میانمار میں فوجی حکومت کو تشدد پر حساب دینا پڑے گا، اقوام متحدہ

جنیوا: اقوام متحدہ کی میانمار میں شہریوں پر جبر و تشدد کی تحقیقات کرنے والے ادارے کے سربراہ نے کہا ہے کہ فوجی بغاوت کے مخالفین کو طاقت سے کچلنے والوں کا حساب لیا جائے گا۔

 

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق میانمار میں سنگین ترین جرائم کی تحقیقات کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے کے سربراہ نکولس کومجیان نے کہا ہے کہ میانمار میں شہریوں پر تشدد کے 15 لاکھ سے زائد شواہد مل گئے ہیں جس کی بنیاد پر ذمہ داروں کو گرفتار کرکے جنگی جرائم کا حساب لیا جائے گا۔

 

نکولس کومجیان نے مزید کہا کہ یکم فروری کو فوج کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے اب تک 2 لاکھ سے زائد شکایات موصول ہوئیں اور 15 لاکھ شواہد اکٹھے کیے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ فوج عام شہریوں پر منظم اور بڑے پیمانے پر حملے اور انسانیت سوز مظالم کر رہی ہے۔

 

اقوام متحدہ کے تفتیشی ادارے کے سربراہ نے یہ بھی کہا کہ فوجی بغاوت کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کو مختلف مقامات پر طاقت سے کچلنے کے لیے فوج اور پولیس نے شہریوں کے ساتھ پُرتشدد رویہ روا رکھا ہوا ہے۔ غیر قانونی گرفتاریاں کی جارہی ہیں۔

 

اس تحقیقاتی باڈی کو جنیوا میں قائم انسانی حقوق کی کونسل نے ستمبر 2018 میں قائم کیا تھا جس کا دائرہ کار یکم جنوری 2011 سے میانمار میں ہونے والے سنگین ترین بین الاقوامی جرائم اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کے شواہد اکٹھا کرنا تھے۔

 

تحقیقاتی باڈی کی سربراہی امریکی وکیل نکولس کومجیان کر رہے ہیں جنھوں نے اس سے قبل کمبوڈیا، مشرقی تیمور اور بوسنیا میں سنگین جرائم کے بین الاقوامی پراسیکیوٹر کے طور پر خدمات انجام دی تھیں۔

 

خیال رہے کہ میانمار فوج کے خلاف پہلے ہی روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پر عالمی تحقیقات جاری ہیں اور فوجی بغاوت کے بعد سے اب مخالف شہریوں کو بھی ہلاک اور جیل میں قید کیا جا رہا ہے۔

Myanmar armyNaibaatUN Report