اسلام آباد: وزیراعظم پاکستان عمران خان کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ شوگر انکوائری کمیشن میں کئی انکشافات سامنے آئے ہیں جبکہ وزیراعظم صرف اس ادارے پر تنقید کرتے ہیں جو اپنا کام بہتر نہیں کرتا۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہزاد اکبر نے کہا کہ شوگر انکوائری کمیشن میں کئی انکشافات ہوئے جس کی رپورٹ کی روشنی میں کارروائیاں کی گئیں، بعض شوگر ملز نے عدالتوں سے حکم امتناع لے رکھا ہے جبکہ 89 شوگر ملز میں سے بعض ایسی ہیں جن کے آڈٹ ہی نہیں ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ نئی قانون سازی میں سٹے بازی کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے سٹے بازی کے خلاف بھی کارروائی کی ہے۔ جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے، شوگر سکینڈلز سمیت دیگر مسائل کی انکوائری کرائی ہے جبکہ اس سے قبل وفاقی حکومتوں نے ایسے کبھی انکوائریاں نہ کیں اور اگر کی بھی گئیں تو عوام کو ان سے متعلق نہیں بتایا گیا۔
وزیراعظم کے مشیر نے بتایا کہ شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 2009ءسے 2015ءتک اور 2016ءسے 2018ءتک پاکستان کا مقدمہ صحیح طریقے سے نہیں لڑا گیا، حکومت پاکستان کا کہنا تھا کہ جو ریکوریز ہوئی بھی اس میں براڈ شیٹ نے کوئی کام نہ کیا، وفاقی کابینہ اس چیز کی انوسٹی گیشن کر رہی ہے کہ کیا واقعی کسی کی کوتاہی تھی اور اس معاملے میں جس کی بھی کوتاہی ثابت ہوئی، اسے واجبات ادا کرنا ہوں گے۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں گزشتہ پانچ سال کے آڈٹ کے نتیجے میں 619 ارب کے واجبات تمام شوگر ملز پر نافذ ہوئے، یہ سیلز ٹیکس 89 ملز نے چھپایا تھا جبکہ 10 شوگر ملز نے ہائی کورٹس سے سٹے لیا ہوا ہے جن میں کچھ شریف لوگ بھی شامل ہیں، اس کے علاوہ 619 ارب کے ٹیکس میں سے 31 ارب کا معاملہ عدالت میں ہے، گزشتہ شوگر ملز سے ٹیکس کی مد میں دوگنا ریکوری ہوئی جو بڑی کامیابی ہے
وزیراعظم کے مشیر کا کہنا تھا کہ مسابقتی کمیشن کی کارروائی میں انڈسٹری پر 44 ارب کا جرمانہ عائد کیا گیا اور تمام سٹہ بازوں کیخلاف کارروائی کی گئی ۔ ایف بی آر نے سٹہ بازوں پر 13.8 ارب روپے ٹیکس نافذ کیا۔ تمام کسانوں کے ناصرف واجبات ادا ہو گئے ہیں بلکہ پہلی مرتبہ چین کی قیمت فکس کی گئی ہے جس کے باعث حکومت کو بہت سے مسائل کا سامنا پڑنا پڑا اور چینی کی قیمت فکس کئے جانے کے باعث چینی کی سپلائی ایک چیلنج ہے۔
اس موقع پر انہوں نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال قیمتیں بہت کم ہوئیں تو پیٹرولیم کی قلت بھی ہوئی ، پیٹرولیم انکوائری کمیشن نے بتایا ہے کہ آئل مارکیٹنگ کمپنیز نے ذخیرہ اندوزی کی تھی اور قیمتیں کم ہونے کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچنے دیا گیا، کم قیمت پر خریدے گئے تیل کو عوام تک نہ پہنچنے دیا جس کے باعث 3.5 ارب کا نقصان ہوا، اور اب ان تمام کمپنیوں سے یہ رقم وصول کی جا رہی ہے، اس کے علاوہ پورے ملک میں 2 ہزار سے زائد غیر قانونی پیٹرول پمپ بند کئے گئے ہیں۔