ہر سال دسمبر آتے ہی ملک ٹوٹنے کی دل خراش یادیں چبھن بن کر تازہ ہو جاتی ہیں ۔16 دسمبر 2014 میں خونریز سانحہ آرمی پبلک سکول پیش آنے کے بعد بظاہر لگتا تھا کہ شاید ہر سال یہ موضوع بھی لرزہ خیز سقوط ڈھاکہ کے ساتھ زیر بحث آیا کرے گا ۔ یقیناً یہ واقعہ بھی کسی طور غیر اہم نہیں مگر وقت گزرنے ساتھ ساتھ شہید بچوں کے ورثا کے مطالبات میں اتنی شدت آگئی اور سکیورٹی اداروں کی کوتاہی کے بارے انگلیاں اس طرف اٹھنا شروع ہو چکیں کہ اب اس معاملے کو ’’احتیاط ‘‘ کے ساتھ پیش کرنے کی درخواست کی جاتی ہے۔ بنگلہ دیش کے قیام کے حوالے سے بات ہو تو ’’مثبت خبروں ‘‘ کے لئے پورا زور لگانے کے باوجود کچھ معاملات کو دبانا ممکن نہیں رہتا ۔ان دنوں آرکائیو بھی کھنگالے جاتے ہیں ۔ ایسے نومبر دسمبر 1971 کے قومی اخبارات کے شمارے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے غیر معمولی استعمال کے سبب اب تو نئی نسل بھی حقائق کے واقف ہورہی ہے ۔ اس حوالے اکثر سوالات کا سامنا بھی رہتا ہے۔ سکولوں ، کالجوں ، یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات پوچھتے ہیں کہ اگر 1971 کے ملکی ذرائع ابلاغ کے ریکارڈ کا جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ جنگ تو ہم جیت رہے تھے اور دشمن کو شدید نقصان اٹھانا پڑ رہا تھا تو اگر یہ سب سچ تھا تو پھر نتیجہ ملک کے ٹوٹنے کی صورت میں کیوں برآمد ہوا ۔ ویسے تو جسٹس حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کی شکل میں ایک جامع دستاویز موجود ہے ۔ لیکن اس وقت اعلیٰ عہدوں پر فائز عینی شاہدین کی کتابیں بھی بڑی حد تک معلومات سے بھری ہوئی ہیں ۔ جہاں تک اس وقت کے ذرائع ابلاغ کا تعلق ہے تو ظاہر ہے کہ ‘‘ مثبت رپورٹنگ کی جارہی تھی ۔ ایک کہانی دو اہم شخصیات کی جانب سے سامنے آئی ۔ کردار اگرچہ مختلف ہیں مگر دونوں کو فراہم کردہ معلومات ایک جیسی ہیں ۔ سابق آئی جی سردار محمد چودھری اپنی شاہکار کتاب ’’جہان حیرت ‘‘ میں لکھتے ہیں ۔
’’دسمبر 1971ء کو جب میرے دوست علی افضل جدون اور میں نے لیاقت باغ کے اوپر جہاں بھٹو ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے،پاک فضائیہ کے طیاروں کو اڑتے دیکھا تو ہم سمجھ گئے کہ بھر پور جنگ چھڑ گئی ہے۔تاہم وہ قدم بھارت کی طرف سے مشرقی پاکستان پر حملہ کے بعد 12دن کی ناقابل توجیہہ اور غیر معمولی تاخیر سے اٹھایا گیا تھا۔ دو دن بعد ہی یہ کیفیت ہو گئی کہ بھارتی فوج مغربی پاکستان میں شکرگڑھ(ضلع سیالکوٹ)آزاد کشمیر سندھ اور دیگر محاذوں پر تیزی سے آگے بڑھنے لگی۔بہرحال ان کے حملوں کا اصل نشانہ مشرقی پاکستان تھا۔جہاں ایئر فورس کے ہوائی اڈے تباہ کردیئے گئے تھے۔راج شاہی، کھلنا، جیسور اور دیگر سرحدی شہروں کے بارے میں خبریں ملیں کہ بھارتی فوج نے فتح کرلئے ہیں اور وہ پاکستانی فوج کو جو دفاعی پوزیشن میں تھی۔ بائی پاس کر کے اندر تک داخل ہو گئی ہے۔بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان کردیا گیا ،جسے بھارت اور بھوٹان نے فوری طور پر تسلیم کرلیا۔
راولپنڈی میں یہ افواہ بھی سننے میں آئی کہ روس نے بھارت کو مشرقی پاکستان پر قبضہ کرنے کے لئے15دسمبر کی ڈیڈ لائن دی ہے۔بصورت دیگر امریکہ اور چین اقوام متحدہ میں معاملات کو مشکل بنادیں گے۔یہ رپورٹ درست تھی۔لیکن جب میں نے سب سے با اختیار حاکم کو اس سے آگاہ کیا تو اس نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی۔مجھے بتایا گیا کہ’’ پاک آرمی ہرجگہ بہتر پوزیشن میں ہے‘‘۔
’’ پھر ہر سیکٹر میں بھارتی آگے کیوں بڑھے رہے ہیں؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’ انہیں ایک جال میں پھنسایا جارہا ہے۔مناسب وقت آنے پر سب کو نیست و نابود کردیا جائے گا۔‘‘ ادھر سے جواب ملا۔
بریگیڈئیر عطا محمد،جو میرے پرانے دوست تھے،7دسمبر کو اچانک میرے دفتر میں آئے اور بڑے رازدارانہ انداز میں کہنے لگے۔
’’ مشرقی پنجاب ( بھارتی پنجاب ) پر جلد ہی قبضہ ہونے والا ہے۔‘‘
’’ کیسے؟‘‘ میں نے بے یقینی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا۔
’’ہماری فوج نہایت ہو شیاری سے کچھ چالیں چل رہی ہے۔آئندہ ایک دو روز میں ان کا سلسلہ مکمل ہونے کے بعد بھارتی پنجاب ہمارے قبضہ میں ہوگا۔‘‘ انہوں نے بڑے اعتماد سے جواب دیا۔
آپ مذاق کیو ں کر رہے ہیں؟ میں نے کہا ،میرے نزدیک صورتحال ا س کے بالکل برعکس ہے۔ وہ میری بات سن کر طیش میںآ گئے۔
میں نے بڑی مشکل سے انہیں ٹھنڈا کیا تو انہوں نے یہ انکشاف کرکے میرے ہاتھوں کے سارے طوطے اڑا دئیے کہ انہیں مشرقی پنجاب کا فوجی گورنر نامزد کیا جا رہاہے اور وہ چاہتے ہیں کہ میں امر تسر کا ایس پی بننا قبول کرلوں تا کہ سکھوں کے ساتھ چا بکدستی سے نمٹا جا سکے۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ ان کی پیشکش کا کیا جواب دیا جائے۔میں نے گریز کی راہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ میرے ڈی آئی جی سے بات کرلیں۔انہوں نے
میرے سامنے سیکرٹ فون پر میرے باس سے بات کی۔ اس کے بعد مجھے تیار رہنے کا مشورہ دیا تا کہ دو گھنٹے کے نوٹس پر امر تسر پہنچ سکوں۔فوجی جنتا نے حقیقت پسندی کے تمام دروازے بند کر لئے تھے۔ اور اپنی خیالی دنیا میں جی رہی تھی۔مجھے اپنی حالت اس کردار کی سی محسوس ہو ئی جو طلسمات کے حیرت کدے میں کھو گیا ہو۔
اگلے دن پریس نے غیر ملکی ذرائع کے حوالہ سے خبر دی کہ گورنر مشرقی پاکستان کے مشیر میجر جنرل رائو فرمان علی نے ڈھاکہ میں اقوام متحدہ کے نمائندہ کے ساتھ رابطہ قائم کیا ہے۔ اس خبر پر عوام کی طرف سے جو حکومت کے جھوٹے پروپیگنڈہ پر یقین کئے بیٹھے تھے۔ زبردست ردعمل کا اظہار کیا گیا،حکومت نے فوری طور پر اس خبر کی تردید کر دی۔حالانکہ راولپنڈی کے انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں مقیم عالمی اخبارات کے نمائندے اور بی بی سی اور وائس آف امریکہ کی جانب سے بتایا جارہا تھا کہ جنگ کی صورتحال بڑی حد تک مایوس کن ہے جبکہ ریڈیو پاکستان اسے خوشنما رنگوں میں پیش کررہا تھا۔14 دسمبر کو صدر یحییٰ کے ملٹری سیکرٹری میجر جنرل اسحق سے ملنے گیا تو وہ بڑے پریشان نظر آئے ۔ انہوں نے مجھے گلے لگایا اور زور زور سے رونے لگے ۔ میں سمجھا شاید ان کے خاندان میں کوئی المیہ رونما ہوگیا ہے ۔ میں انتہائی حیرت اور پریشانی کے عالم میں تھا جب انہوں نے یہ بتا کر میرے حواس مزید شل کردئیے کہ ’’متحدہ پاکستان ‘‘ ختم ہوگیا ہے ۔پھر انہوں نے ایسٹرن کمانڈ کے نام بھیجے گئے تار کے مندرجات پڑھ کر سنائے جس کے تحت انہیں حالات کے مطابق تمام ضروری اقدامات کرنے کا اختیار دیا گیا تھا ۔ اس کا مطلب فقط سرنڈر تھا ۔کیونکہ ڈھاکہ کو ان بھارتی دستوں نے پہلے ہی گھیرے میں لے لیا تھا جنہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے اتاراگیاتھا ۔
اپنے فرائض منصبی کے حوالے سے ساری صورتحال کا براہ راست مشاہدہ کرنے اور اہم اجلاسوں میں شریک رہنے والے صدیق سالک اپنی چشم کشا کتاب ‘‘ میںنے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جنرل نیازی ہر روز صبح 8:30 بجے آپریشن روم میں چیدہ چیدہ افسروں کی کانفرنس بلاتے۔ وہ ہر افسر سے خندہ پیشانی سے پیش آتے اور بول چال اور حرکات و سکنات سے بالکل نارمل لگتے ،البتہ ایک بات ذرا عجیب سی لگتی کہ وہ مشرقی پاکستان میں جنگ پر توجہ دینے کی بجائے شروع شروع میں مغربی پاکستان میں زیادہ دلچسپی لیتے رہے۔ انہوں نے آپریشن روم کی مغربی دیوار مغربی پاکستان محاذ کا بہت بڑا نقشہ لگوا رکھا تھا جس پر وہاں کی جنگی صورتحال دکھانے کیلئے چھوٹے چھوٹے ’’ پن ‘‘ لگے تھے۔دن میں دو مرتبہ(اور بعد میں ایک مرتبہ) جی ایچ کیو سے مغربی محاذ کی صورت حال کا نچوڑ تار(سگنل)کے ذریعے ڈھاکہ پہنچتا تھا۔ ایک افسر کی ڈیوٹی یہ تھی کہ وہاں سے سگنل میں درج اطلاع کو نقشے پر سرخ اور سبز پن لگا کر واضح کردیا کرے سرخ پن دشمن کی پوزیشن ظاہر کرتے تھے اور سبز ہماری…
میں جنرل نیازی کی اس میٹنگ میں روزانہ حاضری دیتا۔(حالانکہ میرے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا) میں نے دیکھا کہ مغربی پاکستان کی مشرقی سرحد سے چند سینٹی میٹر دور (بھارت کی جانب )تین سے چار سبز پن لگے تھے۔بڑی خوشی ہو ئی کہ ہمارے قدم دشمن کی سرزمین پر ہیں۔4دسمبر کو دوپہر کے قریب میں ’’ آپریشن روم‘‘ میں داخل ہوا ،تو سارا ماحول خوشی سے چہکتا ہواپایا۔حیران تھا کہ چند گھنٹوں میں کون سا میدان مار لیا ہے؟ پتہ چلا: ’’امرتسر فتح ہو چکا ہے اور فیروز پور فتح ہونے والا ہے۔ہماری فوجیں اس کے قرب و جوار میں پہنچ چکی ہیں‘‘۔
میں نے پوچھا:’’ اگر یہ خبر درست ہے،تو جی ایچ کیو سے آنے والے سگنل میں اس کاذکر کیوں نہیں؟
ایک صاحب بولے:’’ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک وہاں ہماری پوزیشن مستحکم نہیں ہو جاتی،جی ایچ کیو اس کا دعویٰ نہیں کر نا چاہتا ‘‘۔
یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ میں جنرل نیازی کے کمرے میں داخل ہوا۔وہ مجھے دیکھتے ہی کرسی سے اٹھ کر پہلوانوں کی طرح ڈنڈ پیلنے لگے۔انہوں نے طعنے کے انداز میں کہا:’’ دیکھا تم نے؟ جب میں کہا کرتاتھا کہ اگر جنگ چھڑی تو میدان جنگ بھارت کی زمین بنے گی،تو تم مجھے غیر ضروری خوش فہمی نہ پیدا کرنے کا مشورہ دیا کرتے تھے ، مگر اب دیکھ لو،اگر میں نہیں،تو میرا بڑا بھائی(مغربی پاکستان )تو جنگ کو ہندوستان کے علاقے میں لے گیا ہے‘‘۔اس کے فوراً بعد انہوں نے ٹیلیفون گھما کر گورنر مالک کو بھی یہ خوشخبری سنادی۔گورنر نے کہا:’’ جنرل صاحب! چوآڈانگا( گورنر کا آبائی گائوں جہاں بھارتی فوج پہنچ چکی تھی ) کا کیا حال ہے؟‘‘
جنرل نیازی نے حکم دیا کہ امر تسر فتح ہونے کی خبر مشرقی پاکستان کے کو ن کونے میں تمام فوجیوں تک پہنچا دی جائے،کیونکہ’’ اس سے ان کے مورال پرخوشگوار اثر پڑے گا‘‘۔ایڈمرل شریف نے کہا:’’ بہترہوگا کہ پہلے اس خبر کی تصدیق کرا لی جائے‘‘ میں سب سے جونیئر تھا،مجھے ہی حکم ملا کہ پتہ کروخبر کہاں سے آئی؟ میں نے ساتھ والے آپریشن روم سے پوچھا۔جواب ملا پی۔اے۔ایف بیس ڈھاکہ کے آپریشن روم سے اطلاع آئی ہے۔سنا ہے وہاں پشاور سے ایئر فورس کے کمانڈر انچیف نے ہاٹ لائن پر اطلاع دی ہے۔میں نے ڈھاکہ بیس ٹیلیفون کیا اور کہا:’’ کیا آپ نے امر تسر اور فیروز پور کے متعلق خبر سنی ہے؟‘‘
’’جی ہاں‘‘۔
’’کہاں سے اطلاع آئی؟‘‘
’’ایسٹرن کمانڈ ہیڈ کوارٹر سے‘‘۔
جب ڈھاکہ میں اس خوشخبری کا کوئی کھوج نہ مل سکا ،راولپنڈی ٹیلیفون کھڑکائے گئے۔وہاں سے بھی اس کی تصدیق نہ ہو سکی،بالآ یہ خبر سراسر بے بنیاد نکلی۔خوشی کی جو لہر اچانک اٹھی تھی ،وہ فوراً یاس میں ڈوب گئی۔اگلی صبح 8:30 بجے کانفرنس ہوئی۔سبز پن وہیں تھے جہاں پہلے روز تھے۔ریڈیو پاکستان پر کان لگائے کہ شاید کوئی تازہ خبر سننے میں آئے۔وہاں بھی ہربلیٹن میں یہی جملہ سننے میں آتا:’’ ہماری بہادر افواج اپنے دمدمے( مٹی کے تھیلوں کی دیواروں سے بنائی عارضی چار دیواری ) مضبوط کر رہی ہیں۔‘‘ ایک صاحب نے تنگ آ کر کہا:’’ انہیں اور بیلچے بھیجوتا کہ جلد سے یہ نام نپٹا کر آگے بڑھ سکیں‘‘۔6دسمبر کو جنرل نیازی مغربی محاذ سے مایوس ہو چکے تھے۔انہوں نے صبح کی کانفرنس میں جی ایچ کیو سے آمدہ تار کے اقتباسات پڑھوانے بند کر دیئے اور دیوار پر مغربی پاکستان کے نقشے ہٹوادیئے۔وہ دوبارہ مشرقی پاکستان کے خول میں سمٹ آئے جہاں تاریکیاں ان کا انتظار کر رہی تھیں‘‘۔
ملک ٹوٹنے کا سانحہ اچھی اور مثبت اطلاعات اور خبروں سے روکنا ممکن نہ تھا پھر وہی ہوا جو حقیقت تھا۔ زندہ قومیں اپنی ناکامیوں کا جائزہ لے کر آگے کی حکمت عملی تیار کرتی ہیں تاکہ آئندہ کسی ناخوشگوار واقعہ کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ غلطی کا جائزہ لینے سے پہلے یہ ماننا ضروری بلکہ لازمی ہے کہ اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کیا جائے۔ رات کو دن یا دن کو رات کہہ کر ہم اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں کررہے ۔سانحہ مشرقی پاکستان ہمیں کئی سبق دے گیا جن سے ایک یہ بھی ہے کہ میڈیا آپکی کچھ بڑی کامیابی کو کچھ اور بڑی کرکے یا کم نقصان کو کچھ مزید کم کرکے تو پیش کرسکتا ہے – مگر زمینی حقائق کسی طور تبدیل نہیں کیے جاسکتے ہیں۔ اور جو فصل بوئی جائے وہی کاٹنا پڑتی ہے۔