گزشتہ تین دہائیوں سے بالخصوص ،پاکستان جمہوریت کے آئے دن بدلتے سوانگ،روپ بہروپ دیکھتا اب تو گویا سکتے کے عالم میں گنگ کھڑا ہے۔ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی! صاف چلی شفاف چلی میں جب تبدیلی آنے لگی تو پہلے مرحلے میں کیچڑ اچھالتے… ’’داغ تو اچھے ہوتے ہیں‘‘ کے پیرائے میں جمہوریت کا یہ گدلاحسن ہم نے بھگتا۔ پھر دیگر بے شمار ناگفتنی رجحانات، اقدامات، عوامل کے ہمراہ معیشت کے اڑتے پرخچے،قومی خزانے کی لوٹ سیل، ریوڑیوں کی طرح بٹتے روپے،افراتفری بدنظمی کے بیچ قوم کا مقدر IMF، FATF کے ہاتھوں گروی رکھ دیا گیا۔ تمام رعونت،گھمنڈ،خودپسندی کے غبارے میں ہوا بھرتی گئی۔ عاقبت نا اندیشی کی حدیں ٹوٹ گئیں۔ عجز وانکسار کی رتی بھی کہیں ڈھونڈے سے نہ ملتی، عجب وتکبر مجسم یہاں تک کہ ایوانہائے اقتدار سیاسی جمہوری قلابازیوں کی تماشاگاہ ان کے ہاتھوں بنی۔شکست اچانک سرپر کھڑی دیکھی تو بساط ہی الٹ ڈالی۔عجب آئینی بحران اٹھا کھڑا کیا۔مسلمہ آئینی قواعد وضوابط بالائے طاق رکھ کر جو کاری وار وزیراعظم اور ڈپٹی اسپیکر نے متزلزل جمہوریت کو لگایا، اسے اسٹریچر پر ڈال کر عدلیہ کے ہسپتال میں داخل کرانا پڑا۔ جج صاحبان سر جوڑے مرہم پٹی،ہومیوپیتھک علاج یا سرجری کے مخمصے میں گتھی سلجھانے کو بیٹھے ہیں۔ باہر لواحقینِ جمہوریت آہ وزاری کر رہے ہیں۔ اس اچانک اقدام کے پس پردہ شاید یہ بھی عنصر کار فرما ہو کہ دوسری مخلوق (جس کی بازگشت رہتی ہے میڈیا میں) رمضان شروع ہونے پر مشاورت،مدد سے قاصر خود اللہ کے حکم سے مقید ہوگئی!
ناطقہ سربہ گریباں ہے اسے کیا کہئے
خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھئے!
سچ پوچھیں اور حقیقت پسندی سے کام لیں تو دنیا سے اب جمہوریت کا دور لدچکا، خواہ وہ ہماری ہمسائے میں صمد بونڈ سے جوڑجاڑ کر جیسی تیسی حامد کرزئی،عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی جمہوریت تھی۔ پرلے پار حسنی مبارک جمہوریت،حسینہ واجد والی (پھانسی گھرفیم) جمہوریت تھی یا مودی جمہوریت۔ ٹرمپ کے دور میں بڑے چودھری کے ہاں بھی ہم دانتوں تلے انگلی دابے جمہوریت کا حسن تلاشتے رہے۔ تا آنکہ ٹرمپ کے جیالے، پاکستانی عمرانی جمہوریت،دھرنا اسٹائل وائٹ ہاؤس پر چڑھ دوڑے۔پھر جیسے تیسے بائیڈن لرزاں ترساں کرسی ٔ صدارت پر بیٹھے،تو افغانستان جان کو آلیا۔ C-17 کا شرمناک دن امریکی انخلا کی جو تصاویر سامنے لایا وہ چنداں قابل رشک نہ تھیں۔ برطانوی جمہوریت میں بورس جانسن کی وزارت عظمیٰ ٹرمپ سے( مخبوط الحواسی سمیت) کافی مشابہ ہے۔ روس اور چین نے اپنی اپنی جگہ مغرب کو پھسوڑی ڈال رکھی ہے۔ جمہوریت کا غلغلہ دم سادھے بیٹھا ہے۔ مسلمانوں کو عمران خان نما ’میں نہ مانوں‘ کی ضد چھوڑ کر نظام کی حقیقی تبدیلی پر غور وفکر کی ضرورت ہے۔ جمہوریت میں ہمارا بھلا نہ ہوا… عام آدمی کا حال زار تو دیکھئے اگر سینے میں دل ہے۔ ذرا بھارتی مسلمانوں کا حال بھی ملاحظہ کیجئے جس پر انسانی حقوق و انصاف کے بین الاقوامی پیپلز ٹربیونل کی شریک بانی (ہندوخاتون) انگنا چٹرجی نے کیلی فورنیا میں منعقدہ (بھارتی مسلمانوں کی نسل کشی اور عالمی اسلاموفوبیا) کانفرنس میں کہا: ’’بھارت 1950ء کے بعد سب سے زیادہ خوفناک سیاسی بحران میں ڈوبا ہوا ہے۔ آج کی تنگ نظر جمہوریت کا کام فسطائیت اور مسلمانوں کا صفایا ہے۔ بی جے پی، آدیواسیوں (قدیمی آبادی) اور دلتوں کے ساتھ اونچی ذات کے مراعات یافتہ ہندوؤں کے پرتشدد تعلقات میں ذات پات کے جبر کی نمایندگی کرتی ہے۔ بھارت میں اعلی ڈگریاں،صنعتی عسکری ترقی، رئیس طبقے کی بے پناہ دولت عملی زندگی کی جہالت تنگ نظری ظلم وجبر کی علت دور نہیں کرسکی۔‘‘
سو کہاں کی جمہوریت اور کون سے بیچارے جمہور… عوام! عمران خان بھی اگر جمہوریت پسند ہوتے (خود پسند اور خود پرست ہونے کی بجائے) تو عدم اعتماد پر حقیقی عدد سامنے آنے پر کرسی سے چمٹنے کو زمین آسمان ایک کرنے کی بجائے خاموشی سے اکثریت کھو دینے کا اعتراف کر کے استعفا دے کر فیصلہ عوام کے حوالے کردیتے۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!عدلیہ کے سامنے ذلت و شرمساری اور 7 اپریل کے تاریخی فیصلے کے باوجود کپتان اور اسکی ٹیم اپنی ڈھٹایٔ پرقائم ہے،خواہ اس سے ملک کو کتنی ہی داخلی،خارجی،اقتصادی زد پہنچے! انکی آئین شکنی نے پہلے ہی قومی ساکھ اور ملکی مفادات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
پاکستان اس حال میں کیوں ہے؟ آج کے سیاسی منظر نا مے میں تمام گفتگوئیں،مسائل اور ان کے مجوزہ حل کلیتاً ایک سیکولر جمہوریت، نظریے سے عاری پس منظر میں ہو رہی ہیں۔ رمضان شروع ہوچکا ہے۔ چند دن پہلے تک ’’نہی عن المنکر‘‘ کا سہارا لئے جب دیارنج بتوں نے تو خدا یاد آیا کے پیرائے میں ایک دوغلا تماشا لگایا تھا۔ پھر غیر ملکی طاقت کا فسانہ کھڑا کر کے نئی بیساکھی پکڑلی‘ امریکا نے واشگاف کہہ دیا کہ اس الزام میں ذرہ برابر سچائی نہیں ہے۔ ہم پاکستان میں قانون کی حکمرانی اور آئینی طریقہ کار کا احترام کرتے ہیں۔ (ترجمان اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ،نیڈپرائس)
ہمارے اخلاق و کردار کو کیا ہوا؟ انسانم آرزوست! جو ڈھونڈے سے نہیں ملتا! ذرا تعمیر مینار پاکستان کے حوالے سے عجب کہانی تازہ کرلیجئے۔ قرار داد پاکستان 23 مارچ 1940 ء، آزادی کا اہم ترین سنگ میل تھا۔ منٹوپارک میں اس مقام پر یادگار (مینار پاکستان) تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا۔ رقم کی فراہمی کیلئے گورنر مغربی پاکستان اختر حسین کے مشورے کے مطابق،سینماگھروں اور (جوئے کے) گھوڑوں کی ریس کے ٹکٹوں پر اضافی ٹیکس عائد کر کے رقوم حاصل کی گئیں! پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کے نعروں کی گونج میں اٹھایا گیا علیحدہ مسلم ریاست کا مطالبہ،قائد اعظم کی سو سے زائد تقاریر میں دو قومی نظریہ اور شریعت کو نظام حکومت قرار دینے کی قطعیت کا تقدس !مگر منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔ قائد اعظم کی رحلت کے بعد کھوٹے سکوں کی حکمرانی نے یہ احساس بھی ختم کر ڈالا کہ قرار داد پاکستان کیلئے اگر کچھ اینٹیں جوڑنی تھیں تو بھلے وہ بہت اونچا مینار نہ ہوتا، بنیاد تو حلال آمدنی پر ہوتی! یہ پڑھ کر گتھی سلجھ گئی۔
گورے کی کٹھ پتلی حکومتوں نے جمہوریت یا مارشل لاؤں کی جو باریاں لگائیں،اس میں اسلام کا گزر عید،رمضان پر سرکاری بیان جاری کرنے سے زیادہ نہ تھا۔ 74 سالوں میں ہمہ نوع سیکولر،بے دین، قادیانی نواز،منکرینِ حدیث خواہ کل کے پرویزی ہوں یا آج کے غامدیے ،حکمران رہے۔ اسلام صرف ایک نعرہ تھا۔ اب اگر یادگار ِپاکستان کا تقدس مال حلال کا متقاضی نہ تھا تو آج عجب کیا کہ وہی مینار ٹک ٹاکر کے اخلاق باختہ منظر کا مقام بنے۔ خودکشی کرنے والے بھی اسی مینار کاانتخاب کریں، سینماگھر کے ٹکٹوں والی کمائی پر بننے والے مینار پر ہمہ نوع سیاسی جلسے، کبھی زرداری کی تقاریر نشر ہوں، کہیں جوئے کے گھوڑوں کی کمائی کو سلامی پیش کرتے ہارس ٹریڈنگ والے پارٹیاں جوڑوں کی طرح بدلتے سیاست دان مرکزنگاہ ہوں۔ یہیں سے میوزیکل شو نما جلسے میں اَمپائر کے مہربان سائے تلے کپتان لانچ ہوئے!کہاں اسلام میں مناصب کا تقدس، اس کی اللہ کے حضور جوابدہی پر لرزاں وترساں خلفائے راشدین! جہاں منصب کو خود طلب کرنے والا خائن قرار پائے، اس لئے کہ یہ اس کی لاعلمی یا رب تعالی کے سامنے جوابدہی سے بے نیازی کا آئینہ دار ہے۔ کہاں ابوبکر تا علی رضوان اللہ علیہم روتے ہوئے مناصب پر بٹھائے گئے،وقت رخصت غم تھا تو صرف عوام کے حق میں کوتاہی ہو جانے، بیت المال کے حساب پر اور آخرت میں گرفت کا غم تھا۔ ریاستِ مدینہ کے نام لیوا،ذرا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو تو دیکھیں کہ جب مملکت میں قحط پڑا تو انتظامات کی دوڑ دھوپ غم سے گھلتے وہ سوکھ سوکھ کر کانٹا ہوگئے۔ عمر بن عبدالعزیز جیسا بنوامیہ کا شہزادہ، خلافت سنبھالی تو ساری بے مثل خوش پوشی ہوا ہوگئی۔ پوری رات جائے نماز پر روتے گزرگئی کہ شرق تا غرب پھیلی مملکت کے ہر مسلمان کا جواب مجھے اللہ کے حضور دینا ہے! ایوانہائے اقتدار نے ان بے مثل ادوار کو پڑھنا تو کجا،سونگھا چکھا بھی نہیں۔ کرسی کی ہوس نے اس لئے دیوانہ بنا رکھا ہے۔
ہم کن سرابوں کے پیچھے سرگرداں ہیں؟ جب قرآن نازل ہوا اور اللہ کا عطا کردہ نظام 100 سال کے اندرتین براعظموں پر چھاگیا۔ محمد بن قاسم 711ء میں ہندوستان، طارق بن زیاد 712ء میں داخل ہوئے۔ اسی وقت موسی بن نصیر شمالی افریقہ کے ایک صوبے کے گورنر تھے جو لیبیا،مراکش ، الجیریا،تیونس،موریطانیہ، مالی پر محیط تھا۔ آئین شکنی بلاشبہ بدعہدی اور ملک و قوم سے غداری کی آئینہ دار ہے۔ مگر قرآن جو کل عالم اور کل انسانیت کیلئے اللہ کا نازل کردہ آئین ہے، اس سے بے اعتنائی، ان پڑھ جاہل مطلق ہونا، پس پشت ڈالنا، بے خوفی سے ہر حد توڑنا کیا جرم عظیم نہیں؟ آج پاکستان کے ہمہ نوع حالات کی ابتری کی یہ وجہ وحید ہے! افغانستان کا معجزہ دیکھ کر بھی جس کی آنکھیں نہ کھلیں،ایسے نیند کے ماروں کو کون جگا سکتا ہے۔ رمضان تو یوں بھی ماہِ قیامِ پاکستان ہے! کچھ تو سوچیے! جن نظاموں کی خدائی پر ہمارے سیکولر دانشور ایمان لائے تھے، وہ ایک ایک کر کے آنجہانی ہوگئے۔ کمیونزم کا بت ٹوٹا،مغرب کی سونڈ کو 15 اگست 2021ء کو انمٹ داغ لگا، جمہوریت برص زدہ ہوچکی، اس کے بعد کیا ہوگا؟؟ … کچھ اپنا ٹھکانہ کر لے،ہم تو کل خواب عدم میں شب ہجراں ہوں گے!