بڑھتی ہو ئی کر پشن اور مہنگائی

ایک عرصہ سے حکو مت کے اور اپو زیشن کے ملک میں کرپشن کے پھیلا ئو کے متعلق متضا د دعوے سْن سْن کر کان پک گئے تھے۔ اب دودھ کا دودھ اور پا نی کا پا نی کچھ یو ں ہو ا ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے 180 ممالک کا کرپشن پرسیپشن انڈکس (سی پی آئی) جاری کر دیا ہے جس کے مطابق گزشتہ برس بدعنوانی میں پاکستان 16 درجے اوپر چلا گیا۔ اس کا درجہ 180 ممالک کی فہرست میں 140 ویں نمبر پر رہا۔ 2021ء میں پاکستان کا سی پی آئی سکور 28 رہا جبکہ 2020ء میں سی پی آئی سکور 31 تھا اور کرپشن کے لحاظ سے 180 ممالک میں پاکستان 124 ویں نمبر پر تھا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں صفر سے 100 تک کے سکیل پر ممالک کی بدعنوانی کو ظاہر کیا جاتا ہے کہ کسی ملک کے کاروباری لوگوں اور مختلف پیشہ وارانہ امور کے ماہرین کی نظر میں وہاں کے سرکاری دارے کس درجہ بدعنوان ہیں۔ جس ملک کا سکور جتنا زیادہ ہے وہ اسی قدر شفاف مانا جاتا ہے۔ کرپشن پرسیپشن انڈیکس کی یہ تعریف بڑی واضح ہے اور دنیا بھر میں اسی تناظر میں اسے لیا جاتا ہے مگر وطن عزیز کے وزراء جو بدعنوانی کو کم نہیں کرسکے، سی پی آئی کے مفہوم کو تبدیل کردینا چاہتے ہیں۔ سی پی آئی سکور میں گراوٹ وزیراعظم کے شفافیت کی بیانیے کے لیے یقینا ایک بڑا دھچکا ہے۔ موجودہ حکومت کے بنیادی ایجنڈے میں بدعنوانی کا خاتمہ سرفہرست تھا، مگر عالمی سطح پر مانے ہوئے شفافیت کے اشاریے جو کچھ دکھارہے ہیں وہ باعث تشویش ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اپنے ایجنڈے کے مرکزی خیال کو عملی صورت نہیں دے سکی، یوں کرپشن پرسیپشن انڈیکس پچھلے قریب پانچ برس کی نچلی ترین سطح پر ہے۔ ہمارے پاس اس کا یہ مطلب لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ملک میں بدعنوانی ان برسوں کی بلند ترین سطح پر ہے۔ یہ صورتِ حال حکومت کے لیے آئینہ ہے، جس نے زبانی دعووں کی حد تک بدعنوانی کے خاتمے کے بڑے معرکے مارے مگر عوامی سطح پر جو تاثر موجود رہا وہ بدعنوانی میں اضافے کا تھا۔ اب ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ نے جس کی تصدیق کردی ہے۔ حکومت کے دعووں اور عمل میں یہ خلیج حیرت کا سبب ہے۔ حکومت آج بھی اس حقیقت کو ماننے سے انکاری ہے کہ بدعنوانی میں وطن عزیز اس وقت گزشتہ کئی سال کے بلند مقام پر کھڑا ہے۔ حکمرانوں کے بیان دیکھیں تو وہ حسب روایت دفاعی بیانیے اور جواز پر مبنی ہیں۔ وزیراطلاعات فواد چودھری نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ فنانشل کرپشن نہیں قانون کی حکمرانی اور سیاسی کرپشن کی وجہ سے سکور کم ہوا۔ حالانکہ کرپشن پرسیپشن انڈیکس جاری کرنے والا ادارہ ہرگز یہ نہیں کہتا کہ پاکستان کے سکور میں یہ گراوٹ مالی بدعنوانی کی وجہ سے نہیں بلکہ قانون کی حکمرانی نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔ اگرچہ قانون کی حکمرانی کا نہ ہونا بھی مالی کرپشن کے راستے کو وسیع کردیتا ہے۔ کسی سماج میں بدعنوانی کے خاتمے کی جدوجہد قانون کی حکمرانی کے علاوہ کچھ نہیں۔ موجودہ حکومت نے بھی بدعنوانی ختم کرنے کے جو دعوے کیے تھے قانون کی حکمرانی ان اقدامات کا لازمی حصہ
تھی اور اسے عملی صورت دینے کی ذمہ داری حکومت پر تھی۔ مگر شفافیت میں کمی کے اشاریے یہ ثابت کررہے ہیں کہ حکومت نے اپنے اس مینڈیٹ کو پورا نہیں کیا۔ قانون کی حکمرانی کے نفاذ کے لیے جو کچھ کرنے کی ضرورت تھی، نہیں کیا گیا۔ یوں پاکستان کو ماضی سے زیادہ بدعنوانی کا مسئلہ درپیش ہے اور بدعنوانی میں پاکستان موریطانیہ، میانمار اور ازبکستان کے برابر کھڑا ہے۔ اس سکور پر خطے کے دیگر ممالک کو دیکھا جائے تو بنگلہ دیش کے سوا پاکستان جنوبی ایشیاء کے دیگر سب ممالک سے پیچھے ہے۔ بھارت کا کرپشن پریسپشن انڈیکس 40 ہے، سری لنکا کا 37 اور نیپال کا33۔ بدعنوانی کا تاثر کسی ملک کی معیشت کے لیے بھی بڑی رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔ خاص طور پر غیرملکی سرمایہ کاری کے فیصلوں میں بدعنوانی کا عنصر شدید مزاحم ہوتا ہے اس لیے یہ بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ سال بہ سال سی پی آئی کا گرتا ہوا
سکور ہمارے صنعتی ترقی کے خوابوں کو کھوٹا کرتا رہے گا۔ باہر کے کسی آدمی کو سرمایہ کاری کرنی ہو تو ہر ذی شعور بدعنوانی پر شفافیت ہی کو ترجیح دے گا۔ اس حقیقت کو ہمارے حکمران اقتدار کے چوتھے برس میں بھی قبول کرنے کو تیار نظر نہیں آتے۔ خامی، کوتاہی یا ناکامیوں کا احساس ہوجائے تو اصلاح کی صورت پیدا ہونے کی توقع بھی کی جاسکتی، مگر کوئی تسلیم ہی نہ کرے اور حیلے بہانے سے کام چلانے کا عادی ہو تو اصلاح کے نقطۂ آغاز کی گنجائش ہی کہاں پیدا ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بدعنوانی سماج کی سب سے بڑی دشمن ہے، بلکہ یہ ایسی دیمک ہے جو ریاست کے وجود کو کھوکھلا کرتی ہے۔ عمران خان صاحب اسی ویژن کے ساتھ حکومت میں آئے تھے اور انہوں نے عوام کو مستقبل کی جو برائٹ پکچر دکھائی تھی اس میں بدعنوانی کا خاتمہ بنیادی جزو تھا مگر نظام کے ریشوں میں اُتری ہوئی بدعنوانی کے خاتمے کے لیے حکومت نے کیا کیا؟ اس سوال کے جواب میں حکومت کچھ ادھورے مقدموں اور چند درج افسروں کے تبادلوں کے سوا کیا پیش کرسکتی ہے؟ کس بدعنوان کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا؟ کسی سے لوٹی ہوئی دولت پر سودے بازی کرلینا کوئی بڑی کامیابی نہیں۔ ریاست کا کام کسی خائن کے ساتھ حصہ طے کرنا نہیں جرائم کا راستہ روکنا ہے اور اس کے لیے عبرت انگیز نظائر بعض اوقات ضروری ہوجاتے ہیں۔ بدعنوانی کی مکمل بیخ کنی اسی طرح ممکن ہے۔ اس رپورٹ میں حکمرانوں کے سوچنے کے لیے بہت کچھ ہے!
دوسری جا نب گورنر سٹیٹ بینک نے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ زرعی پیداوار میں کمی کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور اگلے چند ماہ مہنگائی بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ ان کا یہ نقطہ نظر مہنگائی کے حوالے سے حکومتی نقطہ نظر سے متصادم نظر آتا ہے۔ حکومت مہنگائی میں کمی کی امیدیں دلا کر عوام کو مطمئن کرتی اورزرعی پیداوار میں اضافے کے دعوے کرتی نظر آتی ہے، لیکن مہنگائی پر حکومت اگر حقیقت پسندی سے چلے اور مسائل حل کرنے کی پائیدار کوشش کرے تو صورت حال میں بہتری آسکتی ہے۔ سٹیٹ بینک نے مڈل مین کے زیادہ منافع کو بھی مہنگائی کا ایک سبب قرار دیا ہے۔ یہ نشان دہی نئی نہیں مگر اس مسئلے کے حل کے لیے حکومت نے اب تک کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ حکومت یہ کرسکتی ہے کہ منڈیوں کے نرخ او رکمیشن وغیرہ طے کروائے تاکہ نہ کاشتکار کا نقصان ہو اور نہ ہی صارف کا استحصال، مگر مڈل مین منڈی کو کنٹرول کرتا ہے اور اس کے بے جا منافع کو کسی قاعدے ضابطے کا پابند بنانا آسان کام نہیں۔ پیداکار اور صارف کو براہِ راست جوڑنا اس سلسلے میں مددگار ہوسکتا ہے۔ حکومت کو خوراک کی اشیاء کی مارکیٹنگ کے اس ماڈل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس طرح خوراک کے پیداواری شعبے اور براہِ راست مارکیٹوں کے معاون شعبوں میں نئے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔

Daily-Nai-BaatDr Ibrahim Mughale-paperLahorePakistan