امت مسلمہ، او آئی سی کانفرنس، اور جدید چیلنجز

میں قوم کی وہ خوش نصیب بیٹی ہوں جس نے دیکھا ہےکہ  امت مسلمہ ایک پرچم تلے جمع ہے۔  او آئی سی کے وزرائے خارجہ کونسل کا اجلاس  اسلام آباد میں  ایسے وقت ہو رہا ہے جب   امت مسلمہ ان گنت مسائل کا سامنا کر رہی ہے۔  آج دنیائے اسلام ،  اسلام کی تاریخ کے انتہائی مشکل دور سے گزر رہی ہے۔امت مسلمہ کو جو مشکلات آج درپیش ہیں شاید ماضی میں اتنی مشکلات کبھی در پیش نہیں ہوئیں۔ ایک اعتبار سے امت مسلمہ کی پوری تاریخ بحرانوں کی تاریخ ہے۔ویسے تواُمت  خلافت راشدہ کے بعد  ہر دور میں بحرانوں سے گزر رہی ہےلیکن ماضی کی مشکلات  اور آج کی مشکل میں  بنیادی فرق ہے  کہ ماضی کی  مشکلات زندگی کی کسی ایک گوشے تک محدود ہوتی تھیں، یعنی  مسلمانوں کو عسکری اعتبار سے کسی دشمن کا مقابلہ کرنا پڑا، مسلمانوں کی کوئی حکومت کمزور ہوئی اور غیر ملکی قوتیں مضبوط ہوگئیں ۔  مسلمان سیاسی طور پر پسماندگی کا شکار ہوگئے ، تو یہ سب سیاسی میدان میں کمزوری تھی۔ اس کے مقابلے میں آج جو حالات   ہیں، ان میں  ہر آنے والا دن ‘ہر نکلنے والا سورج خطرے کی یا پریشانی کی ایک نئی جہت لے کر آتا ہے۔ آج اسلامی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو خطرات سے دوچار نہ ہو۔ فرد کے ذاتی کردار و تربیت سے لے کر  اقوام کے کردار تک ، ہر معاملہ،براہ راست مغرب کے زیر اثر آگیا ہے۔

 مجھے یہ کہنے میں عار محسوس نہیں ہوتی کہ میرا علم محدود ہےلیکن میری سمجھ کے مطابق گذشتہ ڈیڑھ صدی کے دوران مغربی تہذیب و تمدن  اور ترقی یافتہ ممالک نے  کمزور  مسلم حکومتوں کو جس طرح زیرنگیں کیا ہےاُس کی مثال نہیں ملتی۔لیکن میں بہت پر امید ہوں کہ اب  مسلم معاشروں میں اس کا رد عمل  رونما ہونے لگا ہے۔ ترک صدر طیب اردوان کے جرُات  مندانہ اقدامات نے مسلم دنیا کے نوجوانوں کو جتنا  اسلامی تعلیمات کی طرف راغب کیا ہے اس کی مثال ماضی میں کم ہی ملتی ہے۔  سچ پوچھیں تو انہوں نے آج کے مسلم نوجوان کو ایک طوفان سے آشنا کر  دیا ہے جس کے بحر میں کوئی طلاطم نہیں تھا۔

اقوام متحدہ نے 15 مارچ کو ‘انٹرنیشنل ڈے ٹو کامبیٹ اسلاموفوبیا‘ یعنی اسلاموفوبیا مخالف عالمی دن منانے کی پاکستان کی قرارداد منظور کر لی ہے۔ اس کا کریڈٹ، جناب پرائم منسٹر عمران خان کو نہ دینا بہت بڑی زیادتی ہو گی۔اس پر میں تمام امت کی لڑکیوں اور تمام افراد کو خصوصی مبارک باد پیش کرتی ہوں۔

سوشل میڈیا کے اس دور میں  مسلم دانشوروں کی بھی ذمہ داری ہے کہ  مسلمانوں کو  ذہنی  زوال سے نکالنے پر کھل کر بات کریں اور نوجوانوں  کو  خواب غفلت سے بیدار کریں۔  اس وقت سوشل میڈیا سب سے بڑاہتھیار ہے، اس لئے بلیو ٹک والے مسلم سلیبریٹریز کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلم نوجوان کو بیدار کریں اور پسے ہوئے مسلمانوں کی آواز بلند کریں۔ علمائے کرام کی ذمہ داری ہے کہ جدید تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے  نوجوانوں کو  اسلاف کی جرات  اور دلیری سے  آگاہی دیں۔

آج مغرب کی ورچول رنگین دنیا میں کھوئی میری مسلم  یوتھ کے  دلوں میں پھر سے زندگی کی تڑپ بھرنا وقت کی ضرورت ہے، آج پھر   پوری  شدت سے یہ پیغام پھیلانے کی ضرورت ہے کہ ملت کا ایک ایک فرد تحقیق و جستجو کا دیوانہ بن جائے، فتح بدر اور اس جیسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ  مسلمانوں نے  قلیل تعداد کے باوجود  فتح و نصرت کے جھنڈے گاڑدیئے۔ ریاست مدینہ کے قائم ہونے کے بعد مسلمان اللہ پر یقین کامل کے بھروسے  روم اور  فارس کی سلطنتوں سے ٹکرا گئے اور انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔  یہی وہ موقع تھا جب اسلام نے اللہ کے حکم کے مطابق تلوار کی طاقت پر اس وقت کی دو عظیم سلطنتوں سے اظہار رائے کی آزادی چھین کر انسانیت کو دی۔ آج مغرب جس آزادی اظہار رائے پر اتراتا ہے وہ تو خود مسلمانوں نے حاصل کر کے انسانیت کو دی جبکہ اس سے پہلَے انسان ، انسان کا غلام اور انسان ہی کے سامنے سجدہ  کرتا تھا۔

میں یہاں یہ بھی ضرور عرض کرنا چاہوں گی کہ مسلمانوں کو ہرحال  میں اپنے اندر موجود کمزوریاں دور کر کے دوبارہ صداقت و شجاعت کا پیکر بننا ہو گا۔مسلم معاشروں میں حق و انصاف کا بول بالا کرنا ہوگا کیونکہ یہی وہ وصف ہیں جن کے پیدا ہو جانے کے بعد  اللہ تعالیٰ دنیا کی امامت امت کے حوالے کریں گے۔

 آج کے نوجوان کو اپنے اسلاف سے سیکھ کر علم اور غور و فکر کے ساتھ ساتھ  یہ احساس پیدا کرنے کی  ضرورت ہے کہ اس کی منزل محض اقتدار نہیں  بلکہ   آسمان سے بھی کہیں آگے ہے کیونکہ  قدرت نے مسلمانوں کے مقام کو دنیا اور آخرت میں  جو رفعت عطاء کی ہے وہ کسی دوسری قوم کو حاصل نہیں ہے۔
میرے آج کے مسلم نوجوان  کو  رب ذوالجلال کا  حکم ہے کہ  اپنی قوت کردار سے   اس دنیا کی تعمیر نو کرے، مغرب کی رنگین دنیا  میں   اپنی وہ  گمشدہ خودی اور انفرادیت  تلاش کرے کہ الگ جہاں تعمیر کر سکے۔ موجوہ حالات میں ڈیجیٹل اور مادی  غلامی سے نجات   کیلئے  علم کے ساتھ ساتھ  تدابیر اور  یقینِ کامل کی  ضرورت  ہے۔
میرے مسلم نوجوان کی ذمہ داری ہے کہ امت  کو لالچ اور خواہشات کی پیروی سے نکال  کر بھائی چارے و محبت کے رشتوں میں پرو دے۔ اپنی تمام صلاحیتیں  ، فکر اور ہنر اُمت کے درمیان  اتفاق و اتحاد کی ایسی فضاء قائم کرنے پر صرف کرے کہ امت فرقہ بندی اور نفرت چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے ایک ہوجائے۔ اتحاد ویگانگت پیدا کرنے کے لئے جدوجہد اور ناگزیر عمل  وقت کی ضرورت ہے۔
غفلت شعار امہ اپنی حیثیت ہمیشہ کیلئے منوانے کی خواہاں ہے تو مغرب کی رنگینوں  سے نکل کر اپنی خودی تلاش کرے جو  حقیقی زندگی کا راز ہے۔
مسلمانوں کے عروج اور امت کے اتحاد کے بے شمار خواب اپنی  آنکھوں میں  سجائے میں  آج کے نوجوان  تک علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کی تاریخی سبق آموز نصیحت پہنچاتی ہوں
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا، تُو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
آج  زمانہ بدل چکا ہے، جنگ و امن کے تقاضے بدل چکےہیں، حصول علم اور ترویج علم کے انداز بدل چکے ہیں، سوشل میڈیا نے دنیا میں طوفان برپا کر رکھا ہے، جو قومیں اور نظریات، سوشل میڈیا کی دوڑ کا مقابلہ نہیں کریں گی، وقت انہیں کچل کر رکھ دےگا۔ اسی لئے  یہ ضروری ہے کہ اسلامی ممالک جدید چیلنجز سے نمٹنے کےلئے مشترکہ حکمت عملی اپنائیں، امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنی کہ امت  کے بڑے پلیٹ فارمز پر نوجوانوں کی نمائندگی کے ذریعے ہم جدید دنیا کے دعوے دار مغرب کا علمی انداز میں مقابلہ کرنے کو تیار ہیں
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
خواہش ہے کہ ہم میں  اتنی طاقت پیدا ہو جائے کہ باہم مل کر اسلامی جمہورتیوں کی ایک برادری کی شکل اختیار کر لیں۔  تمام مسلمان ایک طاقت ہیں ایک عمارت کی مانند ہیں جس کی ہر اینٹ اہم ہے۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارہ
میرا مخاطب  امت کا  باشعور نوجوان  ہے۔ ہرنوجوان اپنی ذات میں ایک انجمن ہے۔
ایک ہو مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
ہر فرد امت کی یگانگت کے لئے اپنا کردار نبھا سکتا ہے تاہم شرط ہے کہ وہ خودی اور اسلام کے جدیدیت کے اصولوں سے واقف ہو۔
قوموں کی زندگیاں  کسی معجزے سے  نہیں، محنت ،لگن  اور علم سے بدلتی ہیں ۔ علامہ اقبال کی خودی ایک ایسی ملت یا ریاست کا تصورہے کہ  جہاں  انفرادی خودی کو استحکام اور دوام حاصل ہو سکے۔ اقبال نے ہمیں  جو درس دیا ہے، وہ دراصل اپنے رب کو پہچاننے کی تلقین کا دوسرا نام ہے۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے