چپ ہوئے پاپا،چل دیے پطرس، گم ہوئے مرقس، مٹ گئے لوقا
جَاء الْحَقُّ و َزَہَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوقاً
ایک زمانے میں جب افغانستان میں بچہ سقا مسندنشین ہواتو مولاناظفرعلی خان نے اس موقع پر ایک مرصع نظم میں یہ شعرکہاتھا۔ یہاں ہمیں یہ شعر نہ تو افغانستان کے حوالے سے یاد آیاا ور نہ ہی مولاناظفرعلی خان کے حوالے سے بلکہ اس شعرکے یاد آنے کا قرینہ سفراطالیاہے۔ جس کے دوران میں راقم سینٹ پیٹرکے گرجاکے سامنے کھڑا اس شعرکو یادکررہاتھا ۔ پیٹرکو اردومیں پطرس کہاجاتاہے ۔اردووالے اس سے پطرس بخاری نہ سمجھیں بلکہ یہ تاریخ عیسائیت کے اس مردبزرگ کانام ہے جس نے سچائی سامنے آجانے پر اسے قبول کیااور اس کی ہرقیمت دینے کو تیارہوگیا۔سچ کی زیادہ سے زیادہ قیمت کسی انسان کی جان ہی ہوسکتی ہے سو، لی گئی اور جناب پطرس نے جوانمردی کے ساتھ اسے قبول کیا ۔کہاجاتاہے کہ نیرو نے بڑی بے دردی کے ساتھ جناب پطرس کو اپنے سامنے جان سے گزرتے ہوئے دیکھا،جی ہاں وہی نیرو جس کے بارے میں مشہورمقولے سے سب آگاہ ہیں کہ روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا… اگرچہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جی نہیں وہ بانسری نہیں گٹاربجارہاتھا۔بہ ہر حال وہ بانسری بجارہاتھا یا گٹار، خاصا سفاک تھا اور اسے بانسری یا گٹار دونو ہی بجانے کا حق نہیں تھا۔
سینٹ پیٹرکا چرچ دنیاکا عظیم ترین چرچ ہے۔ عیسائی عقیدے کے مطابق یہی وہ جگہ ہے جہاں جناب پطرس کو مصلوب کیاگیااور یہیں پر ان کا مدفن بھی ہے ۔کہتے ہیں کہ جب جناب پطرس کو صلیب دی جارہی تھی تو انھوںنے اس خواہش کا اظہارکیاکہ انھیں موت سے ہم کنارکرتے ہوئے صلیب کو الٹادیاجائے کہ ان کے عقیدے کے مطابق سیدنامسیح ؑ کو سیدھے رُخ مصلوب کیا گیا تھا۔ اس لیے سیدھے رخ مصلوب ہونا خلاف ِادب ہے۔ جناب پطرس کی اس یادگار میں مائیکل اینجلو کی بنائی ہوئی ایسی پینٹنگز محفوظ ہیں جن کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ عظمت و رفعت کے اظہارکے لیے دنیائے عیسائیت نے یہاں پورا زورصرف کردیاہے ۔ہم نے جہاں بھی مغربیوں کو سیروسیاحت کرتے دیکھامقدس مقامات پرلباس کی جانب سے ان کی آزادہ روی پسندنہیں آئی، یہاں آکر معلوم ہواکہ مغربیوں کے بزرگوں کی نگاہ میں بھی یہ روِش پسندیدہ نہیں ہے چنانچہ سینٹ پیٹرکے چرچ میں داخلے سے پہلے زائرین کو آگاہ کر دیا جاتاہے کہ یہ ایک مقدس مقام ہے اس لیے یہاں جانگیے اور سکرٹس پہن کر داخل نہیں ہواجاسکتا۔ اقبال ،رازکی یہ بات پہلے ہی بتاچکے ہیں کہ ؎
حکمت ازقطع وبرید جامہ نیست
مانع علم و ہنر عمامہ نیست
لباس کی تراش خراش سے دانائی حاصل نہیں ہوتی ،عمامہ پہننے سے علم و ہنر سیکھنے میں کوئی رکاوٹ نہیں آجاتی…ویٹیکن محض ایک سواکیس ایکٹرپر مشتمل دنیاکی دوسری چھوٹی ترین ریاست ہے گویااس کا رقبہ ہمارے ایچی سن کالج سے بھی کم ہے جو ایک سوسترایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ رہا ہمارا پنجاب یونیورسٹی نیوکیمپس وہ تو اس سے کہیں بڑاہے یعنی سولہ سو ایکڑ سے بھی زیادہ۔ ویٹیکن، روم میں واقع ہونے کے باوجود اٹلی کے ماتحت نہیں۔ یہاں اٹلی کیادنیاکاکوئی قانون نہیں چلتاکہ یہاں کا اپنا قانون ہے۔ اسے اقوام متحدہ میں آبزرور کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کا اپناترانہ اور اپنی روایات ہیں۔ اس ملک کی آبادی ایک ہزارسے بھی کم یعنی سواآٹھ سو افرادپر مشتمل ہے۔ ۱۱؍فروری ۱۹۲۹ء سے اسے ایک آزادوخودمختارملک تسلیم کیا جا چکا ہے۔ اس مختصر ’’ریاست‘‘کے اپنے ذرائع آمدن ہیں جن میں میوزیم کے ٹکٹ سے حاصل ہونے والی آمدنی، داخلے کے واجبات سے حاصل ہونے والی رقوم، مطبوعات کی آمدنی اور ایک کروڑلوگوں کے عطیات شامل ہیں۔
کوئی زائر،سینٹ پیٹرکا چرچ دیکھے اور ویٹیکن پر بات نہ کرے ،یہ تو ہو نہیں سکتا ۔سینٹ پیٹرکے اطراف میں ویٹیکن ہی ویٹیکن ہے۔ویٹیکن ہمارے سامنے تھا۔ دن بھرکا تھکاہارا آفتاب مغرب کی وادیوں میں اپنے وجود کو چھپا نے کی کوشش میں مصروف تھا۔روشنی پر تاریکی غلبہ پارہی تھی ۔کچھ ہی دیرمیں منظرگریٹ فائرآف روم کی یاددلانے لگا۔ اگردن ہوتاتو یہاں کچھ اورہی منظرہوتا۔باہرتو باہر اس کے اندرصناعوںکی عمرعزیزان کی بنائی ہوئی تصویروں، اسٹیچوزاور نقاشی کی صورت میںوقت کو شکست دینے میں مصروف ہے ۔یہاں کی لائبریری میں دنیاکے قدیم ترین مخطوطات محفوظ ہیں۔ صرف مخطوطات ہی نہیں ان کی جلدوں کی بھی اپنی ایک تاریخ ہے ۔ان نوادرکو دیکھنے کے لیے ایک پہرکیا کئی دن بھی ناکافی ہیں اورہمارے پاس تو ایک پہربھی نہیں تھا ۔میں جرمنی کے پوپ سے گوٹنگن میں ملاتھا۔امن و سلامتی کے موضوع پر باتیں بھی ہوئی تھیں ۔وہ عربی سے واقف تھے ۔ان کے ساتھ ملاقات کی یادگار کچھ تصویروں کی شکل میں محفوظ ہے۔ یہاں دنیائے عیسائیت کے بزرگ ترین پوپ یعنی پاپائے روم کی رہائش ہے ۔ویٹیکن جانے والے ان سے ملاقات بھی کرسکتے ہیں لیکن اس کی خاصی کڑی شرائط ہیں ۔ راجہ خواجہ پرشاد بہادر نے ’’روزنامچہ سفریورپ‘‘ میں پاپائے روم سے ملاقات کی شرائط اور تفصیل بیان کی ہے ۔اس ملاقات کا انتظام برٹش کونسل نے کیاتھااوراس کے لیے باقاعدہ ٹکٹ حاصل کیاگیاتھا۔ کئی سو مرد اور عورتیں مختلف کمروں میں منتظرتھے ۔ ایک گھنٹہ تک انتظارکے بعد پوپ برآمدہوئے۔’’ان کی تشریف آوری ہوتے ہی سب دو زانو ہو گئے اور ہر شخص نے ان کے ہاتھ کو بوسہ دیا چنانچہ ہم سب نے بھی وہی عمل کیا۔ جب وہ ہمارے قریب پہنچے تو ان کے اے ڈی سی نے کہا کہ ’’انڈین‘‘ تو پوپ نے فرمایا’’ بمبئی ‘‘جس پر سیکریٹری صاحب نے کہا کہ’’ حیدر آباد دکن‘‘۔ سب سے ملنے کے بعد پوپ نے دعا دی اور دوسرے کمروں کی جانب روانہ ہوگئے‘‘۔
میں سینٹ پیٹرکے اسکوائر میں ویٹیکن اوبلسک کے پاس کھڑاتھا ۔یہ اوبلسک بالکل اسوان کے نامکمل ستون (Unfinished Obelisk)جیساہے لیکن اس کے برعکس مکمل ۔یہ ستون مصر کے علاقے ہیلوپولس سے یہاں لایاگیاتھا۔ ہیلوپولس مصرکے قدیم ترین شہروں میں سے ہے۔ میں ہیلوپولس میں جدید ترین عمارات اور حسنی مبارک کا محل تک دیکھ لینے کے باوجودایک عرصے تک اس نام کے پس منظرسے واقف نہیں تھا۔ جب معلوم ہواکہ اس کا مطلب ’سورج کا شہر‘ہے تو مجھ پر اس کا فرعونی پس منظر واضح ہوگیا۔یہ شہر علم وفن اور فلسفے کا مرکز رہا۔دنیائے فلسفہ کے بڑے بڑے بزرگ تحصیل علم کیلئے یہاں کے مکاتب ومدارس سے رجوع کیاکرتے تھے ۔ہیلوپولس سے لایاجانے والایہ ستون آج جس جگہ پر نصب ہے وہ گویاعیسائیت کا شہداچوک ہے۔ وہ جگہ جہاں بہت سے عیسائی بزرگوںکو تبدیلی مذہب کی پاداش میں موت کی سزادی گئی۔ آج یہاں بے شمار خوانچہ فروش اپنے خوانچے سجائے بیٹھے تھے۔ میں سینٹ پیٹرکے چرچ کو دیکھتے ہوئے ان کی جانب زیادہ توجہ نہ کرسکا ۔جب رات کا اندھیراچھانے لگااورحذیفہ نے مجھے یاددلایاکہ آج ہی رات ہمیں روم سے رخصت ہوکر نیپلز کی راہ لینی ہے تو میں ان خوانچہ فروشوں کی جانب متوجہ ہوا۔کوئی بھی تاریخی جگہ ہو وہاں رہنے والوں اور وہاں کے کاروباری لوگوں کو تو محض اپنی روزمرہ زندگی اور اپنے کاروبارہی سے دلچسپی ہوتی ہے۔ یہاں تاریخ عیسائیت کے بے شمار کرداروں کے ماڈل دستیاب تھے۔ رجال ہی نہیں اماکن کی بھی شبیہیں برائے فروخت موجود تھیں۔ میں نے جس کی بھی قیمت پوچھی اسے اپنے گمان سے بہت بڑھ کر پایااور خریداری کی جگہ ’’ گراتسیا‘‘ پر اکتفا کیا۔ گراتسیاکے وہی معنی ہیں جو ہمارے ہاں شکریہ جناب کے ہیں ۔اشفاق صاحب یادآئے جنھوں نے رومیوں اور لاہوریوں کا موازنہ کرتے ہوئے کہاتھا کہ روم کی کونسی بات ہے جو لاہوریوں سے نہیں ملتی روم کو تو بس اپناپاکستان ہی سمجھو۔