دو لیڈی پولیس آفیسرز کی پر اسرار موت

رواں ماہ ابھی کچھ ہی دن گزرے ہیں کہ ساری دنیا نے عورتوں کا عالمی دن منایا بہت سارے پروگراموں میں راقم خود بھی بطور مہمان شریک ہوا۔ جہاں خواتین کے حقوق کی بابت بڑی بڑی باتیں ہوئیں۔ صنفی مساوات کی بات کی گئی۔ کہا گیا عورت آزاد ہو گئی ہے، مضبوط ہو چکی ہے، اس نے معاشرے میں ہر جگہ اپنی قدر وقیمت ہمت و حوصلہ اور محنت و بہادری سے منوا لی ہے۔ وہ ایک اچھی معلمہ، ڈاکٹر، انجینئر، پائلٹ اور پارلیمنٹ کی کرسی سے لے کر جج اور وکیل کے عہدے کو بھی اس نے خالی نہیں چھوڑا۔ کچھ دہائیاں پہلے تک تو شائد عورت اتنی فعال نہیں تھی اور کم ہی جگہوں پر نظر آتی تھی۔ لیکن بدلتے زمانے کے ساتھ ساتھ خواتین نے ہرمقام پر اپنی اہمیت اور شراکت داری کی مثال قائم کر دی ہے اور گلوبلائزیشن کے اس دور میں ساری دنیا سے ملنے والی خبریں یہ بتا رہی ہیں کہ خواتین نے کسی شعبہ کو خالی نہیں چھوڑا۔ یہ ایک خوش آئند پہلو ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔
لیکن اس وقت جب ہم عورت کی آزادی، سماجی برابری کی بات کرتے ہیں تو اس کے عہدے، اس کے پیشے سے مقابلہ کریں تو کوئی کمی نظر نہیں آتی۔ سوال یہ ہے کہ کیا عورت کی آزادی اسی کا نام ہے؟ معاشرے میں ان کا پیشہ یا مقام کو ہم ترقی کی نشانی سمجھیں؟ دراصل آزادی، مساوات اور برابری کے یہ غلط معنی سماج کو کس طرح غیر متوازن کر رہے ہیں کیا ہم اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں؟ ٹوٹتے گھر، بکھرتے خاندان، رشتوں کی ناقدری، معاشرے میں خواتین کی عزت کو خاک آلودہ کرتی کرائم کی رپورٹیں جنہیں دیکھ کر معاشرتی کج روی عروج پر نظر آتی ہے۔ سماج تباہی اور بر بادی کے اس دہانے پر کھڑا نظر آتا ہے ، جہاں مجرم کو سزا تو درکنار، خواتین کے خلاف جرائم کو جرم بھی نہیں کہا جاتا اور اس وجہ سے جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عورتوں کی عزتیں نیلام ہو رہی ہیں۔ کسی بھی وقت رات کے اندھیرے اور دن کے اجالے میں عورت کی عزت کو روندتے ہوئے درندے قانون کی گرفت سے دور نظر آتے ہیں۔ خواتین کو نام نہاد
آزادی دینے والے اور مساوات کے نعرے لگانے والے نے آزادی و مساوات کو کس نظر سے دیکھا ہے۔ آج پاکستان کا معاشرہ امریتا پریتم کی اس بات کی بالکل درست عکاسی کرتا ہے کہ مرد کا گناہ وقت کے تالاب میں کنکر کی مانند ڈوب جاتا ہے جب کہ عورت کا گناہ کنول کے پھول کی مانند سطح آب پر تیرتا رہتا ہے۔
آج فی زمانہ پوری دنیا میں خواتین کی مساوات کی ایک دھوم مچی ہوئی ہے اور ہونی بھی چاہئے کیونکہ اس نے معاشرے میں ہر مقام پر اپنی جگہ بنائی ہے اور مرد کے ساتھ کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑی ضرور ہے لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے جب کہ تصویر کا دوسرا رخ بڑا دہلا دینے والا اور رونگٹے کھڑے کر دینے والا۔ اسے سب سے پہلے یہ فکر ستاتی ہے کیا صبح گھر سے نکلنے کے بعد شام کو وہ بحفاظت گھر واپس آ سکے گی؟ اس حوالے سے یہاں میں رواں مہینے مارچ میں پولیس میں ملازمت کرنے والی دو خواتین سے پیش آنے والے واقعات کا ذکر کروں گا جنہوں نے خود کشی کر کے اپنی زندگیاں ختم کر لیں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملازم پیشہ بالخصوص پولیس کے محکمہ میں خواتین کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ پہلا واقعہ رواں مہینے رحیم یار خان میں پیش آیا جہاں ایک لیڈی سب انسپکٹر نے چھٹی نہ ملنے پر زہریلی گولیاں کھا کر خود کشی کر لی۔ بادی النظر میں چھٹی نہ ملنا کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے جس بناء پر زندگی کاخاتمہ کر لیا جائے۔ جس کے لئے ابھی تحقیقات جاری ہیں تاکہ معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا جا سکے کہ اس نے خود کشی کیوں کی یا اس خود کشی کے پیچھے کوئی اور محرکات ہیں۔ جیسے عمومی طور پر خواتین کی خود کشیوں کے پیچھے ہوتے ہیں۔
دوسرا واقعہ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں پیش آیا جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ کانسٹیبل اقرا کی موت پراسرار اور مشکوک حالات میں ہوئی۔ اقرا اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن کی ڈگری ہولڈر تھیں۔ خیبر پختونخوا صوبہ کے ضلع مانسہرہ سے تعلق رکھنے والی اقرا اسلام آباد میں اپنے ایک عزیز ایس پی ٹریفک عارف شاہ کے گھر پر رہائش پذیر تھی اور وہی اسے ہسپتال لے کر گئے تھا جہاں اس کے ایک گھنٹے کے اندر اندر موت واقع ہو گئی۔ عارف شاہ کے مطابق جب اقرا گھر داخل ہوئی تو وہ گھر پر ہی تھے اور ابھی اس سے بات ہی ہو رہی تھی کہ اقرا کو قے آئی اور پھر دوبارہ ایسا ہونے پر وہ اسے پولی کلینک لے گئے جہاں اس کی موت واقع ہو گئی۔ جب کہ پولیس کی ابتدائی تفتیش سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اقرا کو زہر دیا گیا ہے اور اسی بناء پر ایس ایس پی ٹریفک عارف شاہ کو عہدے سے ہٹا کر پولیس لائن رپورٹ کرنے کی ہدایت کر دی گئی۔ چونکہ اقرا کے والدین نے مقدمے کی پیروی کرنے سے انکار کیا تھا جس کے بعد تھانہ آبپارہ میں تعینات ایس ایچ او سلیم رضا کی مدعیت میں قتل کی دفعہ 302 کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا۔ آئی جی اسلام آباد نے اعلیٰ پولیس افسران پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لئے مصروف ہے۔
یہ ضرور ہے کہ بین الاقوامی سطح پر خواتین کے حقوق اور انصاف کے لئے بہت ساری کوششیں ہوئی ہیں اور ہوتی رہتی ہیں۔ ایسی تمام کوششوں کے نتیجے میں بہت سارے ممالک میں کچھ بہتر نتائج بھی سامنے آئے ہیں، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان سمیت ایسے بہت سے ممالک بھی ہیں جہاں ان کوششوں کی روشنی میں خواتین کے تئیں سطحی ذہنیت کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ہمارے ہاں خواتین کے جنسی استحصال کے خلاف سخت سے سخت قوانین بھی بنتے رہے ہیں لیکن ان پر سنجیدگی سے کبھی عملدر آمد نہیں ہو پاتا ہے۔ جنسی زیادتی کا شکار عورتوں اور بچیوں کا مستقبل اس قدر تاریک ہو جاتا ہے کہ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کہ ایسی لڑکیاں موت کو گلے لگانے کو زیادہ ترجیح دیتی ہیں اور جو کسی وجہ سے خود کشی نہیں کر پاتیں وہ زندگی بھر بے حس معاشرے میں بے وقعت زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کے تئیں ظلم، تشدد اور استحصال کا خاتمہ کیا جائے۔ بڑھتی ہوئی بے راہ روی پر قدغن لگائی جائے۔ ان کے تقدس اور پاکیزگی کو پامال نہ کیا جائے، ہمدردی اور محبت کا عملی ثبوت دیا جائے تاکہ خواتین کے اندر سے احساسِ کمتری ختم ہو اور وہ مردوں کے شانہ بشانہ ہر میدانِ عمل میں بلا خوف و خطر اپنے وجود کا احساس دلا سکیں۔