ماضی کے ان لوگوں نے’’ پاکستان‘‘’ سستے داموں ‘فروخت کر دیا ،حیران کن انکشافات

کون ہمیں پیسے دے گا ۔۔۔؟کتنا اسلحہ دے گا۔۔۔؟ہماری خدمات کا کرایہ کون دے گا ۔۔۔؟

یہ اس آرٹیکل کی قسط نمبر 3 ہے ۔۔۔ پہلی دو اقساط دیکھنے کیلئے نئی بات میگزین کے گزشتہ شمارے ملاحظہ فرمائیں۔۔۔

سازش کے بیانیے کا تجزیہ

سنہ 1951 کی راولپنڈی سازش کے بارے میں مبصرین کہتے ہیں کہ یہ مبینہ طور پر پاکستانی افواج کی ایک سیاسی حکومت کا تختہ الٹنے کی پہلی کوشش تھی۔ اس کے علاوہ اس مبینہ سازش میں ایک اور منفرد بات یہ تھی کہ یہ واحد مبینہ سازش ہے جس میں پاکستان کی ایک سیکولر اور کیمیونسٹ پارٹی پر فوج کے ساتھ ساز باز کرنے کا الزام بھی لگا۔جبکہ اس کے برعکس جن مورخین نے ان معاملات پر تحقیق کی اور سازش کے ثبوت مانگے ہیں ان کے بقول اصل سازش حکومت کا تختہ الٹنے کی نہیں تھی،بلکہ اصل سازش تحتہ الٹنے کے نام پر قوم پرست پاکستانی فوجیوں اور کمیونسٹ نظریات رکھنے والوں کو منظر نامے سے ہٹانے کے لیے تیار کی گئی تھی جو کہ اس دور کی سرد جنگ اور امریکی خارجہ پالیسی کا ایک حصہ تھی۔تاہم پاکستان کی قومی تاریخ اور شعور میں یہی سمجھا اور کہا جاتا ہے کہ سنہ 1951 میں فوج نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی۔’’جتنا بڑا ایک گروہ ہو گا یا اْس کے پاس جتنی زیادہ طاقت ہو گی، تو اْس کے پاس اپنا پیغام دور دور تک اور بہت زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے اور متبادل حقائق کو دبانے کے اْتنی ہی زیادہ وسائل ہوں گے۔‘‘یہی وجہ ہے کہ اس سازش کے واقعے کو وزیرِ اعظم لیاقت علی خان اور ان کی حکومت اور اس سے وابستہ میڈیا اور اخبارات نے جس انداز سے کوّر کیا اْس کے نتیجے میں اس سازش کے حقیقی ہونے اور اس میں شامل کرداروں کو ملک دشمن ثابت کرنے کا پورا ماحول تیار کر لیا گیا تھا، جس کا اثر آج تک موجود ہے۔فیض احمد فیض کو بدنام کرنے کے لیے انٹیلیجنس ایجنسیوں کی سرپرستی، لبرل اور دائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والے صحافیوں کے ذریعے مہم چلوائی گئی جس میں انہیں ریاست مخالف اور اسلام دشمن بنا کر پیش کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ بعض موقعوں پر تو گستاخِ رسول جیسے الزامات بھی عائد کیے گئے۔

اسٹیبلشمنٹ کا مؤقف

جن لوگوں کا خیال ہے کہ یہ واقعی ایک سازش تھی اْن میں کئی اور مصنفین اور مبصرین کے علاوہ سابق کیبینٹ سیکریٹری، حسن ظہیر ہیں جنہیں، بقول اْن کے، راولپنڈی سازش کیس کے مقدمے کی دستاویزات تک اتفاق سے رسائی حاصل ہوئی۔راولپنڈی سازش کیس کی ساری کارروائی خْفیہ قرار دی گئی تھی اور مقدمے کی تمام متعلقہ دستاویزات کلاسیفائیڈ ڈاکیومنٹس قرار دے دیے گئے تھے۔یہ دستاویزات ڈی کلاسیفائی کرائے اور ان سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سازش رچائی گئی تھی اس لیے ملزمان کو سزائیں درست طور پر دی گئی تھیں۔سب سے پہلے بائیں بازو کے دانشوروں کے ان دعوؤں کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس سارے معاملے میں کوئی سازش نہیں تھی۔ یہ درست ہے کہ حکومت نے ان دستاویزات کو خفیہ رکھا اور ابھی حال ہی میں ان پر سے پابندی اٹھائی گئی ہے، تاہم اس سازش کے بنیادی خدوخال سب ہی کے علم میں ہیں۔حسن ظہیر یہاں اْن دو افسران کی اپنی تصنیفات کا ذکر کرتے ہیں جن پر راولپنڈی سازش کیس کے قانون کے تحت مقدمہ چلا تھا اور سزائیں دی گئیں تھیں۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کمیونسٹ لیڈران جن پر مقدمہ چلا تھا وہ اس مقدمے پر بات کرنے کے لیے تیار تھے۔حسن ظہیر کہتے ہیں کہ ’’جو افسران اس سازش میں ملوث تھے اور اس کے علاوہ جن سے انہوں نے اپنی کتاب کے شائع ہونے سے پہلے انٹرویو کیے انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ اس مقدمے کے دوران جو حقائق پیش کیے گئے وہ کافی حد تک درست تھے۔تاہم اْن کے بقول ان سزا یافتہ افراد نے جو سوال اٹھایا وہ ان الزامات کے قانونی پہلو کے بارے میں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’جب 23 فروری کی میٹنگ میں ہر بات ملتوی یا تمام اقدامات منسوخ کرنے کا فیصلہ ہو گیا تھا اور جو بیانات میں باتیں کی گئی تھیں ان کے حصول کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا تھا تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی جْرم سرزد ہوا ہی نہیں تھا۔تاہم حسن ظہیر کے مطابق ٹریبیونل نے اپنے فیصلے میں سازش کے قانون اور اس کی توضیحات پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ اِس کے مطابق ٹریبیونل نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ چاہے اس سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عملی طور پر کوئی غیر قانونی اقدام کیا گیا ہے یا نہیں، تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 121 اے کے تحت پھر بھی سزا دی جا سکتی ہے۔

اگر 1951 میں واقعی کوئی تبدیلی آ جاتی؟

فرض کیجیے کہ پاکستان میں کوئی تبدیلی آتی، فوجی انقلاب کے ذریعے نہیں، بلکہ ایک قومی تحریک بنتی اور کمیونسٹ پارٹی پر سرکاری یلغار نہ ہوتی تو آج پاکستان کی کیا صورتِ حال ہوتی؟ ایک صورت تو یہ ہوتی کہ جس آسانی سے ایوب خان نے پاکستان کو امریکہ کی شطرنج کی کھیل کا مہرہ بنا دیا، وہ نہ ہوتا۔ اْس نے پاکستان کو بہت ارزاں قیمت پر فروخت کردیا۔ یہ پالیسی کہ پاکستان کو برطانوی اور امریکی بلاک کا حصہ بنا دیا جائے، اْس وقت اْس کی بہت زیادہ مخالفت تھی۔ مشرقی پاکستان میں مخالفت زیادہ سنگین تھی۔ لیکن مغربی پاکستان میں بھی کافی مخالفت تھی۔بنیادی طور پر راولپنڈی سازش کے کیس کو کمیونسٹوں کو کچلنے کے لیے استعمال کیا گیا، جس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں دانشورانہ سوچ کو کچلنا تھا۔جو بھی ان کے خلاف (حکومت کے خلاف) باتیں کر رہے تھے، وہ تو صرف باتیں ہی کر رہے تھے، ان (باتوں) کو انہوں نے آلے کے طور پر استعمال کرکے انہیں کچل دیا، بنیادی طور پر تو اس طرح اسٹیبلشمنٹ کو ان پر یلغار کرنے میں بہت آسانی ہو گئی۔

اپوزیشن کا اس طرح کچلے جانے سے طویل المدتی اثرات مرتب ہوئے، جس طرح بعد میں سیٹو اور سینٹو میں شمولیت اختیار کی گئی اْس کے خلاف ایک موثر اپوزیشن ہوتی (جو نہیں ہوئی)، کیونکہ عوامی سطح پر ان معاہدوں کی بہت زیادہ مخالفت تھی (لیکن ان کا اظہار کرنے والے رہنما موجود ہی نہیں تھے)۔ کسی نے اتنے بڑے فیصلوں پر عوام سے کوئی مشاورت نہیں کی تھی۔انہوں نے کہا کہ ایوب خان اور اسکندر مرزا جیسے چند لوگوں نے پاکستان کو سستے سستے فروخت کردیا اور جس طرح فروخت کیا آپ اْس سے آج بھی نجات نہیں پا سکتے ہیں۔ ابھی تک یہاں کے لوگ جو ہیں وہ امریکہ کی نئی حکومت جو صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ ہے، اْس کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ کون ہے جو ہمیں پیسے دے گا، کتنا اسلحہ دے گا ہماری خدمات کا کرایہ کون دے گا، ہمیں تو عادت پڑ گئی ہے کہ کوئی ہمیں مفت میں اسلحہ دے دے گا، کچھ دے۔ تو اگر آپ پوچھتے ہیں کہ کیا فرق ہوتا تو میں کہوں گی کہ ایسی ذہنیت نہ پیدا ہوتی۔ کیا (راولپنڈی سازش کیس) کے بعد کمیونسٹ پارٹی کا مستقبل بالکل تباہ ہو گیا؟ انہوں نے تو اِسے کچل کر رکھ دیا تھا۔ جو باتیں کرتے ہیں وہ ثبوت نکالیں اور ثابت کریں (کہ یہ سازش تھی)۔ انہوں نے اس سازش کو استعمال کر کے کمیونسٹ تحریک کو تہس نہس کردیا۔ راولپنڈی سازش کیس کا بہانہ بنا کر انہوں نے اس تحریک کا مکمل خاتمہ کردیا۔     (ختم شد)

Naibaat MagPakistanPakistan Politician