کبھی ہم نے سوچا کہ یہ روز روز مغربی اخبارات ہماری مقدس ترین ہستی کے بارے میں کوئی نہ کوئی مضمون کیوں لکھ دیتے ہیں؟ کارٹون کیوں چھاپتے ہیں؟ اس کا پہلا سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ ایک تو مذہب ان کی زندگیوں کا حصہ نہیں، دوسرا چونکہ مذہب وہاں ذاتی معاملہ ہے، اس لئے ریاست لوگوں کو بتاتی ہی نہیں کہ خدا کا حقیقی تصور کیا ہے اور مقدس ہستیوں کی کتنی اہمیت ہے۔ تیسری اور سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں مسلمان نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم پر اپنی جان قربان کرنے کو ہر لمحہ تیار ہیں، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ جب وہ کوئی گستاخی کرے گا تو مسلمانوں کی جانب سے لازمی ردعمل بھی آئے گا، یوں مغربی دنیا کو الزام تراشی اور انتہاپسندی کا لیبل لگانے کا موقع مل جائے گا۔ لیکن افسوس کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں بے انتہا ترقی کے باوجود مغرب نے اس بات پر تحقیق نہیں کی کہ آخر یہ بولنے کی آزادی ان کو کس نے اور کب دی؟
آج جس مذہب کو وہ تنقید کا نشانہ بنارہےہیں اسی کی بدولت انہیں آزادی اظہار رائے تحفہ میں ملی۔
آیئے۔ دلیل اور تاریخ کو یکجا کر کے تجزیہ کرتے ہیں۔
آج سے 1443 سال پہلے جب اسلام پھیلنا شروع ہوا تو ایک الگ ہی ماحول تھا۔ انسان انسان کا غلام تھا، عملی تصویر دیکھنا چاہیں تو ہالی ووڈ کی فلم 1000BC دیکھ لیں کہ کس طرح انسان کو غلام بناتے تھے۔اس وقت 2 بڑی اور بے شمار چھوٹی چھوٹی طاقتیں تھیں۔ ایک طرف رومن سلطنت تو دوسری طرف پرشین سلطنت تھی ،آدھی دنیا پر رومی تمدن اورآدھی پر ایرانی تمدن چھایا ہوا تھا۔ عرب برے حالات میں تھا ۔ایسے میں ہمارے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا اور اسلام کے ذریعے ایک نئی سلطنت اورنئے تمدن کی ابتدا ہوئی ۔ اسلام سے پہلے لوگ غلام تھے، مصنوعی خداؤں کے سامنے جھکتے تھے، کوئی ان کے بارے میں لب کھولتا تو پوری سوسائٹی اس کی دشمن بن جاتی، یونان کا کلیسا مقدس خدائی کا دعویدار تھا، جس سے اختلاف رائے کا مطلب موت تھی۔ لیکن اسلام نے انسانوں کو انسانیت کی غلامی سے نکال کر آزاد کرایا اور صرف ایک اللہ کا بندہ بنانے کا اعلان کیا۔ یہی اسلام ہے جس میں ہر انسان آزاد ہے۔ اسلام اظہاررائے کی آزادی کاحامی ہے، لیکن اعتدال پسندی چاہتاہے، فساد کے خلاف ہے۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے رائے کی آزادی کے ساتھ یہ فلسفہ بھی پیش کیا کہ انسان حیوانوں کی طرح بے مہار نہیں بلکہ اس کی کچھ حدود ہیں۔ اسلام نے ایک طرف بہترین اخلاقی اقدار فراہم کیں تو دوسری طرف جبر اور طاقت سے زیادہ ذمہ داری سونپنے کی حوصلہ شکنی کی۔ اظہار رائے کی آزادی کا عملی مظاہرہ ہمیں سیرت مصطفیٰ ﷺ میں بھی ملتاہے۔
آج مغرب کے ہاں آزادی اظہار رائے کاجو تصور پایا جاتاہے وہ منافقت اورتضاد سے بھرپورہے، وہ دوسروں کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ جو چیزیں خود پسند نہیں کرتے ، ہم مسلمانوں سے ان کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو پیغمبر اسلام کی توہین پر عدم برداشت کا طعنہ دیتے ہیں، لیکن خود اپنے خلاف ایک لفظ نہیں سن سکتے۔
ان لوگوں کو ہمارے پیغمبر حضرت محمد ﷺ کی توہین تو برداشت ہےلیکن خود قومی پرندے کی قید ،قومی پرچم اور عدالتوں کی توہین پر سزائیں اور جرمانے لگاتے ہیں۔ یہ فریڈم آف ایکسپریشن کوئی مفت میں نہیں مل گئی بلکہ اسلام نے جدوجہد کی ہے، جانیں قربان کی ہیں۔
یہ اسلام ہی ہے جس نے بتایا کہ انسان برابر ہیں۔ مغربی سائنس دانوں اور مفکرین نے کیوں تحقیق نہیں کی کہ آخر کیوں گستاخانہ خاکے بنائے جاتے ہیں؟گستاخانہ کارٹون بنائے جاتےہیں تو کبھی قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کی جرات کی جاتی ہے، دراصل اسلام کولڈ وار جیت رہا ہے۔
اب اگر ہم اپنا جائزہ لیں تو بھی دکھ ہوتا ہے کہ اپنے لوگوں کو کیسے سمجھاؤں کہ نبی پاک ﷺ کا دفاع ہم سب کی زندگیوں سے بڑا اور اہم ہے، ہمارے اسٹارز ٹیوٹر، فیس بک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز کو استعمال کرکے اپنے دین اور نبی پاک ﷺ کا دفاع کیوں نہیں کرتے؟ بلیو ٹک والے سوشل میڈیا کے لوگ اپنا بلیو ٹک بچانے کی فکر کرنےکے بجائے دین بچانے کی فکر کیوں نہیں کرتے؟ کل قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں اپنی معذرت پیش کرنے کے لئے ہمارے پاس کچھ تو ہو ۔آخرت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے کم سے کم اتنا تو کہہ سکیں کہ ہم نے زبان سے، قلم، ٹویٹر، فیس بک، انسٹا گرام سے جہاں تک ممکن ہو سکا، اپنے دین کا دفاع کیا ۔
ایسے کسی بھی واقعہ کے بعد ہمیں ایک علمی جوابی بیانیہ بنانا چاہیے ۔ ہمیں ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنی چاہئیں۔ مسلمان علماء، دانشوروں کی ذمہ داری ہے کہ سوشل میڈیا پر صرف سیاست ،حکومت اور اپوزیشن میں الجھ کر نہ رہ جائیں۔ وہ مفکرین اور تھنک ٹینکس منکرین کے اعتراضات کے علمی جوابات دیں۔ نوجوانوں کی ذمہ داری ہے کہ الہامی کتب کی دعوت کو عام کریں۔ ہر بات پر ٹک ٹاک بنانے والے، سیلفیاں اور ویڈیوز بنانے والے فنکار، اداکار، کرکٹرز اور نوجوان صحافی مغرب میں اپنے دوستوں کو قرآن پاک کی آیات کا انگریزی میں ترجمعہ بھیجیں۔ قرآن کے ساتھ سیلفی بنائیں۔ آیات کے اسکرین شاٹس شیئر کریں ۔
"کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں”
تحریر: زینب وحید
زینب وحید کیمرج 11 کی طالبہ، کلائمٹ چینج، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ، مصفنفہ اور صف اول کی مقررہ ہیں۔ زینب وحید کو اقوام متحدہ کے تحت میلان میں یوتھ فار کلائمٹ چینج انٹرنیشنل کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ انٹرنیشنل یوتھ کانفرنس 2021 کی پینلسٹٓ، اقوام متحدہ اور انٹرنیشنل سول سوسائٹی کے تحت کانفرنس میں پینلسٹ کے طور پر بھی شامل ہیں۔ لمز جیسے تعلیمی ادارے میں لڑکیوں کی تعلیم اور پنجاب ہارٹیکلچر اتھارٹی کی سفیر ، یوتھ ایڈووکیسی نیٹ ورک کی والنٹیئر، پاکستان ڈیبیٹنگ سوسائٹی لاہور کی صدر ہیں۔ انٹرنیشنل میگزین "اسمبلی” کے ساتھ بھی منسلک ہیں۔ مضمون نویسی کے متعدد بین الاقوامی مقابلے بھی جیت چکی ہیں
زینب وحید کے سوشل میڈیا لنکس مندرجہ ذیل ہیں ۔
Facebook:
https://www.facebook.com/uswaezainab.official/
Instagram:
https://www.instagram.com/uswa_e_zainab_/
linkedin:
https://www.linkedin.com/in/uswa-e-zainab-1a8a8817a/