یادوں کے جھروکے سے

اوکاڑا سے ساہیوال ہوتے ہوئے ہم تقریباً بارہ بجے کے قریب ہڑپہ پہنچ گئے۔ ساہیوال سے ۲۷ کلومیٹر کے فاصلے پر شمالاً جنوباً واقع یہ ویرانہ ہزاروں برس پہلے ایک آباد، روشن قریہ تھا، ایک بڑی تہذیب ، ایک جیتے جاگتے طرز زندگی کا حامل قریہ اور اب ، اب ہمیشہ کے لیے سکوت کی چادر اوڑھے ، دنیا و مافیہا سے بے خبر اور بے نیاز، سیکڑوں ایکڑ رقبے پر پھیلا شہر خموشاں جس کے سینے میں ابھی ہزاروں راز پوشیدہ ہیں۔ ۱۹۲۱ء میں اس ویرانے کے راز جاننے کے لیے کھدائی کا عمل شروع ہوا ۔ گویا اس اسرار کشائی کے عمل کو سو برس ہو چکے، سیکڑوں نوادرات اس موئی مٹّی سے برآمد ہو چکے، گول، مستطیل ، چوکور مصور مہریں منکشف ہو چکیں مگر ان پر لکھی تحریریں اب تک خاموش ہیں، بڑے بڑے ماہرین آثارِ قدیمہ اس پر اسرار رسم الخط کو نہیں پڑھ سکے۔ معلوم نہیں فطرت کب تک ان رازوں کو چھپائے رکھے یا شاید کبھی ظاہر نہ ہونے دے، کون جانتا ہے!ہاں مٹّی کے کھلونے ، مٹی ، تانبے اور کانسی کے مصوّر برتن ، پتھر کے بنے ہل ، کلہاڑیاں ، تیز دھار چاقو، پتھر کے باٹ ، قیمتی پتھروں سے مزین ہار اور زیور ، سیپ ، گھونگھے اور ہاتھی دانت سے بنی آرائشی اور ضرورت کی اشیاء، پُختہ اینٹوں سے بنے گھر گھروندے ، زیر زمین پختہ نالیاں ، کشادہ اور سیدھے رستے اور اناج گھروں کی موجودگی اس امر کی نشاندہی ضرور کرتے ہیں کہ یہاں کے باسی ، تہذیب و تمدن کے اونچے مقام پر فائز تھے اور ساڑھے تین چار ہزار برس پہلے شہری منصوبہ بندی کے امور سے خوب واقف تھے۔ شہر کی حفاظت کے لیے فصیل موجود تھی جس کے آثار اب بھی جا بجا دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ لوگ زراعت پیشہ تھے۔ مُردوں کو عموماً دفن کرتے تھے اور ان کے پاس روزمرہ کے استعمال کی چیزیں رکھ دیتے تھے بالکل اسی طرح ، جیسے فراعنۂ مصر کے مقابر میں روزمرہ استعمال کی چیزیں التزام سے رکھی جاتی تھیں۔ اس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ یہ لوگ حیات بعدِ ممات پر یقین رکھتے تھے۔ یہ بات بھی اب تحقیقات نے منکشف کر دی ہے کہ دنیا کی قدیم ترین تین تہذیبیں دراصل معاصر تہذیبیں تھیں یعنی وادی سندھ کی تہذیب اور مصری اور سمیریا(عراق)کی تہذیبیں ۔ سمیریا کی تہذیب و تمدن کے آثار وادیِ سندھ کے تہذیبی آثار سے غیر معمولی مناسبت اور مماثلت رکھتے ہیں اور ایک رائے یہ بھی ہے کہ دونو ں کے درمیان باقاعدہ اشیائے صرف کی تجارت بھی ہوتی تھی اور ان کے مذہبی رسوم و عقاید بھی مماثل تھے ۔ حقیقت یہ ہے کہ وادیِ سندھ کی تہذیب کی طرح سمیریا بھی وادی دجلہ و فرات کی عظیم ترین تہذیب تھی۔ خود ہڑپہ شہر وادیِ سندھ کی تہذیب کا حصہ تھا بلکہ زیادہ جاندار حصہ تھا۔ ہڑپہ اور موہنجودارو دو شہر ہی نہیں تھے دو جڑواں دارالحکومت بھی تھے اور دونو جگہوں سے ملنے والے آثار ایک دوسرے سے حیرت انگیز مماثلت رکھتے ہیں۔ ہڑپہ سے ملنے والے مٹی کے شکستہ برتنوں ، مٹکوں، ہانڈیوں اور آبخوروں پر ویسی ہی نقاشی ہے جیسی ہماری آج کی روزمرہ مذکورہ اشیاء پرہوتی ہے۔ دراصل تہذیبیں صدیوں تک زیادہ تر خطِ مستقیم ہی میں سفر کرتی ہیں اور ان کے تہذیبی اوضاع اور مظاہرمیں تبدیلی نہیں ہوتی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ تبدیلی اور تغیر کا عمل بھی آہستہ آہستہ اپنا رستہ بنا کر رہتا ہے اور حوادث کی یلغار کو بھی روکا نہیں جا سکتا۔ ہڑپہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تھا۔
ہڑپہ کے آثار کو دیکھنے اور اس کے نشیب و فراز میں چلتے پھرتے ، اس کے ٹیلوں میں گوہوں ،
گیدڑوں اور دیگر مخلوقات کے بڑے بڑے پراسرار سوراخوں پر نگاہ کرتے کم و بیش ڈیڑھ گھنٹا بیت چکا تھا۔ ابھی ہم نَو گزے کے مزار کو نہیں دیکھ پائے تھے۔ کچھ دیر سستا کر اُدھرکا رخ کیا۔ ایک قوال مزار کے پائیں بیٹھا ان کی شان میں منقبت پڑھ رہا تھا ۔ سادہ اور میلے پھٹے لباسوں میں ملبوس دیہاتی خواتین اور چند بچے مزار کی زیارت کو آ جا رہے تھے۔ ادھر جنگلے کے اندر حضرت کی سنگیں ’’انگوٹھی‘‘ پڑی تھی جس کا قطر خدا جھوٹ نہ بلوائے چار ساڑھے چار فٹ سے کم نہ تھااور وزن تقریباً ایک من ! عبداللہ حیرت زدہ ہو کر چونکا: اتنی بڑی انگوٹھی! میں نے کہا : عزیزم ! میرے خیال میں تو نوگزے بزرگ کی انگلی میں یہ انگوٹھی ہی فٹ بیٹھتی ہو گی۔ تمھیں تعجب کس بات پر ہے ۔ اور ہاں ایسے نوگزے مزار تمھیں پاکستان کے کئی شہروں ، قصبوں اور قریوں میں ملیں گے۔ میں نے اپنے لڑکپن اور جوانی میں ایسی کئی قبریں لاہور، چونیاں اور حتیٰ کہ زیارت سے کچھ فاصلے پر دیکھی ہیں۔ سنا ہے پرانے زمانے میں لوگوں کے قد بہت بڑے ہوتے تھے۔ عبداللہ نے یہ سب کچھ سن تو لیا مگر رہا گومگو کی کیفیت میں۔ اب ہم ہڑپہ کے میوزیم میں داخل ہو رہے تھے ۔ مختلف آثار پر نگاہ ڈالتے ڈالتے ہم شوکیسوں میں محفوظ ہزاروں سال پرانے ان دو انسانو ں کے ڈھانچوں تک پہنچ چکے تھے جو ہڑپہ کے کھنڈر قبرستان سے ملے تھے۔ ان میں ایک سالم ڈھانچا عورت کا تھا اور ایک مرد کا۔ یہ ڈھانچے ہم انسانوں ہی کے قد کاٹھ کے تھے۔گویا ہزاروں برس پہلے بھی انسانوں کے قد بت ہم جتنے ہی رہے ہوں گے۔ عبداللہ نے ایک نظر ان ڈھانچوں کو دیکھا اور پھر تنک کر بولا : تو پھر وہ نوگزا؟ مجھ سے کوئی جواب بن نہ پڑا تو کہہ دیا ، میاں! بڑوں کی باتوں میں بچوں کا کیا دخل؟
خیر اور کئی بڑی تہذیبوں اور تمدنوں کی طرح فنا کا سرد ہاتھ ہڑپہ کے گریبان وگردن تک بھی آ پہنچا ۔ اس نے آخری سسکی لی اور ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔ ماہرین آثار قدیمہ اب تک قیاس کے گھوڑے دوڑائے چلے جاتے ہیں مگر ہر بات شاید سے شروع ہو کر شاید پر ختم ہو جاتی ہے۔ کیا اہل ہڑپہ کو کسی خوفناک سیلاب نے آ لیا؟ کیا کوئی ہولناک وبا  اس کے باسیوں کو چاٹ گئی؟ کیا کوئی بھونچال اس بستی کو نگل گیا؟ کیا شدید معاشی اور طبقاتی تفاوت اس کی ہلاکت کا باعث ہوا؟ یا شاید آریائی اس کی مرگِ مفاجات کے ذمہ دار ٹھہرے؟ ایک قیاس یہ بھی ہے کہ شاید سالہا سال کی خشک سالی اور دریا کا رخ بدل لینا اس کی موت کا سبب ٹھہرا ہو! یا پھر راوی آج ہی کی طرح تب بھی ’’ضعیف‘‘ ہو گیا ہو! راوی کے ذکر کے ساتھ ہی میرا دھیان مجید امجد کی ایک مختصر مگر نہایت درد انگیز نظم کی طرف منتقل ہو گیا: بہتی راوی تیرے تٹ پر کھیت، پھول اور پھل/ تین ہزار برس بوڑھی تہذیوں کے چھل بل / دو بیلوں کی جیوٹ جوڑی ، اک ہالی ، اک ہل/ سینۂ سنگ میں بسنے والے خداؤں کا فرمان / مٹی کاٹے ، مٹی چاٹے ، ہل کی انی کا مان/ آگ میں جلتا پنجر ہالی کا ہے کو انسان/ کون مٹائے اس کے ماتھے سے یہ دکھوں کی ریکھ؟/ ہل کو کھینچنے والے جنوروں ایسے اس کے لیکھ/ تپتی دھوپ میں تین بیل ہیں تین بیل ہیں دیکھ! لیجیے تمدنوں کے زوال کا ایک بڑا سبب تو خود مجید امجد نے بتا دیا یعنی : وہ تہذیبیں مر جاتی ہیں جو بیل اور انسان کو ایک سطح پر لے آتی ہیں!
ہڑپہ کے کھنڈرات کے مسلسل مشاہدے نے مجھے بہت آزردہ کر دیا۔ خیال آیا کہ قرین قیاس یہی ہے کہ ہڑپہ ظلم، زیادتی ، سرکشی اور ناانصافی کے سبب اس انجام سے دوچار ہو گیا ہو، جیسے عاد، ثمود، عمورہ، پیڑا، اور مدائن؟ خیر حقیقت جو بھی ہو مجھے نامور شاعر انور مسعود کا ایک قطعہ یاد آگیا ، بہت عمدہ اور ناقابل فراموش:
اجڑا سا وہ نگر کہ ہڑپہ ہے جس کا نام
اس قریۂ شکستہ و شہر خراب سے
عبرت کی اک چھٹانک برآمد نہ ہو سکی
کلچر نکل پڑا ہے منوں کے حساب سے!
آزردگی اورگرانباری کے اسی احساس کے ساتھ ہڑپہ سے رخصت ہوئے اور اس شہرارجمند کا رخ کیا جو میری جائے ولادت ہے، پتوکی شہر۔ اس شہر کے ساتھ میرے بچپن کی لاتعداد یادیں وابستہ ہیں۔ اسی شہر میں میرے نانہالی بزرگ تھے، نہایت محبت کرنے والے اور اخلاص کے پتلے۔ نانا نے کسی اسکول کا منہ نہ دیکھا مگر حکمت، دانش اور حلم و فرزانگی کی ایک چلتی پھرتی تصویر تھے۔ میری شخصیت پر ان کے گہرے اثرات ہیں۔ ان کی اور دیگر عزیزوں کی کچی ڈھیریوں کی مدت بعد زیارت کی اور دعا کو ہاتھ اٹھائے۔ گورستان سے لوٹے تو اپنے شاگرد عزیز اسلم سروہی صاحب کے ہاں گئے۔ سروہی صاحب میرے نہایت عزیز شاگردوں میں ہیں۔ تدریس سے وابستہ ہیں اور علم دوستی اور اخلاص کی زندہ مثال۔ اُسی محلے ملک پورہ میں رہتے ہیں جہاں میرے لڑکپن کے کئی ماہ و سال گزرے۔ ماشاء اللہ آسودہ حال ہیں۔ ان سے مدتوں بعد تبادلۂ خیالات کر کے خوش وقت ہوا۔ دعا ہے کہ ہمیشہ اردو اور اسلام کی محبت سے تازہ دم رہیں۔ ملاقات کر کے اور آسودہ نفس ہو کر ان سے خدا حافظی کی ۔ لاہور سے رخصت ہوئے آج پانچواں دن تھا۔ لہٰذا قرین انصاف یہی سمجھا کہ اب پرکار کی طرح اپنے دائرے میں قدم رکھا جائے۔ پتوکی کے بام ودرپر شام اتر رہی تھی۔ سو لاہور کا رخ کیا۔ دل نے کہا: چل خسرو گھر آپنے سانجھ بھئی چوندیس!

Daily-Nai-BaatDr Tehsin Feraqie-paperLahorePakistan