چند روز قبل رواداری کا عالمی دن تھا، گہری سانسیں اور مراقبہ کر کے اپنے فشار خون کو معمول پر لانے میں مجھے کافی وقت لگا۔ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ جب کوئی چیز آپ کو مشتعل کرتی ہے تو، ایک گہرا سانس لینا چاہئے، اپنا سانس روک کر رکھیں، 10 تک گنتی کی جائے اور پھر سانس چھوڑنا چاہئے، اور دو تین بار ایسا کرنا چاہئے۔ اگر یہ طریقہ ناکام ہو جائے تو، اپنے بستر پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ جائیں، آنکھیں بند کریں اور تصور کریں کہ آپ کسی لا محدود پول میں تیراکی کر رہے ہیں، لیکن اس معاملہ میں محتاط رہنا چاہئے کہ گھاٹی میں، رہائشی ٹاور سے یا جہاں بھی آپ اس تالاب کا تصور کر رہے ہوں، باہر نہ گر پڑیں۔ مجھے یقین ہے کہ 1995 میں اس دن کی شروعات گاندھی کے یوم پیدائش کی مناسبت سے کی گئی تھی، جو عدم تشدد کے فلسفہ پر یقین رکھتے اور اس سلسلہ میں عالمی سطح پر مانی ہوئی شخصیت تھے۔
دنیا جیسا کہ ہر کوئی مانتا ہے ایک پریشان کن جگہ ہے، یونیسکو نے معاملات میں کسی حد تک سدھار کے لئے رواداری کا دن منانے کا اعلان کیا ہے۔ یونیسکو اقوام متحدہ کا ایک شعبہ جو ”تعلیم، سائنس اور ثقافت کے میدان میں بین الاقوامی تعاون کے ذریعے امن، معاشرتی انصاف اور انسانی حقوق کے فروغ“ کو یقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر میں، خاص طور پر بھارت کے موجودہ حالات ایسے تاریک دور میں، کسی ایسے ادارے کے لئے کام کر رہا ہوتا، تو میں بھی نہ جانتا کہ میں کیا کروں اور اپنے دفتری اوقات کار نو سے پانچ تک کیسے گزاروں پھر لازمی طور پر رواداری کے عالمی دن کی طرح کی مختلف تجاویز پر غور کرتا اور انہیں ہی سامنے لاتا۔
اس دن کی مناسبت سے تخلیق کیا گیا لوگو کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے جس میں مختلف پرچھائیوں اور رنگوں کے لوگوں کو دائرے میں کھڑا کیا گیا ہے اور وہ خوشی اور امید سے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے ہیں، یا یہ دائرہ میں مختلف رنگوں کے ہاتھ بھی ہو سکتے ہیں۔ اگر آپ ہنسیں نہیں تو یہ امید کی جاتی ہے کہ دنیا بھر کے ممالک ”رواداری اور عدم تشدد کے فروغ کے لئے مساوات اور بنیادی انسانی حقوق سے متعلق قانون“ لائیں گے۔ یہ ایک مشکل مرحلہ ہو گا کیونکہ آج لوگ یقین کرتے ہیں کہ وہ ٹھیک ہیں، چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہوں۔ مثال کے طور پر سیاست دانوں اور حکومت کے سربراہوں کو دیکھیں تو ان کو یقین ہے کہ عوام نے ان کو مکمل اختیار دیا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق کام کریں، جب کہ حقیقت اس کے بالکل اُلٹ ہے۔
اس سال کے آغاز میں، ایک ہندوستانی ریاست نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ لوگوں کو خوش رکھے گی اور اس مقصد کے لئے خوشی کی وزارت قائم کرنے کا منصوبہ بنا۔ مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کی پیمائش کرنے کے بجائے اس نے ایک اور انڈیکس ایجاد کیا جس کا نام گراس نیشنل ہیپینس (مجموعی قومی خوشی) ہے جو لوگوں کی فلاح و بہبود کو ثقافت، گورننس، صحت، روحانیت، وقت کا متوازن استعمال اور ماحول کے ساتھ ہم آہنگی کی بنیاد پر ماپے گی۔ اس خبر کے ساتھ ایک تصویر بھی موجود تھی اور اس میں لوگوں کو ہوا میں چھلانگ لگاتے ہوئے دکھایا گیا تھا، شاید اس بات کی نشاندہی کرنے کے لئے کہ لوگ آخر کار خوشی سے اچھل کود رہے ہیں۔ مزید تفصیلات کا علم ہے نہ ہی میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ منصوبے کے اعلان کے بعد اب تک کیا ہوا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ انہیں اس محکمہ کی سربراہی کے لئے خوش نظر وزیر یا مسکراتے ہوئے بیوروکریٹ نہ مل سکے ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ جیسے جیسے کوئی بڑا ہوتا جاتا ہے، ذی فہم، سمجھدار اور زیادہ پُر سکون ہو جاتا ہے، اور ہر وقت چہرے پر ایک سادگی بھری مسکراہٹ سجائے رکھتا ہے، اس یقین کے ساتھ کہ دنیا میں جو بھی ہو رہا ہے سب ٹھیک ہے۔
بڑی عمر کے افراد کی ایک بہت بڑی تعداد کے لئے عام طور پر اس دن کا آغاز اخبار پڑھنے اور ملک و دنیا کی صورت حالات کے بارے میں پریشان ہونے کے ساتھ ہوتا تھا۔ پرانے ادوار میں عوام اس بات پر غور کرتے تھے نہ ہی اس بارے میں گفتگو کی جاتی تھی کہ سیاست دان اور میونسپل آفیسرز کس طرح معاملات چلا رہے ہیں۔ اخبارات کے ایڈیٹرز ایک پلیٹ فارم، جس کا نام ایڈیٹر کے نام خط تھا، کے ذریعے صرف ایک طرح کی شرکت کی اجازت دیتے تھے، یہ ایک طرح سے ایسا چھید تھا جہاں سے آپ کے جذبات بھاپ میں ڈھل سکتے تھے، لیکن ایسا عام طور پر اس واقعے کے چند ہفتوں بعد ہوتا جب آپ شدید پریشانی کا شکار ہو چکے ہوتے تھے۔ آج، میرا دن نام نہاد سوشل میڈیا پر لوگوں کے خیالات اور گالیوں کو پڑھنے کے بعد چہرے پر عود کر آنے والے پریشانی اور تفکرات کے اثرات کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ بہرحال، رواداری کے دن آپ کو پڑوسیوں کی بات سننا ہو گی جو مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں اور مختلف ثقافتوں اور قومیتوں کے بارے میں پڑھتے ہیں۔
(بشکریہ: گلف نیوز۔ 15-09-2021)