پاکستانی معاشی منیجرز کے دورۂ امریکہ او رآئی ایم ایف کے ساتھ اعلیٰ سطحی مذاکرات کے حوالے سے خبریں حوصلہ افزا نہیں۔ اگرچہ وزارتِ خزانہ کے ترجمان اسے ناکامی ماننے پر آمادہ نہیں اور اس سے پہلے یہ جواز پیش کرتے رہے ہیں کہ گذ شتہ پیر سے بات چیت دوبارہ شروع ہوگی، مگر ہفتے کے روز جس نقطے پر یہ سلسلہ جا کر رک گیا تھا اس سے آگے بڑھنے کی بظاہر ایک ہی صورت ہوسکتی ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کی جانب سے ٹیکسوں میں اضافے اور اشیا کی مہنگائی کے فارمولے کو من و عن قبول کرلے۔ ذکر کر دوں کہ دمِ تحریر ڈا لر 174روپے کے ارد گرد ٹہل رہا ہے۔ قا رئین کرام، میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ جس وقت آپ یہ کالم پڑھ رہے ہو ں گے، ڈا لر کے مقا بلے میں ہمارے روپے پہ کیا گذر رہی ہو گی۔اس وقت جیسے ہی حکو مت نے پٹرول کے نرخ 138روپے فی لیٹر کیئے تو سب ہی اشیاء کی قیمتو ں کو یو ں پر لگے کہ بغیر کسی تفر یق کے سب ہی عوام برے سے بلبلا اٹھے۔ جس ملک میں آ لو اسی روپے کلو بکنے لگے اور کو ئی بھی سبزی سو روپے سے نیچے نہ ہو وہا ں کے لو گو ں پہ ہی یہ مثل صا دق دکھا ئی دیتی ہے کہ گنجی نہا ئے کیا اور نچو ڑے کیا۔ افسوس ہوتا ہے کہ آج کل کچھ لوگ پاکستان میں تیل کی قیمتوں کا موازنے کا چا رٹ بنا کر ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ دیگر مما لک میں تیل کتنا مہنگا ہے اور ہما رے ملک پا کستا ن میں اب بھی تیل کتنا سستا ہے۔ زیا دہ تفصیل میں جا ئے بغیر اگر صر ف، مثا ل کے طور پر، امریکہ کے پرائمری سکول ٹیچرکی تنخو اہ کا موا زنہ پا کستا ن کے پرائمری سکو ل ٹیچر کی تنخوا ہ سے کیا جا ئے تو ان بقرا طیوں کی خد مت میں عرض ہے کہ امریکہ کے ٹیچر کی سا لا نہ تنخواہ ایک کروڑ، چھ ہزارچار سو روپے بنتی ہے۔جب کہ پا کستا نی ٹیچرکی سا لا نہ تنخوا ہ تین لا کھ چو راسی ہز ار روپے بنتی ہے۔ یہ ہے وہ شر منا ک حقیقت جیسے یہ بقرا طیے نظر اندا ز کیئے بیٹھے ہیں۔ اور اب اگر حکو مت آ ئی ایم ایف کی شرا ئط کو قبو ل کر تی ہے تو پاکستانی شہریوں کے معاشی معاملات اور حکومت کی سیاسی ساکھ کے لیے اس کے اثرا ت مز یدغیرمعمولی ہوں گے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے کے ریویو میں کامیاب ہونے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور اشیا مہنگی کرنے اور ٹیکسوں کی شرح بڑھانے کی جو تجاویز دی گئیں، ان پر عمل کیا اور یہ سب کچھ اس وقت ہورہاہے جب دنیا بھر کی پاکستانی معیشت بھی کورونا کے اثرات سے نکلنے کی کوشش کررہی ہے اور اسے مالیاتی سختیوں کے بجائے سہولتوں کی ضرورت ہے تاکہ کورونا کے منفی معاشی اثرات کا ازالہ ممکن ہوسکے۔ اس کے لیے ٹیکس اور توانائی میں ریلیف ہی دو بنیادی مطالبے تھے۔ مگر حکومت اس حساس دورانیے میں بھی بجلی اور تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کرتی رہی، ٹیکسوں کی شرح میں بھی اضافہ کیا گیا اور ڈالر کی شرح مبادلہ کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ کر مہنگائی کے طوفان کے لیے راستہ ہموار کیا گیا۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران ہدف سے 38 فیصد زائد وصولیاں کرکے خوش تھا اور وزیراعظم اس پر قوم کو مبارکباد دے رہے تھے۔ مگر آئی ایم ایف کو ان میں سے کچھ بھی خوش
نہیں کرسکا۔ بجلی اورتیل کی قیمتوں میں تازہ ترین اضافے تو عین اس وقت ہوئے جب وزیرخزانہ اپنی ٹیم کے ہمراہ واشنگٹن میں موجود تھے مگر آئی ایم ایف کا مزاج ظاہر کرتا ہے کہ وہ پاکستان پر ابھی دباؤ بڑھانا چاہتاہے، اسی لیے اب تک کے تمام اقدامات جو حکومت نے بجلی، گیس، تیل اور ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کی صورت میں کیے انہیں ناکافی قرار دیتے ہوئے ’ڈومور‘ کے موقف پر قائم ہے۔ مگر یہ صورت حال اسی لحاظ سے حساس نہیں کہ ملک کو ایک ارب ڈالر قرض کی قسط ملتی ہے یا نہیں بلکہ یہ بھی اہم سوال ہے کہ حکومت اس قسط کی منظوری میں کہاں تک جاسکتی ہے۔ کیا حکومت جی ڈی پی کے ایک فیصد کے برابر یعنی تقریباً سوا ارب رپے کے مزید ٹیکس لگانے کا آئی ایم ایف کا مطالبہ مان لے گی؟ اگر ایسا ہوا تو اس کے جو نتائج ہوں گے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ توانائی اور اشیائے خوردنی کی مہنگائی سے عوامی قوتِ خرید پہلے ہی پیندے سے لگ چکی ہے۔ اس میں اب کچھ اور نکالنا وسائل میں اضافے تک ممکن نہیں، مگر اس جانب کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔ لے دے کے ایک ٹیکسٹائل کا شعبہ ہے جس کی برآمدات میں اضافے کی خبریں حکومت کی صنعتی پالیسی کی کامیابی کے حوالے کے طور پر پیش کی جاتی ہیں، مگر کتنے لوگ ہیں جن کا روزگار ٹیکسٹائل کے شعبے سے وابستہ ہے؟ مجموعی ملکی آبادی میں ان کا تناسب کیا ہے؟ اگر اس شعبے کی متعدل کارکردگی سے اس شعبے سے منسلک افراد کے وسائل آمدنی میں کچھ اضافہ ہوا ہے تو دوسری جانب سروسز اور دیگر صنعتی شعبوں میں کوئی جنبش نظر نہیں آتی اور ان کارکنوں کی کیا حالت ہوگی، حکومت کو اس پر بھی سوچنا چاہیے۔ ان لوگوں کو جو بلاشبہ آبادی کا اکثریتی حصہ ہیں، نظر انداز کرکے اگر حکومت عالمی مالیاتی ادارے کا دباؤ قبول کرتے ہوئے پانچ سو ارب روپے سے زائد کا مزید بوجھ عوام پر ڈالتی ہے تو یہ صرف معاشی مسئلہ نہیں رہ جائے گا، اس سے سیاسی اور سماجی مسائل بھی متحرک ہوں گے۔ حکومت اگر سمجھ رہی ہو تو اپوزیشن کی جماعتوں کی حالیہ دنوں کی حرکت میں اس کے اشارے موجود ہیں۔بدقسمتی سے حکومت کے لیے مشکلات اکٹھی ہورہی ہیں اور اس طوفان میں مسائل کا اور کتنا خس و خاشاک شامل ہوسکتا ہے، اس کا اندازہ نہیں کیا جارہا۔ حکومت کے لیے اہم ہے کہ عوام کے لیے سہولتیں پیدا کرے۔ اگرچہ حکومت نے گزشتہ تین برسوں کے دوران ان گزارشات، سفارشات اور تجاویز کو درخوراعتنا نہیں سمجھا مگر اب دورِ حکومت کی لمبی سرنگ کا دوسرا سرا قریب آچکا ہے۔ چنانچہ کچھ اپنی سیاست کے لیے اور کچھ اس ملک کے عوام کے لیے حکومت کو متحرک ہونا ہوگا۔ بصورت دیگر یہ دور عوامی یادداشت میں تلخیوں بھری یادوں کے طور پر باقی رہے گا۔ ملک میں سماجی اور سیاسی ہم آہنگی کے لیے بھی ایسا کیا جانا ضروری ہے۔ حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ آئی ایم ایف کی تجاویز پر آنکھیں بند کرکے آگے بڑھنے کا نتیجہ پاکستان میں مصر کی تاریخ دہرانے کا باعث بن سکتا ہے، جہاں بارہ ارب ڈالر کے قرضے سے 2016ء میں دیوالیہ پن کا خطرہ تو ٹل گیا مگر عالمی ادارے کی تجاویز اور سخت شرائط کے باوجود اس ملک کے معاشی ڈھانچے کے مسائل کا ہرگز ازالہ نہیں ہوسکا۔ پاکستان کے موجودہ چھ ارب ڈالر قرض میں سے 2019ء سے اب تک صرف دو ارب ڈالر ہی وصول کیے گئے ہیں مگر اس دوران جو معاشی دباؤ عالمی مالیاتی ادارے کی تجاویز کی صورت میں وارد ہوا وہ محتاجِ بیان نہیں۔ پاکستانی معاشی منیجرز کو اب بھی چاہیے کہ بلا سوچے سمجھے سخت ترین شرائط پر آمین کہنے کے بجائے ملک و قوم اور یہاں کے معاشی حالات کو دیکھ کر اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔