اعراس

پنڈی سے ایک بہن کا سوال تھا کہ یہ عرس کیا ہوتا ہے؟ یہ لفظ کہاں سے نکلا ہے؟ بابا حضور کا 30 واں عرس منایا جا رہا ہے، یہ یومِ وصال کا کوئی دوسرا نام ہے کیا؟ اسے عرس مبارک کیوں لکھا جاتا ہے؟
حضرت واصف علی واصفؒ سے کسی نے پوچھا تھا، کیا رسولِ پاکؐ صوفی تھے؟ پوچھنے والا جس مقصد کے لیے پوچھ رہا تھا، وہ واضح تھا۔ آپؒ نے فرمایا، وہ صوفی گر تھے۔ نبیؐ صوفی نہیں ہوتا، وہ صوفی ساز ہوتا ہے، صوفی اُس کا امتی ہوتا ہے۔ امتی جب اپنے نبیؐ کی ظاہر و باطن میں اقتدا کرتا ہے تو صوفی کہلاتا ہے اور اصحابِ صفہ کے چبوترے پر جگہ پاتا ہے۔ تصوف کے موضوع پر لکھی جانے والی ایک ہزار سال قدیم دستاویز ’’کشف المحجوب‘‘ میں صوفی کی تعریف یہ لکھی ہوئی ہے کہ صوفی اصحابِ صفہ سے نسبت رکھنے والے مومن کو کہتے ہیں۔
کلیہ تخلیق میں کلیہ تفضیل نافذ العمل ہے۔ قرانِ کریم میں جب انبیاء و رُسل کی بات بھی ہوتی ہے تو سب انبیاء برابر قرار نہیں پاتے، روح اللہ کلیم اللہ نہیں کہلاتے اور کلیم اللہ ذبیح اللہ کے درجے پر فائز نہیں— قرآن کہتا ہے ’’ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے—‘‘ قرآن فرقان بھی تو ہے!! مسلمان کا درجہ اور ہے، مومن کا درجہ اور — اور محسن کا درجہ بالکل اور!! مسلمان مومن کے برابر نہیں اور مومن محسن کی برابری نہیں کر سکتا۔ محسنین کا درجہ جدا ہے— یہ اپنے رب کی ایسے عبادت کرتے ہیں جیسے اپنے رب کو دیکھ رہے ہیں— شنیدہ کہ مانندہ دیدہ! محسنین محبین ہیں اور محبین بھی ایسے کہ خود اللہ ان سے محبت کرتا ہے— واللہ یُحِبّ المُحسِنِین— مُحسِنین کے لیے ’’لاخوف علیھم ولا ھم یحزنون‘‘ کا مژدہ ہے۔
سدا سہاگن خوف اور حزن سے آزاد ہوتی ہے— ہمیشہ کے لیے— اور سہاگن وہ جو پیا من بھائے!! زندگی محب اور محبوب کے درمیان تعلق کی ایک دل پذیر داستان ہے۔ مقامِ فراق میں محب اپنے محبوب کو راضی کرنے کی تدبیر کرتا رہتا ہے— مقامِ وصل وہ ہے جہاں محبوب بھی اسے آواز دے کہ ہاں! میں بھی تم سے راضی ہوں۔ ایک درویش کہا کرتے تھے کہ عہدِ محبت میں محبوب کا جواب میں آئی لو یو ٹو I Love you, too کہہ دینا مقامِ وصال ہے۔ مومن کی عمر بھر کی ریاضت کا مدعا یہی ہوتا ہے کہ وہ غفلت سے نکل کر وصلت میں داخل ہو جائے۔ حرفِ آرزو بن کر محوِ سفر ہونے سے لے کر حریمِ ناز میں پہنچ کر بے نیازِ آرزو ہونے تک کا سارا سفر مومن سے محسن بننے کا سفر ہے۔ مومن صلے سے
بے نیاز ہوتا ہے۔ محسن دائرہ صفات سے نکل جاتا ہے، اس کی طلب فقط محبوب کی ذات ہی پورا کر سکتی ہے۔ سلام ہے محسنین پر اور کروڑوں درود و سلام محسنِ انسانیتؐ پر!! قصرِ دنیٰ میں قاب قوسین کے مقام پر قیام صرف اور صرف آپؐ ہی کی ذات والا صفات کے لائق ہے۔
وہ حقیقت جو لا شئے ہے، اسے عالمِ اشیا میں کیسے سمجھا یا سمجھایا جا سکتا ہے— بس چند علامات اور تلمیحات ہیں جو بدل بدل کر گوشِ شعور میں سنائی دیتی ہیں اور ہر آن معانی بھی بدل دیتی ہیں۔ لفظ وہی رہتا ہے، معانی بدل جاتے ہیں— فرد بھی وہی رہتا ہے دیکھنے والے کے شعور کے ساتھ اس کی قدر و قیمت بدل جاتی ہے۔ مادی شعور جامد ہوتا— صرف حرکت میں تغیر کو ماپنا جانتا ہے— روحانی شعور جمود سے آزاد ہمہ حال سفر میں ہوتا ہے— اور یہ سفر عروجِ آدمِ خاکی کا سفر ہے۔ مادی شعور زندگی کو جمود زدہ کر دیتا ہے، مادی شعور کے نزدیک صرف وہی چیز زندہ ہے جو متحرک ہے، تغذیے سے نشو نما پاتی ہے اور اپنی جنس پیدا کرتی ہے۔ یہ زندگی کی صرف ایک جہت ہے۔ روحانی شعور شش جہات ہوتا ہے— زندگی کا مشاہدہ ایک سے زائد جہتوںمیں کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ شہید کو زندہ کہتا ہے، حالانکہ ظاہری طور پر وہ زندگی سے نکل گیا ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں کافروں کو مردہ کہا گیا، حالانکہ ظاہری آنکھ سے دیکھنے میں وہ چلتے پھرتے اور بھرپور زندگی میں دکھائی دیتے ہیں۔ قرآن میں کہا گیا کہ جو یہاں اندھا ہے وہ آخرت میں اندھا اٹھایا جائے گا، ظاہر ہے یہاں اندھا ہونے مراد آنکھ کی ظاہری بینائی سے محرومی ہرگز نہیں۔ نابینا مومن ہو سکتے ہیں، اور آنکھوں والے کافر بھی ہو سکتے ہیں۔ یہاں بینائی سے مراد بصارت نہیں، بصیرت ہے۔
انسان کا اپنے خالق و مالک سے واحد رشتہ صرف خالق اور مخلوق ہی کا نہیں، طالب و مطلوب کا بھی ہے۔ انسان کی روح میں روزِ الست اپنے رب کے ساتھ کیے گئے عہد و پیمان کی یاد ودیعت ہے۔ عالمِ اشیا کثرت سے عبارت ہے، کثرت نے اسے غافل کر دیا ہے— غفلت نے اس کے خانہ شعور سے اس ازلی یاد کو محو کر دیا ہے۔ محسنین استثنا ہیں۔ یہ اپنے عہد پر صادق ہیں۔ ان کی روحیں غفلت کے حجابات چیرتی ہوئی واپس اسی قلزمِ وحدت میں پہنچ جاتی ہیں جہاں سے انہیں روانہ ہونے کا حکم دیا گیا تھا۔ دنیائے محسوس میں اس سفر کے لیے قطرے اور قلزم کا استعارہ استعمال کیا گیا ہے۔ قطرہ قلزم میں واصل ہوتا ہے تو اس کا سفر اختتام کو پہنچتا ہے— اسے سفر و حضر کے برزخوں سے نجات ملتی ہے۔ کبھی ختم نہ ہونے والا اجر اس دنیا ہی میں شروع ہو جاتا ہے۔ اس لیے یہ نجات یافتہ روحیں ہمہ حال شاداں و فرحاں ہیں۔ ان کی فوز و فلاح کا اعلان اسی دنیا میں کر دیا جاتا ہے۔ عشرہ مبشرہ کا اعلان اسی دنیا میں کر دیا گیا تھا۔
ایک حدیثِ مبارک ہے کہ جب قبر میں فرشتے ایک مومن بندے سے سوال و جواب سے مطمئن ہو جاتے ہیں تو اسے کہتے ہیں کہ اب تو یہاں آرام سے سو جا جس طرح ایک دلہن (عروس) اپنے حجلہ عروسی میں آرام سے دراز ہو جاتی ہے۔ دلہن کا سفر سدا سہاگن بننے تک ہے— اس کے بعد سفر ختم ہے— اب سارا جیون پی کے سنگ ہے— ہمہ حال شادی!!
گھڑیالی دیو نکال نی، میرا پیا گھر آیا
میرے بابا جی حضرت واصف علی واصفؒ کے اس ظاہری حیات میں چل چلاؤکے ایام تھے، آپؒ کی کچھ رپورٹس موصول ہوئیں، رپورٹس ظاہر ہے کچھ زیادہ درست نہ تھیں۔ گردوں کی صورتِ حال دگردوں تھی۔ ڈاکٹر آصف یہ رپورٹس دیکھ کر مرجھا سے گئے، ان کے چہرے سے پریشانی اور تشویش نمایاں ہو رہی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کو اس حالت میں دیکھ آپؒ بڑے طمطراق سے یوں گویا ہوئے، یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ تمہاری شکل پر بارہ کیوں بج گئے ہیں، دیکھو بھئی! ہم ایسے لوگ نہیں کہ زندگی کو خطرے میں دیکھ کر پریشان ہو جائیں، ہم تو وہ ہیں کہ جب ہمارا وقت آئے گا تو ڈھول بجائے جائیں گے، لوگ ہمیں مبارکباد پیش کریں گے کہ مبارک ہو، سفر کامیاب ہو گیا۔ یہ ایک ولی کی زبان سے قولِ علیؓ ’’فضتُ بربی کعبہ‘‘ (ربِ کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا) کی تفسیر تھی۔ کامیاب سفر والوں کو مبارک باد دی جاتی ہے— ایک کامیاب شادی کی سالگرہ ہر سال منائی جاتی ہے۔۔۔۔۔ ہر سال ڈھول کی تھاپ پر اعلان ہوتا ہے کہ سفر کامیاب رہا، قطرے قلزم سے واصل ہو گیا۔ نفسِ مطمئنہ کے اطمینان کا اعلان علی الاعلان ہوتا ہے— راضی مرضیہ کی تفسیر دہرائی جاتی ہے۔
عرس اور برسی میں فرق ہوتا ہے۔ عرس ہر برس منایا جاتا ہے، اور پہلے سے زیادہ دھوم دھام سے مبارک باد پیش کی جاتی ہے۔ برسی ہر برس پھیکی پڑتی چلی جاتی ہے، برسی پر افسوس اور غم کا اظہار کیا جاتا ہے— وقت مرہم ہوتا ہے، یادیں اور قبریں آہستہ آہستہ مٹ جاتی ہیں، اور زندگی اپنی روش پر رفتہ رفتہ بحال ہو جاتی ہے۔ صاحبِ عرس کے ہاں وقت ٹھہر جاتا ہے— ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ جو وقت کے خسارے سے نکل گیا، وہ یقینا مبارک باد کا مستحق ہے۔ اس لیے عرس ہمیشہ عرس مبارک ہوتا ہے!!