انجمن طلباء اسلام کے 54ویں یوم تشکیل پر خصوصی تحریر ۔۔عامر اسماعیل
دنیا بھر میں کسی بھی معاشرے میں جب بھی جمہوریت کو مضبوط اور مستحکم بنانے اور معاشرے میں جمہوری روایات کو پروان چڑ ھانے کی بات کی جاتی ہے توسب سے پہلے ان معاشرتی عوامل کو اس بحث کا حصہ بنایا جاتا ہے جو بلا واسطہ یا بلواسطہ اس عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ اقوام عالم کی جمہوری ، معاشی ، معاشرتی ، سماجی ترقی میں براہ راست حصہ نوجوانوں بالخصوص طلبہ کا ہے ۔ پاکستان اس لحاظ سے مالا مال ملک ہے کہ اس کی آبادی کا 60فیصد سے زائد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں جمہوریت سے وابستہ طبقہ نوجوانوں کے حقوق و موثر قانون سازی کی بات تو کرتا ہے مگر عملا اقتدار ملنے پر تمام کئے وعدے بھول جاتا ہے ۔
پاکستان میں شفاف جمہوری استحکام کی راہ میں بڑی رکاوٹ گزشتہ ۳۸سال سے طلبہ یونینز پر عائد جبری پابندی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں طلبہ یونینز کو نوجوانوں کا انکا آئینی حق تسلیم کرتی ہیں لیکن حکومت بنانے کے بعد اس مسئلہ سے پہلو تہی سے کام لیتی نظر آتی ہیں ۔ 9 فروری 1984ء کو پاکستان کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز پر عائد کی جانیوالی پابندی کیساتھ ہی تعلیمی اداروں میں طلباء کی نشو ونما ، بہبود اور صحت مند مباحثے کا کلچر ختم ہوگیا ۔ اس غیر آئینی اقدام کے باعث ہم تعلیمی اداروں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت اور نوجوانوں کی غیر تدریسی مثبت سرگرمیوں میں شمولیت سے محرومی کا بحیثیت قوم نقصان اٹھا رہے ہیں ۔
ڈکٹیٹر ضیاء الحق کی جانب سے لگائی جانیوالی پابندی کو جمہوریت کے چیمپیئن حکمرانوں نے وعدوں کے باوجود بھی ختم نہ کیا ۔ 1970ء سے 1980ء کی دو دہائیوں میں طلباء یونینز کے پلیٹ فارم سے سیاست ، سائنس ، طب ، انجینئر نگ ، ادب ، صحافت سمیت ہر شعبے میں ملک کو بہترین قیادت اور غیر معمولی لوگ میسر آئے ۔ طلبہ یونینز کی تربیت گاہوں سے نکلنے والے افراد نے دنیا بھر میں اپنی صلا حیتوں کا نہ صرف لوہا منوایا بلکہ ملک کے لئے گراں قدر خدمات بھی سر انجام دیں ۔
طلبہ یونینز پر محض سیاست کرنے کا الزام عائد کیا جا تاہے اور ان طلباء کی سیاست میں شمولیت مناسب نہیں سمجھی جاتی لیکن انہی یونینز کے پلیٹ فارم سے اپنے عہد کے سیاسی ، فسلفیانہ اور سائنسی موضوعات اور نظریات پر صحت مندانہ مباحثے ، آرٹ اورکھیلوں کے مقابلہ جات ، ادبی مشاعرے منعقد ہوتے تھے الغرض طلباء اپنے عہد کی دانش سے جڑے رہتے تھے ۔ انہیں ادراک ہوتا تھا کہ عالمی ممالک کے درمیان کیا تضادات اور اختلافات چل رہے ہیں ۔ علاقائی اور ملکی سیاست میں کیا صف بند ی ہے ۔ اپنے حقوق کے کیلئے کیسے آواز بلند کرنی ہے ۔ ان کے درمیان ہر وقت مقابلے کی صلاحیت اور قیادت کرنے کا جوہر مو جود ہوتا تھا ۔ وہ اختلافات کو گفتگو کے کلچر سے با آسانی حل کرنے کا ہنر رکھتے تھے لیکن آج تعلیمی اداروں میں موجود طلبہ کی بڑی تعداد مذکورہ سرگرمیوں میں شامل نہیں ہیں ۔
تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز پر پابندی کے بعد تعلیمی ادارے بالخصوص جامعات کی فضا میں بے چینی ، انتہاپسندی ، عدم برداشت ، لسانیت ، صوبائیت پر مبنی پر تشدد رویوں نے جنم لیا ۔ اب ایک طویل وقت گزرنے کے بعد انتہا پسندی دہشت گردی کی شکل اختیار کر گئی ۔ اس سے قبل دہشت گردی کو فروغ دینے میں دینی مدارس پر الزام عائد کیا جاتا تھا کہ دینی مدارس کے غریب طلباء چند رپوں کے عوض سفاکا نہ کارائیوں کیلئے بہترین انتخاب ہیں اور انکی برین واشنگ با آسانی کی جاسکتی ہے لیکن اب یہ فتنہ خوفنا ک طور پر دن بدن تعلیمی اداروں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے ۔
پاکستان کی طلباء سیاست میں اہم اور سب سے بڑا کردار انجمن طلباء اسلام کا ہے ، جو آج اپنا ۵۴واں یوم تشکیل منا رہی ہے ، بلاشبہ انجمن طلباء اسلام نے اس ملک میں آخری طلبا ء یونین انتخابات جو 1989ء میں پنجاب کی سطح پر منعقد ہوئے میں پنجاب بھر میں 155سے زائد نشستیں جیت کر فتح اپنے نام کی ، انجمن طلباء اسلام کی جدوجہد نے پاکستان کی تاریخ میں انمٹ نقوش چھوڑے ، بطور طلباء تنظیم ملک کی تمام بڑی تحریکوں میں نا صرف حصہ لیا بلکہ سرگرم کردار ادا کیا جن میں تحریک نظام مصطفی ، تحریک تحفظ ختم نبوت ، بنگلہ دیش نامنظور تحریک سمیت طلباء حقوق تحریک اور طلباء یونین بحالی کی تحریک شامل ہیں ،مذکورہ تمام تحریکوں میں انجمن طلباء اسلام کے کارکنان نے باقاعدہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا جس سے ان تحریکوں کو تقویت ملی ، تعلیمی اداروں میں تلاوت کے بعد نعت پڑھنے کا رواج انجمن طلباء اسلام کے ساتھیوں کی محنت کا نتیجہ ہے جو بعد ازاں سیاست کے ایوانوں تک باقاعدہ حصہ بنا جس میں انجمن طلباء اسلام کے سابق رفقاء کی کاوشیں شامل تھی ، تعلیمی نصاب میں اولیاء عظام ، نظریہ پاکستان ، عقیدہ ختم نبوت اوراسلامی اقدار سے متعلق مضامین شامل کروانے کا سہرا بھی اے ٹی آئی کے سر ہے ۔
تعلیمی اداروں میں بڑھتی ہوئی تشدد پسندی کے خلاف اے ٹی آئی نے تعلیمی امن فارمولہ دیا اور تعلیمی اداروں میں طلباء سیاست کو اسلحہ کلچر سے پاک کرنے کے لئے بھرپور تحریک چلائی،اسلامی نظام تعلیم ، بیداری عالمی ضمیر مہم ، قومی یکجہتی مہم اے ٹی آئی کے کارہائے نمایاں ہیں ، انجمن طلباء اسلام کے زیر اہتمام آج بھی کالجز جامعات کی سطح پر طلباء کے مابین مقابلہ جات ، کھیلو ں کے پروگرامز ، مباحثے ، مشاعرے ، محافل نعت، دروس قرآن ،تعلیمی ایکسپوز، سیمینارز ، کانفرنسسزمنعقد کی جاتی ہیں جس سے طلباء کی صلاحیتو ں کو نکھارنے کا موقع ملتا ہے ،انجمن طلباء اسلام کے کارکنان آج بھی تعلیمی مسائل بارے سراپا احتجاج ہیں فیسوں میں اضافہ ، ہاسٹلز کے مسائل ، نصاب کے مسائل اور آن لائن نظام تعلیم جیسے مسائل پر طلباء کی آواز اے ٹی آئی کے کارکنا ن ہیں ،اے ٹی آئی نے کرونا وبا کے اندر طلباء کے مسائل بارے ارباب اقتدار کو ہر طرح سے اپنا احتجاج ریکا ڈ کراکے ملک کی سب سے بڑی طلباء تنظیم ہونے کا ثبوت دیا۔
انجمن طلباء اسلام کی موجودہ قیادت کے فیصلے کے مطابق رواں سال کو عزم نو سال کے طور پر منایا جارہا ہے جسکا مقصد ایک نئے عزم اور ولولے کے ساتھ ملک کی طلبا ء برادری کو درپیش مسائل کے حل کے لئے جدوجہد کرنا ہے ،حکمران طبقہ اس ملک کے مستقبل کو کسی صورت نظر انداز نہیں کرسکتا لہذا یہ وقت ہے کہ اس ملک کے روشن مستقبل یعنی طلباء کو اپنے حقوق کے لئے عزم نو کے ساتھ اٹھ کھڑا ہونا ہوگا اگر اٹھارہ سال کا ایک نوجوان اپنے لئے وزیر اعظم کا انتخاب کرسکتا ہے تو اسے تعلیمی اداروں میں اپنے نمائندے منتخب کرنا کا بھی آئینی حق ملنا چاہیئے۔