روم دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ یہاں کے ریلوے سٹیشن سے ٹرین کا چلنا،اس قدیم ترین شہرسے ہماری رخصتی کا اعلان تھا۔سوادِرومۃ الکبریٰ میں دلی کو یادکرنے والوں کویہاں وہی عظمت ،وہی رفعت، وہی شان دلآویزی نظرآتی ہے۔ اگرروم کی تاسیس ۷۵۳ قبل مسیح میں مانی جائے تو اب تک یہ شہر اٹھائیس صدیوں کے لیل ونہاردیکھ چکاہے ۔ان اٹھائیس صدیوں میںمسیحیت کی مخالفت اور شدید مخالفت کازمانہ بھی شامل ہے لیکن اس کے بعدسولہ سوباسٹھ سال مسیحیت کے ہیں ۔مسیحیت ہی کا فیضان ہے کہ روم ایک شہرہونے کے باوصف دومملکتوں کا دارالحکومت ہے۔ایک اٹلی اور دوسرے ویٹیکن ……ویٹیکن سے آنے والے مسافر ٹرین میں سوارہوئے توروم کی شب، بیدارہوچکی تھی…اگرچہ یہ شاعرانہ معنوں میں شب ِوصال نہیں تھی تاہم ہماراخیال، شاعرکے خیال سے ہم آہنگ تھاکہ ؎
شبِ وصال بہت کم ہے آسماں سے کہو
کہ جوڑ دے کوئی ٹکڑاشبِ جدائی کا
روم کا آسمان اس خیال پر مسکرارہاتھا اور اس کی مسکراہٹ مناظرکو اجال رہی تھی۔ٹرین میں زیادہ مسافر نہیں تھے۔ جو تھے وہ اپنی اپنی دنیامیں مگن تھے ۔ہم باہر کی روشنیاں دیکھتے رہے لیکن بیچ بیچ میں تاریکی کے منطقے آجاتے تو ہم ایک دوسرے سے باتیں کرتے یا پھر مطالعے میں مصروف ہوجاتے …ٹرین بہت پرسکون تھی اور تیسری دنیاکی ٹرینوں کی طرح اسے گرداڑانے، شورمچانے اور ہچکولے دینے کا کوئی شوق نہیں تھا۔جب میںنے حذیفہ کواپنے موبائل میں ڈوبتے دیکھا تو میرے ذہن پر حالیہ اسفار کے اثرات غلبہ پانے لگے …یونان کا سفر میری پرانی خواہش کی تکمیل تھا۔ یونان، میرے لیے سقراط کا دیس تھا۔میں وہاں ہر جگہ سقراط کے نشان تلاش کرتارہالیکن حیران کن حدتک اسے سقراط کے نشانات سے خالی پایا،جس کسی سے اس بارے میں بات کرناچاہی اس کے ہاں سقراط سے کوئی دلچسپی نہ دیکھی …یہ تجربہ مجھے ملول کرتارہا۔معلوم نہیں یہ ملال کب سے میرے اندرنظم کی تخلیق کررہاتھا۔میں اندراورباہرکی دنیامیں سفرکرتاہوا سٹیشنوں کے نام پڑھ رہاتھا ۔نہ ہوامصرکہ میں آپ کو سٹیشنوں کے عربی ناموں سے آگاہ کرتا۔ یہاں کے نام تو مشکل مشکل اطالوی اور انگریزی الفاظ پرمشتمل تھے۔ ان کے اظہارسے اردوعبارت کو کیا گراں بار کروںالبتہ ایک سٹیشن کانام تو بتاناہی ہوگا یہ marcellino frignano تھا ،آدھے سے زیادہ سفر گزرچکاتھا جب رات کی تاریکی میں اس سٹیشن پرشعر کا ستارہ جگمگایااور یونان سے آنے والامسافرآسمان شعرپر جگمگانے والے ستارے کی راہنمائی میں ایک بار پھر سقراط کے دیس میں جاپہنچا …اب اس کے
لبوں پر سقراط کی تلاش کا نغمہ تھا…اب میں سقراط کو کہاں ڈھونڈوں……
جھوٹ کے جام چل رہے تھے جب /میں نے سچائی کا پیالہ بھرا /اور سقراط کوتلاش کیا /کاش سقراط مجھ کو مل جائے/میرے دل کا کنول بھی کھل جائے /وہ فلاطوں جو آخری لمحے /اپنے استاد تک نہیں پہنچا /میں جہاں بھی گیا میسر تھا /رخش، ظلمت میں گم، فگندہ سُم /جستجو کے اسی تسلسل میں/ شہر یونان تک چلاآیا/ہائے سقراط تو یہاں بھی نہیں /اس کا کوئی یہاں نشاں بھی نہیں /اب میں سقراط کو کہاں ڈھونڈوں…
روم کی ٹرین میں جو نیپولی جارہی تھی، سقراط کیسے مل سکتاتھا۔اس ٹرین میں تو زیادہ سے زیادہ نیپولی دیکھنے کا خواب پوراہوسکتاتھا …نیپولی اب زیادہ دور نہیں تھا …نظم مکمل ہوئی تو منزل تک آدھ گھنٹے کی مسافت باقی رہ گئی تھی……ٹرین میں ہمارے علاوہ صرف دومسافررہ گئے تھے۔ دونو کے دل ایک دوسرے کی طرف مائل مگر صنف ایک دوسرے کے خلاف تھی۔ اطالوی ٹرین میں اجالے بکھیرنے والی روشنیاںانھیں اچھی نہیں لگ رہی تھیں۔ وہ اپنے جذبات کے اظہارکے لیے تاریکی کے خواہاں تھے چنانچہ انھوںنے اپنی سیٹوں سے اٹھ کر گاڑی کے دروازے کی پناہ لے لی ۔یوں بھی اب نیپولی زیادہ دورنہیں رہ گیاتھا۔رات عین دس بج کر پچاس منٹ پر ٹرین نے نیپولی سنٹرال میں اپنے پہیے داخل کیے۔روم سے چلتے ہوئے ہمیںنیپولی پہنچنے کا یہی وقت بتایاگیاتھا ۔کمال وقت کی پابندی ہے اوریہ تو معلوم ہی ہے کہ’’ وقت کی پابندی احساس ذمہ داری کی علامت ‘‘ہوتی ہے۔عبداللہ نے کہا تھاکہ ریلوے سٹیشن پر پہنچ کرآپ نے کہیں جانانہیں سٹیشن ہی پر رکناہے ۔میں آپ کو وہیں سے لوں گا ۔ہم نیپولی سٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر گیارہ پر اترے تو سٹیشن پر وہی سکوتِ مضمحل چھایاہواتھا جس کا ذکر احسان دانش مرحوم نے کیاتھا ؛’’جس طرح دیہات کے سٹیشنوں پر دن ڈھلے +اک سکوت ِمضمحل گاڑی گزرجانے کے بعد‘‘…ویسے بھی ہماری بوگی سے ہمارے علاوہ صرف وہی دو مسافراترے تھے جو دیر سے اپنی سیٹیں چھوڑ کر ٹرین کے مخرج میں کھڑے اٹکھیلیاں کررہے تھے ۔وہ تو اترتے ہی اڑنچھو ہوگئے گویا ٹرین نے ان کے تخلیے میں جو خفیف سی رکاوٹ پیداکررکھی تھی اس سے ان کی جان چھوٹی …اور ہم لگے ادھر ادھر دیکھنے، دوردورتک کوئی شکل نظرنہ آئی تو ہم نے خود ہی مخرج کی تلاش شروع کی۔کوئی راہ نمائی کرنے والاتو تھانہیں ہم نے اپنے ان دورفقاء سفرکو جس جانب جاتے دیکھاتھا اسی جانب چل دیے۔ کیادیکھتے ہیں کہ ٹرین کی آخری بوگی جہاں رُکی تھی، اس سے آگے ریلوے لائن ختم ہوچکی تھی اور وہاں سٹاپ لگاہواتھا ۔مجھے اپنے بچپن میں سرگودھا ریلوے سٹیشن پرایسے مقامات سے شنٹنگ کرتی گاڑیاں دیکھ دیکھ کر خوش ہونے اور بعض اوقات ان میں سیرکرنے کا تجربہ یادآیا۔یہ ریلوے سٹیشن کیاتھا ایک چھوٹا ساایرپورٹ ہی تو تھا۔ حذیفہ نے رُک کر تصویربنائی، باہر نکلے تو سامنے ایک نائجیرین عین راستے میں سامنے اپناسامان رکھے بڑے دھڑلے سے نماز اداکررہاتھا۔ حذیفہ نے جلدی سے اپنا موبائل نکال کر دیکھاکہ قبلہ کی سمت کیاہے اور کیا اس کا قبلہ درست بھی ہے ؟اس تحقیق کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ روم کے جس ہوٹل میں ہم ٹھہرے تھے وہاں حذیفہ نے قبلے کی جو سمت متعین کی اس پر خود اسے کچھ شبہ تھا۔ یہاں جب نائجیرین نمازی اور حذیفہ کے موبائل کی آرا متفق ہوگئیں تو اسے اطمینان ہواکہ موبائل ٹھیک سمت بتارہاہے ۔اتنے میں فون کی گھنٹی بجی اور بات کے دوران ہی میں تین نوجوان سامنے آتے دکھائی دیے …ان کے فون بندکرنے اور جیب میں ڈالنے کے انداز ہی سے معلوم ہواگیاکہ انھی سے بات ہورہی تھی۔یہ عبداللہ اور اس کے دوساتھی تھے ۔انھوںنے گرم جوشی سے معانقہ کیا اور ہماراسامان سنبھال لیا ۔یہ پاکستانی تارکین وطن تھے جو ہمارااستقبال کرنے کے لیے آئے تھے ۔ میںنے ان سے کہاکہ آپ ہمارے لیے کوئی مناسب ہوٹل تجویز کرکے ہمیں وہاں تک پہنچادیں لیکن وہ کہنے لگے کہ یہ کیسے ہوسکتاہے ؟ آپ مہمان ہیں اور ہم پاکستانی اور پھر پٹھان ہم آپ کو کہیں نہیں جانے دیں گے۔ اپنے گھر لے کر جائیں گے۔ میںنے انھیں تین بار یہی کہاکہ ہم کسی ہوٹل میں ٹھہرناچاہتے ہیں لیکن وہ کہنے لگے آپ باربار یہ بات کرکے ہمیں شرمندہ نہ کریں۔یہ بات ہماری روایات کے خلاف ہے کہ ہمارے ہوتے ہوئے ہماراکوئی ہم وطن ہوٹل میں ٹھہرے۔ مجھے وہ پٹھان یادآگیا جس نے دوسرے میزبان کے ساتھ ،مہمان کو کھاناکھلانے کے جھگڑے پر مہمان ہی کو گولی ماردی تھی کہ اگر میں اسے کھانانہیں کھلاسکتا تو تمھیں بھی کھانا نہیں کھلانے دوں گا، چنانچہ نہ رہا بانس نہ بجی بانسری…اب ہمارے پاس کوئی ان کی میزبانی قبول کرنے کے سواکوئی چارہ نہ تھا۔ان کے ساتھ چلنے کا یہ فائدہ ہواکہ انھوںنے ہمیں نیپلزکے گلی کوچے اور ناہموار راستے خوب دکھائے۔ کہیں پتھروں کے ٹکڑوں سے بنی ہوئی اونچی نیچی گلیاں تھیں کہیں پانی کھڑاتھا اور کہیں چوراہے میں دھوئے ہوئے کپڑے ،خود ساختہ الگنیوں پرلٹک رہے تھے۔ہم ابھی ان مناظر کو دیکھ ہی رہے تھے ایک سمت سے’’ مرزاکی بائیسکل ‘‘جیسے موٹر سائیکل پر سوار ایک خاتون اپنی جانب آتی دکھائی دی۔قریب آکر اس نے بریک لگائی اورسرسے ہیلمٹ اتارا…یہی ہماری منزل تھی۔ عبداللہ نے اوپر کی سمت جانے کا اشارہ کیا اور ہم نے زینے طے کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ ایک منزل، دوسری منزل، تیسری منزل اور پھرچوتھی منزل …مجھے اس سارے بیرونی دورے کے دوران جو پسینہ نہیں آیا تھا اس کی تلافی ہو گئی۔ آخری منزل تک پہنچتے پہنچتے میں شرابور ہو چکا تھا۔