عدم اعتماد:بلی تھیلے سے باہر آگئی

پاکستان کی سیاسی تحریک میں تیسرا موقع ہے کہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی گئی ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان آنکھ مچولی کا کھیل جاری تھا اور دونوں طرف سے بھرپور حملے کیے گئے۔جبکہ تحریک انصاف کی طرف سے کسی بھی تبدیلی کو ڈرامہ قرار دیا گیا۔بالآخر بلی باہر آ ہی گئی جس کا بہت شور تھا۔اپوزیشن اپنے 162 ارکان کے ساتھ قومی اسمبلی میں پیش ہوگئی جبکہ تحریک عدم اعتماد کے لیے 172 ووٹ درکار ہے۔دلچسپ کھیل اس وقت شروع ہوتا ہے جب اچانک علیم خان اپنی خاموشی کو توڑتے ہوئے تقریبا ًایک سال کے بعد میدان سیاست میں اترے۔علیم خان کی سیاست میں اترتے ہی کم ازکم پنجاب کی سیاست میں ایک بڑا  بھونچال آگیا اور کل جو چوہدری تمام سیاسی جماعتوں کا چشمے نور تھے اچانک تمام نظریں ترین گروپ پر آگئیں۔سیاسی نقادوں کے مطابق اب تاش کے تمام پتے ترین گروپ کی پاکٹ میں ہیں۔ترین گروپ کا دعویٰ ہے کہ چالیس ارکان ان کے ساتھ ہیں اور دیکھا جائے تو یہی 40 ارکان مرکز اور پنجاب میں اہم سیاسی تبدیلی لا سکتے ہیں۔
پنجاب کی سیاست کے رنگ بڑے انوکھے ہوتے ہیں صبح کا منظر کچھ تو شام کو ہمدردیاں بدل جاتی ہیں۔یہی کچھ پنجاب کی سیاست میں کل دیکھا گیا۔بحث یہ نہیں کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے یا نہیں اصل نکتہ یہ ہے کہ ترین گروپ کی طرف سے مائنس بزدار کا جو پیغام بھیجا گیا ہے اور گورنر سندھ کا یہ دعویٰ ہے کہ اگلے چوبیس گھنٹوں میں ہم ایک پیج پر ہوں گے۔مگر لگتا ہے کہ اب پیچ کی سیاست ختم ہوگئی ہے اب آر یا پار کی صورت میں مارچ  کچھ نہ کچھ رنگ ضرور دکھائے گا۔حکومتی وزراء کی بونگیاں بجائے سیاست کو استحکام کی طرف لے جاتی اور شیخ رشید کا یہ کہنا کہ مذاکرات ہونا سیاست کی بہترین علامت ہے۔اگر تحریک انصاف اپنی حکومت کے ابتدائی دنوں میں اس فارمولے پر عمل کر لیتی تو شاید آج مائنس بزدار اور تحریک عدم اعتماد کا حکومت کو سامنا نہ کرنا پڑتا۔یہ بات بھی ماننا ہوگی کہ پاکستان کی تحریک میں کل کے جانی دشمنان آج اپوزیشن کو مضبوط کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔تادم تحریر ابھی چھوٹے بڑے بم پھٹ رہے ہیں ابھی ایک دوسرے پر تیر چلائے جا رہے ہیں ہیں اور جوڑ توڑ کی سیاست اپنے عروج پر ہے۔کوئی ان تو کوئی آؤٹ ہونے کی طرف جا رہا ہے۔شاید اب کسی کو کسی کا فیض نہیں ملے گا اور بقول اقبال کے
یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے
ضم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ
سیاسی نقطہ نظر سے ذرائع یہ بتا رہے ہیں کہ آئندہ کچھ دنوں میں طے شدہ فارمولے کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب مسلم لیگ ق کے چودھری پرویز الہٰی ہوں گے اور اسپیکر پنجاب اسمبلی پاکستان تحریک انصاف سے ہوں گے۔ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار بھی کھل کر علیم خان کے خلاف میدان میں آگئے ہیں علیم خان بطور وزیراعلیٰ کسی صورت قبول نہیں۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب نے قیادت کو پیغام دیا ہے کہ چوہدری پرویز الہٰی کو منصب دیا جائے یا میرے پاس رہنے دیا جائے۔دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے کئی وزراء بھی  پنجاب میں تبدیلی کے حمایتی نکلے ذرائع کے مطابق وفاقی وزیر فواد چوہدری، اسد عمر، پرویز خٹک گورنر پنجاب اور گورنر سندھ بھی  عثمان بزدار کی تبدیلی کے حامی نکلے۔گورنر سندھ عمران اسماعیل بھی پنجاب میں پارٹی کے کسی متحرک شخصیت کو وزیراعلی دیکھنے کے خواہش مند نکلے۔دوسرے فارمولے کے مطابق پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کے کسی سینئر رہنما کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنایاجاسکتاہے پنجاب کے وزراء سے راجہ بشارت، راجہ یاسر ہمایوں ،میاں اسلم اقبال اور یاور عباس بخاری کو وزیراعلیٰ کے لیے مضبوط امیدوار کے طور پر تصور کیا جا سکتا ہے۔
تحریک عدم اعتماد اور پنجاب کی سیاست میں جو اکھاڑ پچھاڑ ہو گی آنے والے چند گھنٹوں میں سامنے آ جائے گی لیکن ایک بات طے ہے کہ اب تبدیلی کا وقت آگیا ہے۔