وزیراعظم کی آپشن قبل ازوقت الیکشن یا مشکل فیصلے؟

معیشت مکمل تباہی کی جانب گامزن ہے کیونکہ ملک میں غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر تیزی سے گر رہے ہیں، مہنگائی کی شرح 15.85فیصد ہو گئی ہے ا ورہفتے میں 28اشیائے ضروریہ مہنگی ہوئی ہیں، حالت یہ ہے کہ ایک زرعی ملک ہوتے ہوئے سالانہ 10.6بلین ڈالرز کی اجناس وخوراک درآمد ہورہی ہے۔ حکمران اتحاد انتہائی مشکل فیصلوں کے معاملے میں پھنس چکا ہے کیونکہ معیشت کو درست کرنے کیلئے انتہائی بڑی سیاسی قیمت چکانا پڑ سکتی ہے۔تیل کی مصنوعات پر بھاری سبسڈی ماہانہ 100 ارب روپے ہے، جسکے بعد پاکستان کاڈیفالٹ سے بچنا مشکل اور آئی ایم ایف پروگرام حاصل کرنا ضروری ہوگیا ہے۔اگر یہ سبسڈی ختم کر دی گئی تو اسکا مطلب زبردست مہنگائی ہے جوحکمران اتحاد اور بالخصوص ن لیگ کیلئے ایک مشکل ترین فیصلہ ہوگا کیونکہ اسکے پاس وزارت عظمیٰ اورمعاشی وزارتوں کے قلمدان ہیں،اوراس حکومت کیاگست 2023 تک جاری رہنے کی کوئی ضمانت بھی نہیں ہے۔وزیراعظم پر معاشی فیصلہ کرنے کے حوالے سے شدید دبائو ہے، وہ پارٹی کے اہم رہنمائوں کے ساتھ مل کر لندن گئے تاکہ پارٹی قائد نواز شریف سے الیکشن معاملے پر بات چیت کی جا سکے۔ شہباز شریف ان آپشنز کے ساتھ لندن گئے تھے کہ مشکل فیصلے کئے جائیں یااسمبلی رواں ماہ کے تیسرے ہفتے میں یا پھر بجٹ کے بعدجولائی میں تحلیل کر دی جائے تاکہ اکتوبر میں الیکشن کی راہ ہموار ہو سکے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ فیصلہ کرنے میں مہلت کم ہے۔اس دوران اگر حکومت اسمبلیاں توڑ دیتی ہے تونگران حکومت کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا۔ دوسری طرف عالمی طاقتیں اور عالمی مالیاتی ادارے نگران حکومتوں کے ساتھ طویل المیعاد منصوبہ بندی سے گریز کرتے ہیں۔نگران حکومتوں کو عوام کی زیادہ فکر بھی نہیں ہوتی چنانچہ وہ آئی ایم ایف کی وہ تمام شرائط تسلیم کرلے گی۔لیکن سوال تویہ ہے کہ جو مشکل فیصلے عمران خان نہ کرسکے اور بڑی پارٹیوں کی مشترکہ حکومت نہیں کرسکتی، وہ مشکل فیصلے ایک نگران حکومت کیوں اورکیسے کرسکے گی؟ جبکہ جون کا مہینہ قریب ہے اور جون میں بہر صورت نیا بجٹ پیش کرنا ہوگا۔معیشت اور نئے انتخابات بارے متفقہ فیصلے کیلئے ممکنہ طور پر قومی سلامتی کمیٹی کے خصوصی اجلاس میں مختلف اسٹیک ہولڈرز کو مدعو کرنے پر غور کے آپشنز بھی کھلے ہیں۔ مزیدتین سے چھ ماہ حکومت میں رہنا باالخصوص ن لیگ کیلیے تباہ کن ثابت ہوگا جیسا کہ تیل کی سبسڈی واپس لینے سمیت سخت اور غیر مقبول فیصلے لینے سے کوئی بچ نہیں سکتا جس سے قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوگا۔دوسری طرف عمران خان کے پاس بھی یہی آپشن ہے کہ وہ عوام کو منظم کریں، تحریک چلائیں اور دباؤ ڈالیں جس سے ایک تو اپنا ووٹ بینک تیار کریں اور انتخابات جلد کرانے کی کوشش کریں۔عمران خان کا پلان بھی یہ یہی لگتا ہے کہ اتنا دباؤ بنائیں کہ مئی کے آخر تک یہ حکومت مفلوج ہوکر الیکشن کرانے پر مجبور ہوجائے۔انکے پلان میں یہ بھی شامل ہے کہ بڑے شہروں میں دھرنے دیئے جائیں، سڑکیں بلاک کی جائیں۔البتہ انھیں یہ بھی خدشہ ہے کہ کہیں صورتحال انکے ہاتھ سے باہر نہ نکل جائے۔ اسوقت پاکستان عمران خان اور اینٹی عمران خان میں تقسیم سے واضح ہورہاہے کہ آپ عمران خان کے ساتھ ہیں یا مخالف ہیں۔عمران کا ووٹ بینک تو اچھا خاصا بن گیا ہے لیکن کیا یہ سیٹیں بھی حاصل کرسکیں گے؟ کیونکہ ووٹ بینک اور الیکٹیبل کے ساتھ نشستیں حاصل کرنا دوالگ چیزیں ہیں۔کیونکہ عمران اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سے دور ہو رہے ہیں جو پاکستان کے کلیدی ادارے ہیں۔ جبکہ تحریک انصاف چیف الیکشن کمشنر پربھی جانبداری کے سنگین الزامات منظم انداز میں تواترسے عائد کرتی آرہی ہے، جس سے الیکٹیبلز کیلئے کشش کم ہو جائے گی۔اہم یہ ہے کہ تحریک انصاف بلدیاتی انتخابات میں جائے گی یا اپنی حکومت مخالف تحریک جاری رکھے گی۔کے پی میں بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف نے واضح کامیابی حاصل کی ہے جبکہ دوسرے مرحلے میں سندھ میں جون میں انتخابات ہوں گے، سندھ انتخابات کے بعد پنجاب میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوں گے۔ پنجاب میں جو الیکشن ہوں گے اس میں کونسی جماعت ابھر کر آتی ہے،یہ بھی حکومت اورعمران خان کیلئے بھی چیلنج ہوگا۔ ممکن ہے کہ عمران خان کسی نئی سیاسی اتحاد کی طرف جائیں، جماعت اسلامی کیلئے یہ موافق ہے کہ بلدیاتی اور عام انتخابات میں وہ اتحادی ہوں،تاہم تحریک انصاف کی ترجیح سولو فلائیٹ کی ہوگی۔
وزیراعظم شہباز شریف کوحکومت چھوڑنی ہے یا اگست 2023 تک پوری مدت مکمل کرنا ہے،اس آپشن کافیصلہ اسی صورت ممکن ہے جب حکومت مشکل فیصلے کرے ۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ بغیر تاخیر کے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلائیں جہاں صدر، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی، اپوزیشن لیڈر، صوبائی وزرائے اعلیٰ، چیف جسٹس پاکستان، ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز اور دیگر کو خصوصی طور پر مدعو کیا جائے تاکہ معاشی مسائل پر بات چیت کی جاسکے۔ یہی فورم قومی اسمبلی کی تحلیل اوراگلے انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ بھی کر سکتا ہے۔ اگرچہ حکومت ایندھن کی قیمت کا بوجھ عوام پر ڈالنے کے حق میں نہیں ہے مگر پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے علاوہ کوئی چارہ بھی دکھائی نہیں دے رہاہے، کیونکہ اگرتیل قیمتوں میں اضافہ نہ کیا تو پاکستان کے پاس ڈیفالٹ سے بچنے کیلئے تین ماہ ہیں، ڈیفالٹ ہونے سے روپیہ گر جائے گا جسکے نتیجے میں مہنگائی کا طوفان آئے گا، اور پھرجوسری لنکا میں ہو رہا ہے خدانخواستہ پاکستان کو اس سے کہیں زیادہ خراب صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔دوسری طرف اگر شہباز شریف حکومت پیٹرول قیمت پر دی جانے والی سبسڈی واپس لے بھی لیں تب بھی حکومت کواگست میں آئی ایم ایف کی دیگرشرائط پر دوبارہ مذاکرات کرنا ہوں گے۔حکومت اگست تک رہ پائے گی یا نہیں اسکی کوئی یقین دہانی نہیں ہے جیسا کہ جن آپشنز پر بات ہو رہی ہے وہ ستمبر یا اکتوبر میں ہونے والے انتخابات ہیں۔اگر حکومت عوام پر بوجھ ڈالنے سے بچنے کیلئے ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کرنا چاہتی اور قیمتوں میں مزید اضافہ روکتی ہے تو وزیراعظم کیلئے بہتر ہے کہ حکومت چھوڑ دیں اور نئے انتخابات میں حصہ لیں۔دوسری صورت اگر حکومت ایندھن کی قیمتوں میں اضافے اور سیاسی قیمت ادا کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو حکومت کو اگلے 15 مہینوں میں کل وقتی کام، روپے کی قدر میں اضافہ، اندرونی وبیرونی سرمایہ کاری کیلئے سازگار ماحول وترغیبات پر بھرپور توجہ، درآمدات محدود اور برآمدات کو فروغ دینا ہوگا۔انتخابات جیتنے کیلئے معاشی تبدیلی اور گڈگورننس کی اعلی سطح فراہم کرنے کی بھرپورضرورت ہے۔ملک کی معاشی صورتحال سب کیلئے پریشان کن ہے اور واضح ہے کہ اگر فوری طور پر درست اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان اگلاسری لنکا بن سکتا ہے۔ اگراکتوبر میں انتخابات کرائے جائیں تو حکومتی اتحادیوں اور پی ٹی آئی کے درمیان انتہائی اہم سمجھے جانے والے معاملے یعنی معیشت پر وسیع تراتفاق رائے ہو سکتاہے اورتیزی سے خراب ہوتی معاشی صورتحال پر پی ٹی آئی کو بھی مذاکرات کی میز پر بٹھایاجاسکتا ہے۔پی ٹی آئی بھی موجودہ سیاسی بحران پرمذاکرات کے ذریعے حل نکالنے کیلئے تیار ہے تاکہ پاکستان کو معاشی بربادی سے بچایا جا سکے۔سیاسی اور معاشی صورتحال ہی الیکشن کے وقت کا فیصلہ کرے گی تاہم، اکتوبر میں الیکشن کرانا دونوں فریقوں کیلئے موزوں رہے گا۔اس سے حکمران اتحاد کو بھی ممکنہ طور پر جولائی میں قومی اسمبلی تحلیل کرنے سے قبل اصلاحات کا موقع مل جائے گا۔ چونکہ معاشی صورتحال ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے، اسلئے اشد ضروری ہے کہ دونوں فریق مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر معاشی پالیسی پر اتفاق رائے حاصل کریں۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انہیں مذاکرات کیلئے آمادہ کرنے کیلئے ثالث کون ہوگا، یہ کام صرف اسٹیبلشمنٹ اپنی غیر جانبداری کو نقصان پہنچائے بغیر ہی کرسکتی ہے۔