آئی ایم ایف اور تگنی کا ناچ

روسی یوکرین جنگ ایک ایسا پینڈورا باکس ثابت ہوئی جس کے اندر ہر ملک کے لیے تباہی کا وافر سامان موجود ہے۔ جنگ شروع ہونے سے پہلے روس کے زرمبادلہ کے ذخائر 650 بلین ڈالر سے زیادہ تھے جو 580 بلین رہ گئے ہیں گویا روس کو ہر مہینے 12 بلین ڈالر کا خسارہ ہو رہا ہے اس کے علاوہ اس کے جنگی اخراجات الگ ہیں مگر روسی صدر پیوٹن اب بھی بضد ہیں کہ وہ اپنے گھر کے آنگن میں نیٹو یا امریکہ کا تسلط قبول نہیں کریں گے۔ دوسری طرف یورپی ممالک روسی تیل کا بائیکاٹ کر کے اس سے دوگنا نرخوں پر تیل خرید رہے ہیں مگر انہیں روسی جارحیت قبول نہیں ہے۔ یہ تو ان ممالک کی بات ہے جو جنگ میں روس کے خلاف فریق ہیں لیکن کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جن کا اس جنگ سے سرے سے کچھ لینا دینا نہیں ہے مگر وہ یورپ اور امریکا سے زیادہ برے طریقے سے اس میں پس رہے ہیں ان میں پاکستان سر فہرست ہے 25 فروری کو جس دن روس نے یوکرین پر حملہ کیا اس دن پاکستانی وزیراعظم عمران خان دوسری جنگ عظیم کے روسی ’’شہداء‘‘ کی قبروں پر پھولوں کی چادریں چڑھا رہے تھے یہ بات درست ہے مگر وہ یہ دورہ نہ بھی کرتے تو بعد میں عالمی واقعات جس طریقے سے unfold ہوئے ہیں تیل اور گیس کی فراہمی اور قیمتوں کے بارے میں پاکستان کا بچنا مشکل تھا اور بالآخر یہی ہوا۔
پاکستان کی اس وقت کی حکومت اور اپوزیشن دونوں عالمی حالات کا ادراک کرنے میں ٹھوکر کھا گئیں تحریک انصاف نے دورۂ روس کے معاملے میں ٹھوکر کھائی شاید عمران خان امریکا کو باور کرانا چاہتے تھے کہ اگر صدر بائیڈن انہیں فون کرنے کی زحمت نہیں کر سکتے تو ہم بھی اپنا راستہ متعین کرنے میں آزاد ہیں ۔د وسری طرف پی ڈی ایم بالخصوص ن لیگ کو اگر عالمی حالات اور پاکستان پر ان کے آنے والے اثرات کا 10 فیصد بھی اندازہ ہو جاتا تو وہ معاشی مشکلات اور خطرات میں گھری تحریک انصاف کو حکومت کو گرانے کا رسک نہ لیتے۔ بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ جس مہنگائی کو بنیاد بنا کر پی ڈی ایم نے تحریک اعتماد شروع کی تھی۔ برسراقتدار آنے کے بعد اس مہنگائی میں زیادہ تیزی سے اور پہلے سے زیادہ اعداد وشمار اور شدت سے اضافہ ہوا۔ اب وزیراعظم کی پارٹی انگریزی محاورے کے مطابق Catch-22 کی پوزیشن میں ہے کہ ہر آپشن ہر راستہ اور ہر قدم انہیں عوام سے دور کر رہا ہے انہیں خود سمجھ نہیں آ رہی کہ انہیں کیا کرنا ہے۔
شہبا زشریف نے وکٹری سپیچ میں کہہ دیا کہ تنخواہوں اور پنشن میں 10اور 15 فیصد اضافہ کیا جائے گا اور ہفتے کی چھٹی ختم کر دی جائے گی بعد میں انہیں ان دونوں باتوں سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ پھر کہا گیا کہ پٹرول کی قیمتیں نہیں بڑھائی جائیں گی مگر بعد میں لینڈ مائن تھیوری پیش کر کے ایک ماہ میں 100 روپیہ بڑھا دیا گیا جو کہ عوام کے لیے کسی عذاب سے کم نہ تھا۔ اس کی justification اس طرح کی گئی کہ ہم نے یہ کام دل پر پتھر رکھ کر کیا ہے۔ یہ جواز تو پچھلی
حکومت بھی پیش کر سکتی تھی کہ ہم نے بھی ساری مہنگائی کے دوران اپنا ہاتھ دل پر ہی رکھا ہے۔ اسی طرح آئی ایم ایف سے بچاؤ کی تدابیر کے طو رپر سعودی عرب چائنا ترکی متحدہ عرب امارات کے دورے کیے گئے اور ہر دورے کے اختتام پر ملٹی بلین ڈالر کے قرضہ یا توسیع یا امداد یا سہولت کا اعلان کیا جاتا رہا لیکن عملاً کسی ملک نے کوئی مدد نہیں کی بلکہ خبریں ہیں کہ دوست ممالک اپنے پہلے قرضے واپس مانگ رہے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کا کوئی ایسا دوست نہیں بچا جو ملک کو مشکل وقت میں مدد کرے۔
اس وقت ملک میں شدید ترین بجلی کا بحران جاری ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان کی بجلی پیدا کرنے کی استطاعت 41 ہزار میگاواٹ ہے جبکہ اس وقت ہمیں روزانہ 28ہزار میگاواٹ کی ضرورت ہے جس کے مقابلے میں ہم 21 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کر پاتے ہیں صرف 7 ہزار میگاواٹ کا شارٹ فال پورا نہیں ہو رہا۔ جس کی وجوہات میں بدانتظامی ، منظور نظر افراد کی واپڈا میں بھرتی، بجلی چوری جسے واپڈا کی زبا ن میں line losses کہا جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر بجلی کا گردشی قرضہ ہے جو اب دو ہزار بلین سے تجاوز کر چکا ہے۔ سادہ لفظوں میں بجلی پوری نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کو بجلی پیدا کرنے کے لیے پٹرول، فرنس آئل اور LNG گیس کی جو مقدار چاہیے وہ خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں جس کی وجہ سے بجلی کا بحران چل رہا ہے۔ آج اگر گردشی قرضے ختم کر دیے جائیں اور IPPs کو واجبات کی ادائیگی کر دی جائے تو اگلے دن بجلی پوری ہو جائے گی۔ حکومت پاور پروڈیوسرز سے یہ کہتی ہے کہ آپ کے پیسے ہم دے دیں گے آپ پلانٹ بند نہ کریں مگر کمپنیاں کہتی ہیں کہ ہمارے پاس خراب پلانٹ کی مرمت کے پیسے بھی نہیں ہیں لہٰذا جب تک آپ ہمیں ادائیگی نہیں کرتے ہم چاہیں بھی تو بجلی نہیں بنا سکتے۔ یہ وہ گردشی بحران یا گردشی حقیقتیں ہیں جو گردش کرتے کرتے عوام کے سر پڑ گئی ہیں۔
ان حالات میں حکومت پنجاب نے تاریخی اعلان کیا ہے کہ 100 یونٹ سے کم بجلی کا بل مفت ہو گیا ہے یہ ایک اور سبسڈی کا آغاز ہے جس کا انجام ٹھیک نہیں ہو گا آپ دیکھیں گے کہ جلد ہی آئی ایم ایف کی طرف سے مطالبہ آ جائے گا کہ یہ اعلان منسوخ کیا جائے۔ ویسے بھی یہ اعلان ضمنی انتخابات جیتنے کے لیے ہے۔ اس کی عمر بہت کم ہے شاید 100 یونٹ بل والے بمشکل ایک مہینہ کے لیے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو پائیں گے۔ یہ ملک کی بدقسمتی ہے کہ ہر حکومت نے عوام کے غریب طبقوں کو بھکاری بنانے کا ایسا سلسلہ شروع کر رکھا ہے کہ ہر نئی حکومت اس میں کمی کرنے کے بجائے اضافہ ہی کرتی چلی جاتی ہے۔ ہر پارٹی نے برسراقتدار آکر خیراتی رقم میں اضافہ کیا اس میں سارے شامل ہیں۔اس وقت بنگلہ دیش میں 35 لاکھ سے زیادہ خواتین مصدقہ کیکٹری ورکر ہیں۔ جو پورا دن کام کر کے قومی خزانے خصوصاً زرمبادلہ میں حصہ ڈال رہی ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں سرکاری زکوٰۃ اور خیرات پر پلنے والی خواتین کی تعداد 57 لاکھ سے اوپر ہے جو ہمارے وسائل پر بہت بڑا بوجھ ہے۔ بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر اپریل 2012ء میں 45 ملین ڈالر تھے جبکہ پاکستان کے ذخائر بظاہر 10 بلین لیکن اصل میں 7 بلین ہیں۔ اس میں اگر آپ خواتین کی expowerment کی بات کریں تو کیا فیکٹری ورکر خواتین زیادہ بہتر حالت میں ہیں یا 2000 روپے ماہانہ لائنوں میں لگ کر حاصل کرنے والی پاکستانی عورتیں جن کی عزت نفس ختم ہو چکی ہے۔
IMF کی ایک اچھی بات یہ ہے کہ انہوں نے حکومت کو یہ نئی شرط رکھی ہے کہ پاکستان گارنٹی دے کہ IMF سے ملنے والی رقم کو کرپشن کی نذر نہیں کیا جائے گا۔ آئی ایم ایف صاف الفاظ میں کہہ رہا ہے کہ اس حکومت پر اعتبار نہیں ہے۔ پاکستانی عوام کو خوش ہونا چاہیے کہ جو کام آج تک وہ نہیں کر سکے وہ اب آئی ایم ایف ان کے لیے کرنے جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کا شکر گزر ہونا چاہیے۔ ویسے بھی اس مداخلت سے پاکستانی عوام کے لیے یہ پیغام ہے کہ آئندہ قیمتوں یا مہنگائی یا خزانے سے متعلق امور سے متعلق کوئی احتجاج کرنا ہو تو وہ ڈی چوک نہیں آئی ایم ایف کے دفتر کے باہر کرنا چاہیے۔ ہو سکتا ہے وہاں آپ کی بات سن لی جائے۔ رانا ثنا اللہ نے سچ کہا ہے کہ IMF نے ہمیں تگنی کا ناچ نچا دیا ہے اور وہ بھی صرف ایک بلین ڈالر کے لیے۔