’’فرینڈز آف میو‘‘… فرینڈز آف انسانیت

جب کرنٹ افیئرز کی بات ہوتی ہے تو اس میں ہم قومی سیاست اور قومی معیشت کو موضوع بحث بناتے ہیں کیونکہ ان دو شعبوں میں ہونے والی کوئی بھی پیش رفت عوام الناس کی زندگیوں کو براہ راست متاثر کرتی ہے۔ اسی لیے ہمارے ہاں خبروں میں متاثرہ یا متاثرین کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں جو کہ ہمیشہ منفی معنوں میں سے ہوتے ہیں اس کے برعکس ایک شعبہ ایسا ہے جسے ہماری معیشت اور سیاست سے بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور وہ صحت کا شعبہ ہے کیونکہ اس کا تعلق براہ راست 22 کروڑ عوام کی زندگیوں سے ہے۔ معیشت اور سیاست کی بقا انسانیت کی بقا میں ہے۔ اس لیے میرے خیال میں جو لوگ اور ادارے صحت کے شعبے کو ڈیل کر رہے ہیں ان کا درجہ سیاست اور معیشت سے بدتر ہے۔ 
سیاست اور معیشت میں خبروں کی اکثریت دل شکن ہے جبکہ صحت ایسا شعبہ ہے جہاں روزانہ لاکھوں انسانوں کی جانیں بچائی جا رہی ہیں۔ یہ زندگی اور امید کا شعبہ ہے مگر ہمارے ہاں اس میں بھی منفیت تلاش کی جاتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ایک ڈاکٹر روزانہ ایک درجن افراد کی جان بچاتا ہے مگر یہ کوئی خبر نہیں۔ خبر اس وقت بنتی ہے جب کوئی مریض بہت سی ضمنی وجوہات کی وجہ سے دم توڑ دیتا ہے تو فوراً خبر آجاتی ہے کہ ڈاکٹروں کی غفلت سے مریض ہلاک، اسپتال میں توڑ پھوڑ، روڈ بلاک اور دھرنا۔ یہ سب افسوسناک ہے۔ 
اس ہفتے ہمیں لاہور میں صحت کے موضوع پر ایک آگاہی سیمینار میں شرکت کا موقع ملا جس کا اہتمام ایک غیر سرکاری تنظیم ’’فرینڈز آف میو اسپتال‘‘ (FOMH) نے کیا تھا تا کہ بچوں میں آگ سے جل جانے واقعات کے علاج اور سدباب کے لیے عوام میں آگاہی پیدا کی جا سکے۔ اس سیمینار میں پنجاب ہیلتھ منسٹر ڈاکٹر یاسمین راشد مہمان خصوصی تھیں۔ فرینڈز آف میو اسپتال بنیادی طور پر مخیر خواتین و حضرات کا ایک گروپ ہے جو چند سال پہیلے سے کام کر رہا ہے۔ اس کا ابتدائی مشن یہ تھا کہ 150 سال پرانے پنجاب کے پہلے سرکاری اسپتال کی قدیم عمارت کے تاریخی ورثے کی حفاظت اور نگہداشت کی جائے اور سرکاری فنڈز کی فراہمی میں مشکلات  کی وجہ سے استپال میں مریض کو جن ناقابل بیان مسائل کا سامنا ہے ان میں کمی لانے کے لیے اسپتال میں انفراسٹرکچر کی بحالی کا انتظام کیا جائے اپنے قیام سے لے کر اب تک FOMH نے اسپتال میں بہت سے وارڈز کی اپ گریڈیشن کی ہے مسافر خانہ بنوایا گیا ہے ۔ لواحقین کے لیے شیڈ بنوائے گئے ہیں اور کرونا کے دوران ان کے اپ گریڈ کئے گئے وارڈ کو کرونا مریضوں کے لیے مخصوص کیا گیا۔ 
اس آگاہی سیمینار کا پس منظر یہ ہے کہ فرینڈز آف میو نے 14 کروڑ روپے کی خطیر رقم سے میو اسپتال کی ایمر جنسی کی بیسمنٹ جو 2005ء سے بند پڑی تھی اسے بحال کر کے اس میں Burn Unit بنانے کا منصوبہ شروع کیا ہے۔ تنظیم کے کوآرڈی نیٹر چوہدری عثمان تارڑ کے مطابق اس کار خیر میں فرینڈز آف میو کے ساتھ ساتھ ساؤتھ امریکہ میں کام کرنے والے کنگ ایڈ ورڈ میڈیکل کالج کے فارغ التحصیل ڈاکٹرز کی تنظیم KEM KAANA کے خصوصی تعاون سے کیا جا رہا ہے ۔ عثمان تارڑ نے بتایا کہ اس برن یونٹ کے علاوہ آپریشن تھیٹر HDU اور ICU بنائے جائیں گے جس میں محترمہ عذرا تجمل نے سپانسر شپ فراہم کرنے کی ذمہ داری لی ہے۔ یہ ایک جدید ترین State of the Art یونٹ ہو گا جس سے علاج میں انقلابی سہولتیں میسر ہوں گی۔ عثمان تارڑ صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کے علاوہ موجودہ جبڑا وارڈ کو Peads Emergency میں تبدیل کیا جائے گا تا کہ بچوں کے جلنے کے واقعات کا بروقت علاج یقینی بنایا جا سکے۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ Burn یونٹ اور ICU کے اندر اینٹی بیکٹریل سسٹم متعارف کروایا جا رہا ہے جو میو اسپتال کے کسی شعبے میں پہلی بار ہے اس سے بچوں کے اندر جلنے کے زخموں کے خراب ہونے کے امکانات کافی حد تک کم ہو جائیں گے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ آنے والے وقت میں یہ سسٹم اسپتال کے دیگر شعبوں تک پھیلانے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔ 
پروفیسر ڈاکٹر محمد شریف ہیڈ آف پیڈ یاٹرک سرجری میو اسپتال نے اس موقع پر حاضرین کو بتایا کہ روزانہ 4،5 مریض جلنے کے بعد یہاں آتے ہیں جس میں ہر مہینے 95 سے 100 مریض کا ایڈمیشن ہوتا ہے اس میں حادثات کی سب سے زیادہ تعداد بچوں کی ہوتی ہے اور گرم پانی میں جلنے کے واقعات سب سے زیادہ ہیں۔ دسمبر سے فروری کے درمیان یہ کیس زیادہ آتے ہیں۔ یہ بڑا تکلیف دہ ہے اور اس کا علاج بہت مہنگا ہے۔ 
ریڈنگ آرکیٹیکٹ مسز شاہزینہ نے بتایا کہ گھریا بلڈنگ بنانے سے پہلے اس میں آگ سے بچاؤ کے ہنگامی راستے اور فائر الارم سسٹم سے جلنے کے واقعات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ وائس چانسلر کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی ڈاکٹر خالد مسعود گوندل (پرائڈ آف پرفامنس ، تمغۂ امتیاز) نے کہا کہ حفظ ماتقام کے طور پر آگ لگنے کے واقعات میں کمی کے لیے گیس سلنڈر اور روم ہیٹرز بنانے کے معیار پر قانون سازی کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد جلنے کے مریض کو فرسٹ ایڈ کے مرحلے پر پیدا میروکس کی تربیت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے جلے ہوئے مریض پر کمبل ڈالا جاتا تھا کہ ہوا نہ لگے لیکن وہ فرسودہ ہو چکا ہے۔ مریض پر کمبل کی بجائے پانی ڈالیں۔ انہیوں نے مفت ادویات اور علاج کے لیے اپنے ادارے کی طرف سے پوری یقین دہانی کروائی کہ ہم اس طرح کے مریضوں کے بہترین علاج اور توجہ کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ 
پروفیسر محمود شوکت چیئرمین بورڈ آف گورنرز میو اسپتال نے کہا کہ علاج میں کوتاہی کو معاشی وجوہات ہیں جس وجہ سے لوگ سپیشلسٹ ڈاکتر کے پاس جانے کی بجائے عطائی سے علاج کروانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ تعلیم اورآگاہی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ Tertiory کیئر اسپتال کو عمومی اور ہر طرح کے علاج کے لیے اوپن کر دینا قومی وسائل کا ضیاع ہے مگر یہاں کوئی پالیسی نہیں ہے۔ آپ جتنے مرضی پراجیکٹ لانچ کرتے جائیں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ جب تک آپ کا پراجیکٹ Sustainable نہ ہو۔ ہماری پالیسیاں ایمرجنسی موڈ سے باہر نہیں نکل پاتیں۔ انہوں نے سسٹم کو قابل عمل بنانے پر زور دیا۔ 
فرینڈز آف میو کی چیئرپرسن محترمہ فاطمہ فضل نے کہا کہ برن یونت کا قیام ہمارے دیرینہ خواب کی تکمیل ہے جس میں ہم اپنے ساتھیوں کے مشکور و ممنوں ہیں انہوں نے FOMH کے اغراض و مقاصد بیان کیے جن کا ذکر پہلے آ چکا ہے۔ 
وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے حکومت پنجاب کے ہیلتھ پروگرام کو گھر گھر پہنچانے کا اعلان کیا۔ سیمینار میں دیگر مقررین جن میں زیادہ تعداد ماہرین شعبہ صحت کی تھی، نے خطاب کیا اور اپنی سفارشات پیش کیں پروگرام کے آخر میں FOMH کی طرف سے ان کے مشن میں تعاون پر شرکاء کو اعزازی شیلڈز پیش کی گئیں۔ 
ایک پرائیویٹ تنظیم کی طرف سے ایک سرکاری ادارے کے کام میں بہتری کے لیے اسے Adopt کرنے کی یہ ایک بہترین مثال ہے جس طرح فرینڈز آف میو نے میو ہسپتال کے شانہ بشانہ کام کر کے مریضوں کی بہتری کے لیے انقلابی اقدامات کیے ہیں یہ قابل تحسین ہے۔

ColumnDaily-Nai-BaatLatest Urdu Newsnai-baatUrdu newsUrdu Newspaper