کیا نظام فیل ہو چکا ہے؟

پنجاب کے ضلع منڈی بہاوالدین میں عدلیہ،انتظامیہ اور وکلا کے درمیان ہونے والے تنازعہ نے نظام کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے ،عدلیہ اور انتظامیہ کھل کر ایک دوسرے کے سامنے آ گئے ہیں ،دوسری طرف مقامی وکلا نے اپنے ہی سیشن جج کے ساتھ اس کی عدالت اور چیمبر میں جس طرح بد سلوکی کی ،اس کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے بھی رونا آتا ہے ، اس سے ہمارے سر شرم سے جھک گئے ہیں ،اس سے قبل انہی جج صاحب کی طرف سے بھی اپنے ہی ضلع کے انتظامی سربراہ کے ساتھ جو سلوک کیا گیا ، انہیں سزا سنا کر ،ہتھکڑیاں لگا کر جیل بھیجنے کا حکم دیا گیا وہ معاملہ بھی شائد اختیارات کا تجاوز ہی تھا،انہوں نے ایسے معاملہ پر فیصلہ دیا جو ان کے دائرہ اختیار میں ہی نہ تھا ۔ اسی طرح وکلا کے سیشن جج کے ساتھ سلوک پر جو ایف آئی آر جج صاحب نے درج کرائی ہے اسکے مندرجات کی بھی سمجھ نہیں آ رہی ،انہیں بھی جس جس پر غصہ تھا اس کا نام اس ایف آئی آر میں ڈال دیا گیا ہے،ایک دو روز قبل انہوں نے ڈی سی اور اے سی منڈی بہاوالدین کو سزا دی تھی جو ہائی کورٹ نے ڈی سی اور اے سی کی اپیل پر کالعدم قرار دیتے ہوئے معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا اور اب پھرمتذکرہ جج صاحب نے دونوں کا نام ایف آئی

 آر میں بھی لکھوا دیا ہے کہ ان پر حملہ ان افسران کے ایما پر کیا گیا ہے ۔ ضلع میں لا اینڈ آرڈر کے انچارج ڈسٹرکٹ پولیس افسر کا بھی کوئی رول سارے معاملہ میں نظر نہیں آیا ،وہ کہاں تھے جب سیشن جج کے ساتھ بد سلوکی ہو رہی تھی ،انہیں اندازہ نہیں تھا کہ اس وقت ضلع میں عدلیہ،انتظامیہ ،وکلا محاذ آرائی چل رہی ہے۔ صوبائی حکومت نے جج صاحب پر وکلا تشدد کے بعد ڈی سی ،اے سی ،ڈی پی او کو تبدیل کر دیا مگر اس کے بعد ڈی سی ،اے سی کی گرفتاری کا مطالبہ بھی سمجھ سے بالا تر ہے جبکہ ڈی سی اس دن لاہور میں تھے ۔ ایک کے بعد ایک واقعہ عدلیہ ، انتظامیہ دونوں کے سربراہوں کی لمبی چوڑی چین آف کمانڈ کہیں بھی شروع میں معاملہ کی سنگینی کا احساس کرتے نظر آئی نہ ہی وقت پر معاملات کو سنبھالا گیا اور اب پچھتاوت کیا ہوت جب چڑیاں چک گئیں کھیت۔ 

 

 

ملک کا سارا نظام ہی اتھل پتھل ہو چکا ،شائدآخری سانسیں لے رہا ہے، جس کے جی میں جو آتا ہے وہ کر رہا ہے ، کوئی قانون ،ضابطہ،قاعدہ کہیں نظر ہی نہیں آرہا ،عدالت،حکومت،سیاست کوئی کسی کے ساتھ ایک پیج پر ہی نہیں لگ رہے۔عاصمہ جہانگیر ہماری جمہوری ،آئینی اور قانونی جدوجہد کا ایک معتبر نام ہیں پچھلے دنوں انکی برسی کے قانونی اجتماع میں جو لا قانونیت ہوئی اسے کیا کہا جا سکتا ہے۔محسوس ہوتا ہے کہ کسی بھی ادارے کا کوئی بھی فیصلہ اب کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا۔منڈی بہاوالدین واقعہ میں بھی یہی نظر آتا ہے ،کیا حکومت صرف تماشا دیکھ رہی ہے،کوئی بھی اپنے گریبان میں جھانکنے کو تیار نہیں ہے،مہنگائی ہے تو الامان الحفیظ۔تنخواہ دار اور غریب کس طرح زندگی بسر کر رہا ہے یہ اسکی ہمت ہے۔ہمارے صنعتکار کیا کر رہے ہیں آج جو چینی نوے روپے کلو مل رہی ہے اسے انہوں نے پچھلے دنوں ایک سو چالیس میں بھی بیچا ،شوگر ملوں کو ایک نیک نام صوبائی افسر کین کمشنر پنجاب زمان وٹو نے پوچھنا شروع کیا تو وہ وہ حقائق سامنے آئے کہ نہ پوچھیے جس ملک کے حکمرانوں اور سابق حکمرانوں کی شوگر ملوں میں لاکھوں بوریوں کا ذخیرہ اس لئے موجود ہو کہ اسے مہنگا کر کے بیچا جائے گا تو پھر کیا کیا جا سکتا ہے۔ایسے میں ایک طویل عرصہ ملک کی خدمت کرنے والے ریٹائرڈ ،اچھے اور نیک نام اعلیٰ بیوروکریٹ کا یہ اعتراف کہ یہ ملک اب ہمارے بچوں کے رہنے کے قابل نہیں رہا ،کیا بتا رہا ہے،کیا سمجھا رہا ہے۔ 

مرکز اور صوبوں کے درمیان بھی اس وقت افسران کے تبادلوں کے مسئلہ پر محاذ آرائی پید اہو چکی ہے ،یہ بھی ایک تاریخ ہے جو 1988 میں مرکز اور پنجاب میں شروع ہوئی تھی جب پیپلز پارٹی کی مرکز اور مسلم لیگ کی پنجاب میں حکومت تھی اب مرکز میں پی ٹی آئی اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔سندھ کے افسروں نے چارج چھوڑنا شروع کیا تو ان کے وزیر اعلیٰ نے انہیں روک دیا ،یہاں بھی کوئی قاعدہ قانون نہیں اپنا اپنا مفاد ہے۔کیا ہم اس قابل قوم نہیں رہے کہ مل جل کر رہ سکیں،کیا جمہوریت کا نعرہ ہم صرف اقتدار لینے یا الیکشن لڑنے تک ہی لگاتے ہیں اس کے بعد جمہوریت کہاں چلی جاتی ہے،کیا ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم اس جمہوریت کے قابل نہیں رہے۔

 پنجاب کا حال یہ ہے کہ کئی کئی محکمے اور ڈویژن بے سربراہ ہیں اور کسی دوسرے سیکرٹری یا فسر کو ان کا اضافی چارج بھی نہیں دیا جاتا،یہی حال پولیس کا ہے کئی کئی دن بعد خیال آتا ہے کہ کئی اہم عہدے خالی ہیں تب وہاں کسی کو اضافی چارج دیا جاتا ہے۔پنجاب کے سیکرٹری خزانہ کا عہدہ بھی خالی ہے ،یہاں سے جانے والے سیکرٹری خزانہ افتخار سہو کے جانے کا واقعی پنجاب کو نقصان ہوا ہے وہ ایک اچھے،محنتی اور فرض شناس افسر ہیں جہاں بھی جائیں گے اپنی سروس کی عزت ہی بڑھائیں گے۔

 بات نظام کی ہو رہی تھی ،وفاقی پارلیمانی نظام ا سوقت دنیا کے 28ممالک میں رائج ہے پاکستا ن بھی ان ممالک میں شامل ہے،ایسے ممالک جہاں آبادی میں زبان،ثقافت،رسوم و رواج کا تنوع ہو آبادی اوررقبہ زیادہ ہو ان ممالک میں یہ نظام کامیابی سے رائج ہے،قیام پاکستان کے وقت قائداعظم صوبائی خود مختاری کے بہت بڑے حامی تھے،پاکستان میں یہ نظام پانچ دہائیوں سے نافذالعمل ہے،وقت کیساتھ اس میں تبدیلیاں بھی آئیں اوراختیارات کے مسئلہ پر تصادم کی کیفیت بھی پیدا ہوئی،پیپلز پارٹی کے دور (2008 ء تا2013ء) میں اٹھارہویں ترمیم متعارف کرائی گئی جس کے ذریعے متعددصدارتی اختیارات وزیراعظم کومنتقل کئے گئے اورصوبوں کو متعدد معاملات میں خود مختار بنایا گیا،جسکے بعدوفاق اورصوبوں میں بعض معاملات میں کشیدگی کی کیفیت رہی،مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف حکومت کو سندھ میں پیپلز پارٹی حکومت کے بعض فیصلوں سے اختلاف رہا اوردونوں نے اس ترمیم میں مزید ترامیم لانے کی ناکام کوشش کی،اس ترمیم کے باعث وفاقی اور صوبائی انتظامیہ میں خاصا کھنچاؤ رہا،جو اب تک قائم ہے جس کی وجہ سے انتظامیہ یعنی بیوروکریسی اورسرکاری مشینری کی کار کردگی پر برے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔مجھے لگتا ہے یہ نظام ہمارے لئے بنا ہی نہیں ہے،کیونکہ اس نظام سے ہمارے مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہیں اور ہمیں کسی نئے عمرانی معاہدے کی طرف بڑھنا چاہئے

ColumnMohsin GorayaNaibaatPakistan