، عہدیداروں کے سہولت کار بھی رہے جو اسی قسم کی غیرآئینی و غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ عمران خان نے 2008 اور 2013 کے دوران الیکشن کمیشن میں ایسے حلف نامے جمع کرائے جو بالکل غلط اور جھوٹے ثابت ہوئے… وغیرہ وغیرہ۔
فیصلے میں ایسی تفصیلات شامل ہیں جنہیں پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ عمران خان اپنی پارٹی کو غیرآئینی و غیرقانونی سرگرمیوں کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں اماراتی شیخ سے خطیر رقم کی براستہ عارف نقوی، پی ٹی آئی اکائونٹس میں منتقلی کسی محبت یا انسانی جذبے کے تحت نہیں تھی بلکہ طے شدہ معاملہ تھا کہ اس فنڈ کے بدلے عمران خان کیا ’’خدمت‘‘ سرانجام دیں گے اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔ عمران خان نے 2018 میں اقتدار سنبھالتے ہی سب سے بڑا فیصلہ کون سا کیا تھا؟ شاید قارئین کو یاد ہو گا کہ انہوں نے سی پیک پر نظرثانی کرنے کا کہا تھا اور انہوں نے ایسی نظرثانی کی کہ 44 ماہی دور حکمرانی میں سی پیک آگے نہیں بڑھ سکا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کچھ خلیجی ممالک بشمول متحدہ عرب امارات گوادر پورٹ کے فنکشنل ہونے اور سی پیک کے ذریعے بین الاقوامی تجارتی مرکز بننے کے خلاف ہیں۔ ان ممالک کو خدشہ ہے کہ سی پیک کی کامیابی کے نتیجے میں دبئی کی بالخصوص اور خلیجی ممالک کی بالعموم معیشت پر برے اثرات مرتب ہوں گے اس لئے وہ سی پیک کی راہ میں روڑے اٹکاتے چلے آ رہے ہیں۔ عمران خان اور ان کی پارٹی نے اس حوالے سے ’’انتہائی مثبت‘‘ کردار ادا کیا۔
دوسری طرف بھارت، اسرائیل اور ایسے ہی دیگر اسلام دشمن، مسلمان دشمن اور پاکستان دشمن
ممالک پاکستان کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتے ۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ عمران خان اور ان کی پارٹی ایک عرصے سے ’’میں نہ مانوں‘‘ اور ’’انکار‘‘ کی پالیسی کے تحت ملک میں سیاسی اور معاشرتی ہلچل مچائے ہوئے ہیں۔ عمران خان طے شدہ پالیسیوں کے مطابق ایک سکیم کے تحت ملک میں افراتفری پھیلا رہے ہیں۔ جھوٹ اور مکر کی سیاست کے فروغ اور دشنام کی زبان کے ساتھ وہ پاکستان میں افراتفری مچانے کے لئے ہمہ وقت مصروف عمل رہتے ہیں۔ سیاستدانوں کی بالعموم اور شریفوں اور زرداریوں کی بالخصوص کرپشن کے تذکرے اور انہیں برے برے ناموں سے پکارنے کی روایات کے فروغ کے ذریعے وہ معاشرے میں تقسیم کے عمل کو آگے بڑھانے میں مصروف عمل ہیں۔ انہیں ایسا کچھ کرنے میں کامیابی بھی ملی ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا بھی منوا لیا ہے۔ جھوٹ سچ پر مبنی اپنی طویل تقاریر کے ذریعے وہ اپنے فینز پر سحر بھی طاری کر لیتے ہیں۔ انہوں نے سوچی سمجھی سکیم کے تحت طویل جدوجہد کے ذریعے معاشرے میں افتراق و انتشار کے صرف بیج ہی نہیں بوئے بلکہ ان کی آبیاری بھی کی ہے۔ اس لئے غیرملکیوں اور پاکستان دشمن ممالک کی طرف سے عمران خان اور ان کی پارٹی کو فنڈنگ سمجھ میں آتی ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں 13 ایسے اکائونٹس کا بھی ذکر ہے جن کی شناخت نہیں ہو سکی ہے۔ یعنی پی ٹی آئی ان اکائونٹس کا ریکارڈ نہیں دے سکی ہے۔ الیکشن کمیشن نے فیصلے میں 34 غیرملکی کمپنیوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان غیرملکی کمپنیوں کی عمران خان اور ان کی پارٹی میں کیا دلچسپی تھی اور کیوں تھی؟ ظاہر ہے بھارت اسرائیل و دیگر ممالک اور غیرملکی کمپنیاں عمران خان اور ان کی پارٹی کو ریاست مدینہ کے قیام کے لئے تو یہ فنڈ مہیا نہیں کر رہے تھے۔ پاکستان میں انصاف و عدل کی حکمرانی کا قیام بھی ان کا مطمع نظر نہیں ہو گا۔ یہ سب کچھ تو عمران خان عوام کو دھوکہ دینے اور بے وقوف بنانے کے لئے کرتے رہے ہیں۔ ان کی تمام عملی سرگرمیاں اس بات پر دلالت کرتی رہی ہیں کہ وہ ایک خاص ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ جس کی کامیابی کے نتیجے میں پاکستان افتراق و انتشار کا شکار ہو اور عملاً ایسا ہو بھی رہا ہے۔ پاکستان اس وقت جس شدید ترین سیاسی افتراق و انتشار کا شکار نظر آ رہا ہے کیا عمران خان اس کے بہت بڑے ذمہ دار نہیں ہیں؟ کیا ان کی حرکات ہماری سیاست کو پوائنٹ آف نوریٹرن تک لانے کی ذمہ دار نہیں ہیں؟ کیا پاکستان کی سفارتی تنہائی کے ذمہ دار عمران خان نہیں ہیں؟ ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ ہم طویل عرصے سے امریکی اتحادی رہے ہیں۔ ہماری معیشت اور دفاع بھی امریکی عنایات کا مرہون منت ہے۔ چین ہمارا قابل بھروسہ دوست ہے اور سی پیک ہمارے لئے، ہماری بین الاقوامی سیاست کے لئے، ہماری معیشت کے لئے انتہائی اہم ہے۔ یہ ایسے حقائق ہیں جو کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں لیکن عمران خان نے امریکہ کو للکار کر ہمیں اس کے دشمنوں کی صف میں کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے اور سی پیک پر عمل درآمد روک کر چین کے ساتھ دشمنی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ آج ہماری معیشت جس تباہی کے دہانے پر پہنچی ہوئی ہے کیا اس میں عمران خان اور ان کی پارٹی کا عمل دخل نہیں ہے۔ عمران خان کی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کر کے اس کی شرائط کے برعکس کام کر کے آئی ایم ایف پروگرام میں خلل پیدا کیا یہ خلل ابھی تک چل رہا ہے جس کے باعث ہم شدید معاشی بدحالی کا شکار ہو چکے ہیں۔
پاکستان جس سیاسی، معاشی اور معاشرتی گرداب کا شکار ہے، جو فکری اور عملی انتشار کا دور جاری ہے عمران خان اور ان کی جماعت اس کی ذمہ دار ہیں ، ایسی کمزوریاں گو پہلے بھی یہاں پائی جاتی تھیں لیکن عمران خان نے انہیں بڑھاوا دیا۔ ان کی پرورش کی انہیں معاشرے پر غالب کر دیا اور ایسا کرنے میں انہیں بیرون ممالک سے بھی امداد حاصل تھی۔ پاکستان کے دشمن ممالک ایسا کچھ کرنے میں عمران خان اور ان کی جماعت کے ممدومعاون بنے رہے انہیں مختلف حیلوں بہانوں کے ذریعے امداد فراہم کرتے رہے۔ یہ سب کچھ الیکشن کمیشن کے 70 صفحات پر مشتمل فیصلے میں درج ہے۔