ہوئے تم دوست جس کے……

مرزا غالب نے شاید پاکستان امریکا تعلقات کے اس موڑ کے لیے ہی کہا تھا: لو وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ بے ننگ ونام ہے، یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں! ’یہ جانتا اگر؟‘ اگرچہ کوئی ایسا معمہ تو نہ تھا۔ امریکی یوٹرنوں سے ہی تو دنیا نے یوٹرن لینے سیکھے ہیں۔ (جو عہد شکنی، بے وفائی کا مہذب نام ہے۔) ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو۔ ایک سوراخ سے ہم مسلسل ڈسے گئے لیکن ہر مرتبہ انکل سام اور ان کے ڈالروں کی کشش ہمیں سب کچھ بھلا دیتی رہی۔ گزشتہ 20 سالوں کے نوحہ پڑھنے کی تاب اب کس میں ہے۔ مقدور ہوتو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں۔ امریکا پر ڈیموکریٹس کی حکمرانی کا انتخابی نشان گدھا ہے۔ تو سبھی محاورے پورے ہو رہے ہیں۔ گدھے سے گر کر غصہ کمہار پر۔ سو ہم پر جو چاند ماری یکایک شروع ہوگئی وہ عین امریکی فطرت کا خاصا ہے۔ دولتیاں جھاڑی جا رہی ہیں۔ 22 ری پبلکن سینیٹروں نے بل پیش کیا ہے جس میں افغانستان کے ساتھ پاکستان پر بھی معاشی پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ ہے۔ وہ جو کل تک فرنٹ لائن اتحادی تھا، نان نیٹو اتحادی تھا۔ وہ جس نے اپنے ملک کی سڑکیں کفر کے لشکروں کی عسکری ضروریات سے لے کر شراب، خنزیر اور جنگ کے آخری سالوں میں پیمپرز تک بلاتعطل فراہم کیے۔ شکست انہونی کیسے ہوگئی؟ جس دن عالمی طاقت کو پیمپرز کی ضرورت اپنے فوجیوں کے لیے پیش آ گئی تھی تو جو 15 اگست 2021ء کو مناظر بنے، وہ نوشتہئ دیوار نہ تھے؟ اب امریکی حکومت اور اس کے فوجی سربراہان مسلسل سوالوں کی بوچھاڑ کا سامنا کررہے ہیں۔ پہلے آپس میں الزام تراشیوں کے بگولے اٹھتے رہے۔ اب تھک ہارکر ان کی مجبوری ہے کہ قربانی کا بکرا تلاش کرو سو یہ بکرا بل ہے اصلاً جس میں امریکا کو اپنا دیرینہ بغض مسلم ایٹمی ریاست پر نکالنا لازم ہے۔ حالانکہ سینیٹ آرمڈ سروسز کمیٹی میں امریکی سیکرٹری دفاع لائیڈ آسٹن 28 ستمبر کو بیان دے چکے کہ: ’یہ حقیقت ہے کہ افغان فوج جسے ہم اور ہمارے اتحادیوں نے تربیت دی تھی یوں (برف کی طرح) پگھل گئی سب کی سب! کتنی جگہ بغیر ایک گولی چلائے۔ ہم دنگ، ہکا بکا رہ گئے۔ اب اس کے سوا اگر ہم کچھ کہیں گے تو وہ بددیانتی ہوگی۔‘ سو یہی بددیانتی ہے جس کا ارتکاب سینیٹرز نے بل پیش کرکے فرمایا ہے۔ جنرل مارک ملے جائنٹ چیف آف اسٹاف اور جنرل میکنیزی (امریکی سینٹرل کمانڈ) پہلے اقرار کرچکے کہ: ’غیرمتوقع طور پر طالبان کی برق رفتار کامیابی کا انہیں اچانک سامنا کرنا پڑا۔ کابل حکومت یکایک ڈھے گئی۔‘ اشرف غنی اور افغان کٹھ پتلی حکومت وفوج کا فرار اور اپنے آقاؤں سے غداری، غلط تجزیے اس کی اصل وجہ تھی جسے امریکا ہمارے سر تھوپنے کی کوشش کررہا ہے۔ امریکی انخلاء کا طریق کار اور مناظر ایک سپرپاور کے لیے بلاشبہ رسوا کن اور سیاہ ترین باب ہے جو ان کی تاریخ میں رقم ہوا۔ ویت نام میں شکست کا ریکارڈ انہوں نے خود ہی توڑا۔ افراتفری، بدنظمی، بدحواسی، خوفزدہ ہرنی کی طرح بے محابا بھاگ لینے کے مظاہر۔ مہیب C-17 جہاز، ہجوم سے بے پروا امریکی محبت میں مرمٹنے والوں کو پہیوں تلے اور پہیوں کے اندر روندتا، قیمہ بناتا، جہاز سے گرتے لوگ…… یہ مناظر امریکا کے عوام، حکمرانوں، پینٹاگون کے لیے بھیانک خواب بن کر انہیں رلاتے رہیں گے۔ سو ایسے نفسیاتی دورے غیرمتوقع نہیں جس کے تحت وہ اپنے لیے 80 ہزار جانوں کا نذرانہ دینے والے ملک ہی کے گلے میں جوتیوں کا ہار ڈالنا چاہ رہے ہیں۔ وہ ملک جس نے انہیں افغانستان میں اترنے کے قابل بنایا۔ ورنہ وہ تو جہازوں سے اترنے کو 2001ء میں تیار نہ تھے۔ 70 ہزار بمبار طیاروں نے پاکستان سے اڑان بھر بھرکر افغان سرزمین کو روندا۔ 450 ڈرون حملے۔ ہماری فضائی حرمتیں پامال کرکے ہماری ہی آبادی کو نشانہ بنایا گیا۔ جب تک ضرورت تھی ہر آنے والا امریکی جرنیل ومقتدر ہمارے ’شہداء‘ کی یادگار پر سب سے پہلے پھول چڑھاتا، خراج تحسین پیش کرتا، شانہ تھپکتا اور جاتے ہوئے ڈومور کا پروانہ تھماتا، جو ہم کرتے کرتے مور بن گئے۔ اب الزام ہے کہ 2001ء سے اب تک ہم نے طالبان کو مالی مدد فراہم کی، پناہ گاہیں دیں، ٹھکانے دیے، طبی امداد، تربیت اور آپریشنل مدد دی! سبحان اللہ! ملاضعیف کی کتاب اس کی گواہ ہے۔ عالمی سفارتی آداب کے منافی جس طرح برادر ملک کے برادر سفیر کو ہم نے امریکا کے حوالے کیا، گوانتامو میں پہنچایا گیا، وہ ہماری امریکا کے لیے فدویت کا ثبوت ہے۔ اور صرف انہی پر کیا موقوف، خود پرویزمشرف کی کتاب گواہ ہے کہ گوانتامو کے بیشتر قیدی اور اپنی بیٹی ڈاکٹر عافیہ تک ہم نے اپنی امریکا سے بے لوث محبت کی نذر کیے۔ پناہ گاہیں جو ہم نے طالبان کو دیں؟ ملک بھر سے ہم نے ہر اسلام سے محبت رکھنے والے، امریکا کے لیے خطرے کی علامت نوجوان عقوبت خانوں میں ٹھونسے۔ قبائلی پٹی تباہ ہوگئی۔ 35 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے۔ آج اگر ہماری کرنسی منہ کے بل گرے چلی جا رہی ہے، معاشی بربادی کے دہانے پر کھڑے ہیں، فٹیف کی تلوار پھر بھی ہمارے سر پر لٹک رہی ہے تو یہ سب امریکا دوستی کے ہاتھوں قومی خودکشی کا عمل ہے جس سے ہم گزر رہے ہیں۔ نظریاتی تباہی ناقابل یقین حدوں کو چھو رہی ہے۔ کشمیر بھلا دیا۔ تمہاری محبت میں بدترین دشمن بھارت سے محبت کی آشا کے دور چلائے۔ قائداعظم، اقبال کے خوابوں کو ہود بھائیوں والی بھیانک تعبیروں کے دن دکھائے اور اس پر اس امریکی بل نے اپنی جفاکاریوں بھری طویل تاریخ کی ایک اور مہر ثبت کردی۔
اللہ کے سارے وعدے سچے ہیں، جنہیں ہم طالبان کے افغانستان میں پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ شیطان کے ساتھ وعدے جھوٹے ہیں۔ (سورۃ الانفال، الحشر) جنہیں ہم شیطان دوراں کے ہاتھوں الزام تراشیوں اور احسان ناشناسیوں کی صورت دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان معاشی بدحالی، بے روزگاری، بدامنی، مہنگائی (صرف 32 فیصد پیٹ بھر کر کھا سکتے ہیں) جرائم خودکشیوں کی لپیٹ میں ہے۔ بدعنوانی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ افغانستان سے امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی اٹیڈ پریس(4 اکتوبر) کی رپورٹ ہے۔ وہ کابل جہاں چوروں کے غول ڈاکے، اغواکاری روز کا معمول اور انصاف ناقابل حصول اور نہایت مہنگا تھا، طالبان کے ساتھ کابل کے لیے امن کا پیغام لایا ہے۔ انصاف کی فراہمی فوری ہے، شریعت کی بنیاد پر۔ ایک شخص نے ہمسائے پر چاقو سے حملہ کیا، اس کے باپ کو نشانہ بننے والے خاندان کو 400 ڈالر دینے کا حکم دیا۔ باپ نوٹ گِن کر امام صاحب کے حوالے کرتا ہے جو مظلوم کے خاندان کو دیے جاتے ہیں۔
مدعی اور مدعا علیہ باہم گلے ملتے ہیں اور انصاف فراہم ہوگیا! نہ رشوت نہ وکیل کی فیسیں نہ لامنتہا پیشیاں! وہ کابلی جو طالبان کی آمد سے اس جنگ زدہ شہر میں خوفزدہ تھے، ان کے لائے ہوئے امن پر خوش ومطمئن ہیں۔ طالبان کے پولیس اہلکار رشوت نہیں مانگتے، یہ ان کے لیے 20 امریکا تلے سالوں کے بعد کی فوری تبدیلی ہے۔ ’اس سے پہلے ہر وقت، ہر جگہ حکومتی کارندے ہاتھ پھیلائے کھڑے ہوتے ہمارا مال چرانے پر کمربستہ‘۔ یہ حاجی احمد خان کا تبصرہ تھا۔
عوام کی سب سے بڑی شکایت رشوت، بدعنوانی اور لوٹ مارکی تھی پچھلے 20 سالوں میں۔ جس سے اب انہیں طالبان کے ہاں چھٹکارا ملا ہے۔ بلوں کی ادائیگی تک میں رشوت آڑے آتی تھی۔ طالبان کی آمد پر افغان فوج کے بھاگ جانے میں ایک وجہ ان کے مکمل فراڈ دھوکا دہی کا طریق واردات تھا جس پر وہ اندر سے کھوکھلے اور طالبان سے خائف تھے۔ سعودی عرب پلٹ ایک ڈاکٹر نے اقرار کیا کہ ’اس کی شکایت فوری رفع کی گئی بغیر رشوت مانگے۔ جبکہ اس سے پہلے تو تھانے میں قدم رکھنے کے لیے بھی پیسہ دینا پڑتا تھا۔ پچھلی حکومت کا اصل قصور یہ تھا کہ وہ سارا پیسہ اپنی جیبوں میں بھرتے رہے۔‘
خواتین کے لیے اندیشوں بھرے افغانستان میں یہ بھی دیکھیے۔ پل خمری میں ایک (پچھلی حکومت کا) شیلٹر تھا جس میں گھروں سے نکلی (موم بتی) آنٹیاں تھیں۔ طالبان نے سب کو گھر واپس بھجوا دیا۔ دو خواتین بے ٹھکانہ تھیں۔ انہیں کابل لے آئے۔ وہاں پل چرخی میں انہیں اچھی کھلی جگہ دے کر تحفظ فراہم کیا۔ کھانا، بچوں کے لیے کھلونے، بنیادی ضروریات۔ اب انہوں نے خود اے پی کو انٹرویو دیا کہ ہم یہاں نماز، قرآن پڑھتی خوش باش رہ رہی ہیں! (سڑکوں پر نکل کر نعرے لگانے مردوں کے خلاف، یا موم بتیاں جلانے کی ضرورت نہیں!) سو یہ ہے عافیت کا گہوارہ اللہ کے وعدوں والا افغانستان، ’جوکوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ پیدا کردے گا۔ اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔‘ (الطلاق: 3,4) اور ہم امریکا سے ڈر کر اپنی راہیں مسدود کیے آئی ایم ایف کے در کے بھکاری بن گئے۔ بدعنوانی، رشوت ستانی، لوٹ مار کے جنگل میں رہ رہے ہیں۔

Amira Ehsane-paperLahoreNaibaat newspaperPakistan