نئے بلاکس اور پاکستان کی خارجہ پالیسی

حالیہ دنوں میں امریکہ اور چین کے درمیان سرد جنگ عروج پر ہے۔ امریکہ اورا س کے اتحادی چین کی ترقی کرتی معیشت سے خائف ہیں اور مستقبل میں ان کے مفادات کی راہ میں چین کو ایک بڑی رکاوٹ تصور کر رہے ہیں۔ دنیا میں نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں، ایسے حالات میں پاکستان اور چائنہ کے تعلقات بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ عالمی سطح پر بدلتے حالات کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے پاکستان اور چین اپنے تعلقات کے نئے دور میں داخل ہونے جا رہے ہیں۔  اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ چین دنیا کا مستقبل ہے، مستحکم چین کا مطلب پاکستان کا استحکام ہے۔ چین کی معیشت جس رفتار سے ترقی کر رہی ہے بلا شبہ ہمارا یہ دوست ملک دنیا کا مستقبل ہے۔ امریکہ نے اسی خطرے کے پیشِ نظر بھارت کو علاقے کی بڑی طاقت بنانے کے لئے اس پر نوازشات کی بارش کر رکھی ہے۔ امریکی قیادت کی یہ خواہش ہے کہ بھارت کو اتنا جدید اسلحہ فراہم کر دیا جائے کہ وہ چین بلکہ روس سے بھی ٹکر لے سکے۔
اگر ہم عالمی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو اس وقت دنیا بڑی تیزی سے نئے بلاکس میں تقسیم ہو رہی ہے۔ معاشی اور عالمی بالا دستی کی رسہ کشی نے چین اور امریکہ کو ایک دوسرے کے مقابل لا کھڑا کیا ہے۔آج کا چین سرد جنگ کے دنوں والے روس جیسا نہیں بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ موجودہ روس ماضی کے سوویت یونین سا نہیں۔ دنیا میں طاقت کے محور تبدیل ہو چکے ہیں۔ دہشت گردی، امریکی جنگ اور عدم تحفظ نے اس خطے کے ممالک کو علاقائی سطح پر اتحاد بنانے کی جانب راغب کیا ہے۔ چین کے تعلقات اس خطے کے ممالک کے ساتھ پہلے بھی بہت بہتر تھے، پاک چین تعلقات کے حوالے سے یہ بڑی واضح حقیقت ہے مگر پچھلی دو دہائیوں کے دوران اس خطے میں امریکی مداخلت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات نے یہاں کے ممالک کے لئے چین کے ساتھ علاقائی معاشی تعلق کو مضبوط کرنے کے آپشن کو مزید تقویت دی ہے۔ ان بیس سالوں کے دوران جب امریکہ جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں فوجی کاروائیاں کر رہا تھا، چین اور روس نے معاشی اور دفاعی لحاظ سے خود کو بہت بلند سطح پر پہنچا دیا اور خاص طور پر چین نے اپنے آپ کو ایسا پارٹنر بنا کر پیش کیا جس پر اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ چین اب تک پر امن طریقے سے ابھرا ہے۔
40 سال کے عرصے تک امریکہ اور چین نے باہمی انحصار پر مشتمل معاشی اور ایک کافی حد تک تعاون پر مشتمل سیاسی رشتہ قائم رکھا ہے۔امریکی معیشت میں طلب کم ہے کیونکہ لوگوں کی بنیادی
ضروریات پوری ہو چکی ہیں اور آبادی میں اضافے کی شرح بہت سست ہے۔ امریکہ کے اندر پرانی ہوتی مشینری اور زیادہ اجرتوں کی وجہ سے پیداواری ملازمتیں دوسرے ممالک میں منتقل ہو چکی ہیں اور اب ان ملازمتوں کے واپس آنے کا امکان نہیں ہے۔ معیشت کو زبردست مالیاتی امداد دیے جانے کے باوجود امریکہ کی شرح نمو دو سے تین فیصد سے زیادہ نہیں بڑھ سکی ہے۔ چین کی ترقی برآمدات اور سرمایہ کاری کی وجہ سے زیادہ تیزی سے بڑھی ہے۔ چینی معیشت ترقی کرتی رہے گی کیونکہ 30 کروڑ چینی اب غربت ے نکل کر چین کی وسیع ہوتی مڈل کلاس کا حصہ بننے جا رہے ہیں، چنانچہ طلب میں اضافہ ہو گا۔ اس کے علاوہ تاریخی بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں بھی کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ اس دوران چین ایک ایسا مالیاتی نظام بنا رہا ہے جو بالآخر امریکہ کے زیرِ غلبہ چلنے والے مالیاتی نظام کو چیلنج کر سکتا ہے اور یہ جدید ترین ٹیکنالوجیز میں بھی ہر سطح پر بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ صدر ژی جن پنگ کی رہنمائی میں پیپلز لبریشن آرمی کو ایک تیکنیکی اعتبار سے جدید فوج میں بدلا جا رہا ہے۔ چین عسکری تحقیق پر بے تحاشہ پیسا خرچ کر رہا ہے۔ اس نے جن اسلحہ سسٹمز کی نمائش کی ہے ان میں سے کچھ نے تو مغربی عسکری مبصرین کو بھی حیران کر دیا ہے۔ چین دوبارہ ابھرتے ہوئے روس کے ساتھ مضبوط معاشی اور عسکری روابط قائم کر رہا ہے جس کی وجہ سے بھارت اور جاپان پر مشتمل امریکی ایشیائی اتحاد کے دوسرے پلڑے میں توازن پیدا ہو گا۔ چین ہی سے دنیا کا مستقبل وابستہ ہے۔ ان حالت میں وزیرِ اعظم پاکستان کا حالیہ دورہ چین بڑی اہمیت کا حامل ہے۔پاکستان اور چین لازم و ملزوم اور طویل مستقبل کے لئے ناگزیر ضرورت بن گئے ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان ایک دوسرے کی حمایت اور قریبی تعاون ایسے تعلقات طویل مدت ہیں جنہیں دونوں ممالک کے عوام فوقیت دیتے ہیں۔ سی پیک کے تحت بنیادی ڈھانچہ توانائی اور ترقی کے شعبوں میں پہلے ہی بڑی کامیابی حاصل کی جا چکی ہے۔ مستقبل میں یہ منصوبہ صنعتی ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون کے فروغ کی جانب توجہ منتقل کرے گا جس سے پاکستان کی اقتصادی ترقی، بے روزگاری اور غربت کے خاتمے میں بڑی اہم پیش رفت ہو سکتی ہے۔ پاکستان اور چین کے تعلقات میں ماضی کی نسبت زیادہ گہرائی پیدا ہو رہی ہے۔ چین کے صوبے سنکیانگ اور اس سے ملحقہ علاقوں کی ترقی کے لئے پاکستان کی راہداری وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے جب کہ پاکستان کو ماضی کی نسبت آج عملی مدد کی زیادہ ضرورت ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان تزویراتی تعاون پر مبنی شراکت داری نے وقت کی تمام آزمائشوں کا مقابلہ کیا ہے۔ دونوں ممالک نے اپنے وژن، خوشحالی، ترقی اور امن و استحکام کی مشترکہ خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک بار پھر بھرپور عزم کا اعادہ کیا ہے۔ پاکستان فقط جیو پولیٹیکل اور جیو اکنامیکل پوزیشن و لوکیش ہی نہیں بلکہ ہماری دفاعی صلاحیت بہترین اور نتیجہ دینے والے اتحادی کے طور پر ثابت شدہ حقیقت ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے دورہ روس سے قبل کہا ہے کہ وہ روس سے تعلقات بہتر کرنا چاہتے ہیں لیکن کسی بلاک کا حصہ نہیں بنیں گے۔ ماضی میں امریکہ کا ساتھ دینے پر پاکستان کا بہت نقصان ہوا۔ قیامِ پاکستان سے ہی پاکستان کو عالمی سازشوں کا سامنا رہا ہے۔ دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں ہے جسے پاکستان کی طرح کے چیلنجز کا سامنا رہا ہو۔ امریکی اتحادی رہنے کی وجہ سے پاکستان کو امریکی دباؤ کے تحت بہت سے ناپسندیدہ اقدامات کرنا پڑے۔ پاکستان گزشتہ سات دہائیوں سے امریکی بلاک کا حصہ ہے لیکن امریکہ پاکستان کو کبھی معاشی طور پر ترقی یافتہ ملک نہیں دیکھنا چاہتا ہے کیونکہ جو ملک معاشی اعتبار سے ترقی یافتہ ہو گا وہ کسی کے دباؤ کو قبول نہیں کرتا۔ قیامِ پاکستان کے موقع پر دنیا میں دو بڑے بلاک سرگرمِ عمل تھے ان میں سے ایک کی قیادت امریکہ اور دوسرے کی قیادت روس کے پاس تھی۔ پاکستان نے اس وقت امریکہ ومغرب پر مشتمل بلاک کا انتخاب کیا اور پھر یہیں سے روس اور پاکستان میں تلخی کا سفر شروع ہوا۔
وزیرِ اعظم کا یہ کہنا درست ہے کہ ہم نے اب کسی بلاک کا حصہ نہیں بننا بلکہ تمام ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات رکھنے ہیں۔ اس حوالے سے وزیرِ اعظم عمران خان کے دورہ روس کو بڑی اہمیت دی جا رہی ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ یہ دورہ سیاسی اور تزویراتی اعتبار سے بڑی حد تک کامیاب رہے گا۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی داخلہ اور خارجہ پالیسی کی گائیڈ لائن کا تعین کیا تھا مگر افسوس ان کے بعد آنے والے حکمرانوں نے اپنے اور سامراجی مفادات کے تحفظ کے لئے قائدِ اعظم کے پالیسی اصولوں اور نظریات سے گریز اور انحراف کیا جس کے نتیجے میں پاکستان آج تک داخلی استحکام اور خارجہ پالیسی بحران کا شکار چلا آ رہا ہے ۔ قائدِ اعظم نے خارجہ پالیسی کے بنیادی اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ پاکستان ملک کے اندر امن کے قیام اور عالمی امن کے لئے کام کرے گا۔ اس کے کوئی جارحانہ مقاصد نہیں ہوں گے۔ پاکستان اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے مطابق اپنا کردار ادا کرے گا اور دنیا کے امن اور خوشحالی کے لئے اپنا حصہ ڈالے گا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا جائزہ لیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ہماری خارجہ پالیسی کسی دور میں بھی مکمل طور پر کامیاب نہیں رہی۔