توبہ…… اور کب تک!!

توبہ اس وقت تک جاری رہنی چاہیے جب تک قبول نہ ہو جائے۔ اہل اللہ نے توبہ قبول ہوجانے کی نشانی یہ بتائی ہے کہ جب توبہ قبول ہو جاتی ہے تو وہ گناہ دوبارہ سرزد نہیں ہوتا۔ مرشدی حضرت واصف علی واصف فرماتے ہیں کہ جب توبہ قبول ہو جاتی ہے تو یادِ گناہ بھی ختم ہو جاتی ہے۔ اس قول کی تفہیم کے لئے لازم ہے کہ یاد اور یادداشت میں فرق ملحوظ رکھا جائے۔ یاد کا تعلق دل ہوتا ہے اور دل کا تعلق رغبت سے ہے، یاد سے نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ دل گناہ کی رغبت سے نکل گیا۔ اس کے برعکس یادداشت کا تعلق دماغ سے ہے، دماغ میں اچھی بری یادداشتیں جمع رہ سکتی ہیں، لازم نہیں کہ جو چیز یادداشت میں ہو انسان اس کی طرف رغبت بھی رکھے۔ کچھ واقعات اور افراد ایک ڈراونے خواب کی طرح بھی یادداشت کے نہاں خانے میں رہ سکتے ہیں۔ بار بار گناہ اور بار بار توبہ کے ضمن میں حضرت واصف علی واصف فرمایا کرتے کہ اگر گناہ سے شرمندگی نہیں تو توبہ سے شرمندگی کیسی؟۔
توبہ کرنے والا یہ بتاتا ہے کہ وہ گھر کا رستہ نہیں بھولا۔ شیطان نے مرغوباتِ نفس سے مزین منظر دکھا کر اگرچہ اسے اس کے اصلی گھر سے نکال لیا ہے لیکن وہ اپنے ازلی سعادت والے گھر میں واپس جانا چاہتا ہے۔ شیطان کے ورغلانے سے شجرِ ممنوعہ کا ذائقہ چکھنے کے بعد ہمارے جد امجد کو اگرچہ بہشت سے ہبوط کر دیا گیا لیکن وہ توبہ کے سبب تقرب کی سعادت سے محروم نہیں ہوئے۔ یہاں ایک راز ہے، تقرب فاصلوں کی احتیاج نہیں رکھتا، بلکہ تقرب ایک فیصلہ ہے، جس کے حق میں سنا دیا جاتا ہے اسے کوئی عمل تقرب سے معزول نہیں کرتا۔ اسے غلطی کے بعد توبہ کا راستہ دکھا دیا جاتا ہے اور وہ پہلے سے بڑھ کر مقبول ہو جاتا ہے۔
توبہ کا تعلق نیت سے ہے۔ اگر نیت حسنات کی طرف پلٹ آنے کی ہوگی  تو انسان ہر حال میں توبہ کرے گا۔ اگر خدانخواستہ نیت ہی مذموم حلقوں میں بسر کرنے کی ہو گئی تو توبہ کا خیال اعمال کی طرح حبط ہو جاتا ہے۔ سعید لوگوں کی سنگت ہمیں توبہ کی  یاد دہانی کرواتی ہے۔ سعید سنگت بالآخر سعادت لے کر آتی ہے۔ 
باادب انسان توبہ اور ندامت کے قریب ہوتا ہے، بے ادب ندامت سے دور اور غرور کے قریب ہوتا ہے۔ باادب ہمہ وقت اپنے عمل کی ممکنہ قباحت کی طرف متوجہ رہتا ہے، اسے ندامت دامن گیررہتی ہے کہ کہیں اس کا کوئی عمل اسے مجلس اور صاحبِ مجلس سے دْور نہ  کر دے، اس لیے وہ اپنی معصیت سے کبھی غفلت میں نہیں رہے گا۔ وہ اپنی معصیت کو مغفرت میں بدلنے کی  تدبیر کرتا رہے گا۔ یہی تدبیر اسے بابِ توبہ کی طرف لے جاتی ہے۔ 
توبہ کرنے والا یہ اعلان کرتا ہے کہ اس نے طاغوتی فکر کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی، وہ اپنی بشری کمزوریوں کے سبب طاغوت کے بچھائے ہوئے جال میں گرفتار ضرور ہوا ہے لیکن اس نے رحمانی فکر سے بغاوت نہیں کی، وہ نادم ہے، طاغوتی  نظام کا خادم نہیں۔ وہ عاصی ہے، باغی  نہیں۔ وہ یرغمالی ہے، اس نے غداری نہیں کی۔ 
اپنے علم وعمل پر بھروسہ کرنے والا ادب سے دور جا گرتا ہے۔ وہ شخص توبہ کے قریب نہیں آئے گا جسے اپنے اعمالِ کی توجیہات تراشنے کی عادت ہو چکی ہو۔ گناہ کو اپنا معاشی اور معاشرتی حق سمجھنے والا توبہ سے دور رہے گا۔ جو توبہ سے دور ہے وہ رحمت سے دور ہے۔ توبہ کرنے والا اپنے رب کی رحمت کو پکارتا ہے اور اس کی رحمت اس کے غضب پر حاوی ہے، اس لیے اس کے غضب کا حکم جاری ہونے سے پہلے توبہ کرنے والے کے حق میں رحمت کا حکم جاری ہو جاتا ہے۔ 
باب العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا قول ہے کہ توبہ روح کا غسل ہے۔ احادیث میں ہے کہ جمعہ کے روز کا غسل پورے ہفتے کے گناہوں کو دھو ڈالتا ہے۔ ظاہر ہے یہاں غسل سے مراد صرف بدن پر پانی بہانا نہیں بلکہ چہرہ و رخسار پر آنسو بہانا ہے۔ ظاہر پرست صفائی اور طہارت میں فرق ملحوظ نہیں رکھتے۔ عین ممکن ہے ایک شخص اپنے بدن کی صفائی رکھتا ہو، اس کا بدن جراثیم سے پاک ہو،اس کے کپڑے یوڈی کلون سے معطر ہوں  لیکن وہ طہارت سے دور ہو۔ اس کے برعکس یہ بھی ممکن ہے کہ ایک مزدور پسینے سے شرابور ہو، گرد سے اَٹے ہوئے لباس میں ملبوس ہو لیکن وہ باوضو ہو کر طہارت حاصل کر چکا ہو۔ لباسوں میں جس لباس کی تعریف کی گئی ہے وہ تقویٰ کا لباسِ ہے۔ تقویٰ، طہارت اور توبہ ایک ہی پاکیزہ مثلت کے تین زاویے ہیں۔ توبہ کرنے والا طہارت چاہتا ہے اور طاہر شخص کسی مطہر و متقی ذات کا قرب چاہتا ہے، وہ کسی بارگاہِ ادب میں زاویہ  نشین ہوتا ہے اور انجامِ کار خیر سے ہمکنار ہوتا ہے۔ 
جس طرح دنیائے ظاہر میں جب ہم اپنے سے امیر لوگوں میں بیٹھتے ہیں تو ہمیں اپنی غربت کا احساس ہوتا ہے اسی طرح اپنے سے زیادہ متقی اور مطہر لوگوں میں بیٹھنے سے ہمیں اپنی روحانی غربت کا اندازہ ہوتا ہے۔ متقی  لوگوں کی  سنگت، طاہر لوگوں کی  صحبت ہمیں اپنے رجس سے مطلع کرتی ہے اور ہم توبہ اور طہارت کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ 
توبہ شکنی دراصل ایک عہد شکنی ہے۔ عہد شکن خود اپنی نظروں سے گر جاتا ہے۔ جس سے عہد شکنی ہوتی ہے غافل شخص اس سے بھاگتا ہے، لیکن عاقل شخص اس کی طرف بھاگتا ہے، وہ جانتا ہے کہ کوئی راہ فرار ممکن نہیں، اس کی مملکت میں کوئی جائے فرار نہیں، وہ ظالموں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ پہلے وقتوں میں سالک لوگ کسی کے ہاتھ پر توبہ کرتے تھے تاکہ دنیائے ظاہر میں کوئی گوشت پوست کا انسان ان کی توبہ کا شاہد ٹھہرے۔ کشف المحجوب میں اس ضمن میں ایک واقعہ درج ہے۔ حضرت جنید بغدادی کے اصحاب میں جناب عمرواسماعیل بن نجید نیشاپوری اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے شروع میں حضرت ابوعثمان حیری کی مجلس میں توبہ کی، لیکن کچھ ہی عرصہ اس توبہ پر قائم رہ سکا، ایک دن اچانک پھر دل میں گناہ کا خیال آیا اور مجھ سے گناہ سرزد ہوگیا، چنانچہ میں نے شیخ کی مجلس سے بھی منہ پھیر لیا یہاں تک کہ انہیں دور سے دیکھتا تو شرمندگی کی وجہ سے بھاگ کھڑا ہوتا تاکہ ان کی نگاہ مجھ پر نہ پڑے۔  ایک دن اچانک ان کا سامنا ہوگیا، مجھ سے شیخ فرمانے لگے بیٹا! اس وقت تک دشمن کے پاس نہ بیٹھ جب تک تیرے اندر اس سے بچنے کی طاقت نہ پیدا ہو جائے کیونکہ دشمن تیرے عیب دیکھتے ہیں، اگر تیرے اندر عیب ہوں گے تو دشمن خوش ہوں گے، اگر تو پاک ہو گا تو دشمن غمگین ہوں گے، اگر گناہ کرنے ہی کو تیرا جی چاہتا ہے تو میرے پاس آ، تاکہ تیرا بوجھ میں اٹھا لوں اور تو دشمن کا مقصد پورا نہ کرے۔ ابوعمرو کا بیان ہے کہ شیخ کے یہ الفاظ سنتے ہی گناہ سے میرا دل بھر گیا اور مجھے توبہ پر استقامت حاصل ہو گئی۔ معلوم ہوا کہ گناہ کے بعد یہ سوچ کر بارگاہِ ادب سے روگرداں ہونا کہ  ہم اس قابل کہاں، یہ  طرزِ فکر و عمل قابلِ قبول نہیں۔ یہاں غالب کی فکر مغلوب ہے، معلوم نہیں غالب نے شرمساری کے کس تناظر میں کہا تھا کہ  کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب۔ مجلس میں مرشدی حضرت واصف علی واصف یہ شعر پڑھ سنا کر کہتے یہی منہ لے کر اسی منہ سے ہی کعبے جاؤ گے۔ 
حاصلِ کلام یہ ٹھہرا کہ توبہ شکنی کے بعد بھی توبہ کے لیے اسی در پر سر بسجود ہونا حاصلِ بندگی ہے، کیونکہ عالمِ امکان اور کون و مکان میں محبوب کے در کے علاوہ کوئی در نہیں ہوتا۔ مسجدِ نبوی میں ریاض الجنہ کی صفوں کے عین سامنے حدیث کے یہ الفاظ منقش ہیں ” شَفَاعَتیِ لَِاھلِ الکَبَاءِرِ مِن اْمَّتیِ”  (میری شفاعت میری امت کے کبائر کے مرتکب لوگوں کے لیے ہے)۔ سبحان اللہ العظیم۔ کبائر کے مرتکب امتی  بھی درِ رحمت سے مایوس نہیں ہوں گے۔ جب رحمت یوں آواز دے کر بلا رہی ہو تو پھر توبہ کرنے میں دیر کاہے کو؟ 
توبہ واپس آنے کو کہتے ہیں۔ واپس آنے میں دیر نہیں ہونی چاہیے۔ اس باب میں ابوسعید ابوالخیر کی رباعی دامنِ خیال کو بار بار کھینچ لیتی ہے۔ 
باز آ باز آ ھر آنچہ ھستی باز آ
گر کافر و گبر و بت پرستی باز آ
این درگہئ ما درگہئ نومیدی نیست
صد بار اگر توبہ شکستی باز آ
واپس آ جاؤ، واپس آ جاؤ…… تم جو بھی ہو، واپس آ جاؤ؛ تم چاہے کافر ہو، مجوسی ہو یا بت پرست ہو، واپس آجاؤ؛ یہ ہماری درگاہ ناامیدی کی درگاہ نہیں ہے؛ اگر سو بار توبہ توڑ چکے ہو تو بھی واپس آ جاؤ!!!

ColumnDaily-Nai-BaatDr Azhar Waheed