سارے ٹکٹ بلاک ہوگئے

1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں فلم انڈسٹری اور سینما انڈسٹری کا نقطۂ عروج تھا جب کوئی فلم ہٹ ہوتی تھی سینماؤں میں کھڑ کی توڑ رش ہوتا تھا اور کئی کئی ہفتے ہاؤس فل ہوتا تھا یہاں سے ٹکٹ بلیک کرنے کے 2 نمبر دھندے نے جنم لیا۔ جہاں سے بلیکیا کی اصطلاح وجود میں آئی بلیکیے ٹکٹ خرید لیتے تھے اور ہاؤس فل ہونے پر دوگنی قیمت پر فروخت کرتے تھے اس دھندے میں بہت زیادہ ہوشیاری اور چالاکی درکار ہوتی ہے کیونکہ اگر بلیکیا بہت زیادہ لالچ میں آجائے تو کئی دفعہ اسے نقصان ہوجاتا ہے اور شو شروع ہونے کے فوراً بعد اگر ٹکٹ کا سودا نہ ہوا تو ایسی صورت میں اس کی قیمت خرید ڈوب جاتی تھی لیکن بلیکیا عام طور پر ایسا نہیں ہونے دیتا تھا۔ پاکستان کی حالیہ سیاسی صورتحال میں پنجاب اور سندھ میں چھوٹی پارٹیوں کے سیاسی سینما کی ٹکٹیں پبلک کرنے میں جس مہارت کا مظاہرہ کیا ہے ۔ اس نے 70اور 80ء کے دور میں بلیکیے کی یاد تازہ کر دی ہے۔ ق لیگ اور ایم کیو ایم نے منہ مانگے داموں پر اپنے آپ کو کیش کروایا ہے ایک نے حکومت کے ساتھ متاع غرور کا سودا کیا ہے تو دوسری نے اپوزیشن کے ساتھ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان دونوں میں سے کسی کی ٹکٹ ضائع ہوتی ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دونوں کی ہی ٹکٹ ضائع ہو جائے جس تیزی سے سیاسی پیش رفت جاری ہے اس پر پیش گوئی ممکن نہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ موجودہ بحران حکومت کا اپنا پیدا کردہ ہے ۔2018ء میں جب تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو یہ نووارد تھے۔ اس سے قبل ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیاد توں نے 80 اور 90 کی دہائیوں میں انتقامی سیاست کا تجربہ کر کے یہ سیکھ لیا تھا کہ سیاست میں دوسرے فریق کو برداشت کرنا ایک مجبوری سے لہٰذا مشرف دور کے بعد ن لیگ اور پی پی نے مفاہمت اور پر امن بقائے باہمی اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی سیاست کا آغاز کیا لیکن اس کے برعکس تحریک انصاف نے اقتدار میں آتے ہی گالی گلوچ ذاتی دشمنی انتقام اور مخالفین کو اچھوت سمجھنے اور مکمل عدم تعاون اور ڈائیلاگ نہ کرنے اور محاذ آرائی کو اتنا زیادہ فروغ دیا کہ جو جتنا زہر اگلنے کی استطاعت رکھتا تھا اسے اتنا ہی بڑا عہدہ دیا گیا نتیجہ یہ ہوا کہ اپوزیشن تنگ آکر ان کے خلاف عدم اعتماد تحریک پر مجبور ہو گئی جس میں سب سے زیادہ نقصان ریاست پاکستان کا ہوا گزشتہ کئی ہفتوں سے کار سرکار ٹھپ ہے اور حکومت اپنی جان بچانے کے لیے ق لیگ اور ایم کیو ایم کے پیر پکڑنے پر بھی راضی ہے مگر اصل اپوزیشن کے ساتھ ڈائیلاگ یا قومی مفاد کی خاطر مفاہمت اب بھی ان کے ایجنڈے میں شامل نہیں اسی بوکھلاہٹ میں وزیراعظم نے اداروں کے خلاف ایسے بیانات جاری کر دیے ہیں جس کے بعد ان کی رہی سہی حمایت بھی جاتی رہی اور اب وہ سیاست کی آندھیوں میں زرد پتوں کی طرح بکھرتی ہوئی پارٹی کو یکجا کرنے کی سعی لاحاصل میں مصروف ہیں اس میں انہوں نے کہانی کو فارن ٹچ دیدیا ہے کہ بیرون ملک سے ان کے خلاف سازش ہو رہی ہے حالانکہ ان کے خلاف سازش خود ان کو اپنی پیدا کردہ ہے اگر وہ اپوزیشن کو برداشت کر لیتے تو اپنی مدت پوری کر سکتے تھے۔
یہاں پر ق لیگ کی دونوں فریقین سے رسوا کن مذاکرات کی کہانی سب سے زیادہ افسوسناک ہے اس کھیل میں ق لیگ نے سینما کے ٹکٹ بلیک کرنے کی یاد تازہ کر دی۔ ایک طرف اپوزیشن اتحاد سے کہا کہ وہ عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر کے پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنانے کا عملی شوت دیں مگر دوسری طرف سے عدم اعتماد پیش ہوئی تو اگلے ہی روزوہ عمران خان کے گھر پہنچ گئے جہاں انہیں وزیراعلیٰ نامزد کر دیا گیا۔ آصف زرداری کہتے ہیں کہ رات 12 بجے پرویز الٰہی ان کے پاس آئے اور انہیں مشترکہ اپوزیشن کے وز یر اعلیٰ کے نامزد امیدوار کے طور پر مبارکباد دی گئی۔
لیکن اگلے روز وہ بنی گالہ میں تھے دوسری طرف ن لیگ کے رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ چودھریوں سے اس طرح کے رویے کی توقع نہیں تھی آصف زرداری اور رانا ثناء اللہ دونوں کے بیانات انتہائی محتاط اور کسی بھی طرح کی توہین یا مذمت سے ماورا ہیں ان کی جگہ اگر تحریک انصاف کے ساتھ کوئی دھوکہ دہی یا وعدہ خلافی ہوتی تو اب تک پتہ نہیں غلاظت کی کون کون سی حدیں پار ہو چکی ہوتیں۔ کچھ وضاحتیں غیر ضروری ہوتی ہیں پرویز الٰہی کی نامزدگی پر قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں کہ چودھری شجاعت حسین اپنی زبان کے پکے اور معاہدوں کے پاس دار ہیں لہٰذا حکومت کے ساتھ ڈیل میں ان کی رضا مندی شامل نہیں ہے اور تاثر یہ ابھرنے لگا کہ جیسے چودھریوں کے گھر میں اختلاف ہیں اس قیاس آرائی میں چودھری شجاعت کا امیج بلند ہو رہا تھا مگر چودھری شجاعت نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے مابین کوئی اختلاف نہیں گویا اس وعدہ خلافی میں ان کی رضا شامل تھی یہ وضاحت وہ نہ کرتے تو ان کے لیے زیادہ بہتر ہوتا۔
وزیراعظم نے اپنی عوامی رابطہ مہم کو امر بالمعروف کا نام دیدیا ہے وہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ جیسے یہ کوئی معرکۂ حق و باطل اور کفر اور اسلام کی جنگ ہے اس موقع پر مذہب کارڈ کا استعمال کوئی دانشمندی کی بات نہیں ہے پاکستانی معاشرہ پہلے ہی انتہاپسندی اور عدم برداشت میں عالمی سطح پر خاصا بدنام ہے۔ سری لنکن شہری کا واقعہ اس کی ایک عمومی مثال ہے جسے ہجوم نے موت کے گھاٹ اتار دیا جس سے پوری دنیا میں ہمارا امیج مجروح ہوا۔ وزیر اعظم کے بیانات سے ظاہر ہوتا تھا کہ ان کے مخالف سیاسی جماعتیں کفار مکہ پر مشتمل ہیں۔
اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
جلسے میں انہوں نے جو خط لہرا کر واپس جیب میں رکھا ہے اس سے بڑی سیاسی شعبدہ بازی ہماری حالیہ سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ خط ایک نیا میموگیٹ بن سکتا ہے جس پر انہیں اقتدار سے محرومی کے بعد عدالتوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر یہ خط واقعی پاکستان کی سالمیت کے خلاف ہوتا تو ہمارے ادارے اس معاملے میں نیوٹرل نہ رہتے ۔
پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ کی خواہش اور حلف برداری کے درمیان ابھی کافی فاصلے باقی ہے اگر یہ فاصلہ طے ہو جاتا ہے تو سمجھیں کہ پی ٹی آئی پنجاب میں Relevant نہیں رہے گی مقابلہ براہ راست ق لیگ اور ن لیگ میں ہو گا اور پی ٹی آئی محض تماشائی بن کر سٹیڈیم کی کرسیاں پر کرنے کا کام دے گی۔