افغانستان کی صورتحال پوری دنیا بالخصوص خطے کے ممالک کے لئے ایک بہت بڑا معمہ بن گئی ہے۔ غوروفکر اور مشاورت کا عالمگیر سلسلہ جاری ہے۔کچھ پرانے کھلاڑی نئے کھیل کی تیاری میں مصروف ہیں۔ غیر یقینی اس قدر زیادہ ہے کہ جب ایسی اطلاعات سامنے آئیں کہ طالبان حکومت کے عہدیداروں کی تقریب حلف برداری نائین الیون کی برسی کے یعنی 11 ستمبر کو منعقد کی جائے اور اس میں ہمسایہ ممالک کو مدعو کیا جائے تو روس نے فوری طور پر شرکت سے معذرت کرلی۔ باقی ممالک شاید ایسا ہی کرنے والے تھے اور ابھی اسی کشمکش میں مبتلا تھے کہ طالبان نے صورتحال کا درست اندازہ لگاتے ہوئے خود ہی کہہ دیا کہ ایسا کوئی پروگرام رکھا ہی نہیں گیا۔ افغانستان کے حوالے سے سب سے بڑی اور ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ علاقے میں ایک ایسی نئی نظریاتی ریاست معرض وجود میں آچکی ہے جس کی سرحدیں ایک دوسری نظریاتی ریاست ایران سے ملتی ہیں۔ان دونوں ریاستوں کے درمیان بنیادی فرق مسلک کا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اتحادی افواج جب تک افغانستان میں موجود رہیں ایران، طالبان جنگجوؤں کو ہر طرح کی مدد فراہم کرتا رہا۔ اب جب پورے ملک پر طالبان نے خود قبضہ کرلیا ہے تو ایران میں تشویش کی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ طالبان نے جیسے ہی وادی پنجشیر کو فتح کیا ایرانی دفتر خارجہ نے باضابطہ طور پر اس کی مذمت کردی۔ جیسے وادی پنجشیر افغانستان کا نہیں ایران اور اسکے کسی دوست ملک کا حصہ ہو۔ بات یہاں تک ہی نہیں رکی بلکہ ایران کے سابق صدر احمدی نژاد نے میڈیا میں آکر الزام لگا دیا کہ وادی پنجشیر کو طالبان کے حوالے کرنے کے لئے پاکستان نے فوجی طور عملی مدد کی ہے اور یہ کہ پاکستان کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ احمدی نژاد کے اس بیان کو ایرانی حکومت کا موقف ہی سمجھا جائے گا کیونکہ ایران میں کسی کو اپنی سیاست کرنے کی اجازت ہی نہیں ہے۔ احمدی نژاد کا یہ بیان زمینی حقائق کے بالکل برعکس ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک علاقے پر پوری دنیا کی نظریں ہوں کوئی دوسرا ملک کھلی مداخلت کرے اور کسی کو پتہ بھی چل سکے۔ کارگل لڑائی کو زمانہ گزر گیا اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف امریکی صدر سے ملنے گئے تو کلنٹن نے سیٹلائیٹ کے ذریعے لی گئی تصاویر میز پر رکھ کر کہا اب بات کریں۔ آج تو ٹیکنالوجی اس سے بھی کئی گنا زیادہ ایڈوانس ہوچکی ہے۔ پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ احمدی نژاد سے ایسا بیان کیوں دلوایا گیا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ایران اپنی پڑوس میں“نظریاتی“ حکومت کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہے اور چاہتا ہے کہ پاکستان، طالبان حکومت کے ساتھ ایک حد سے زیادہ تعاون نہ کرے تاکہ افغانستان کی نئی صورتحال کے پیش نظر ممکنہ علاقائی اثرات کو پھیلنے سے روکا جاسکے۔ ایران کی یہ تشویش ایسی بے جا بھی نہیں۔ انقلاب ایران کے وقت سے آج تک اس کے اثرات نہ صرف پڑوسی ممالک بلکہ خطے میں محسوس کئے جارہے ہیں۔ عراق عملاً ایران کا صوبہ بن چکا، لبنان کھنڈر ہوگیا اور ایران نواز گروپوں کے کنٹرول میں ہے، عملًا دو حصوں میں تقسیم یمن میں حوثی باغی آدھے ملک کے حکمران ہے۔شام میں اکثریتی آبادی بدترین مظالم میں پس کر رہ گئی۔ ایران اور روس کی حمایت سے بشار الاسد آج بھی صدر ہے۔ یہ ایک الگ موضوع ہے کہ ان ممالک میں گڑبڑ پیدا کرنے اور ایران نواز گروپوں کے لئے جگہ بنانے کے لئے امریکا نے بھرپور تعاون کیا۔ افغانستان میں طالبان کو ابھی بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ وہ دوسروں کے لئے زیادہ نہیں تو کچھ نہ کچھ گنجائش ضرور پیدا کررہے ہیں۔ اس حد تک تبدیلی ضرور آئی ہے کہ ماضی کے برعکس اس مرتبہ محرم کے جلوسوں کے لئے نہ صرف تعاون کیا بلکہ سکیورٹی بھی فراہم کی گئی۔ افغانستان کے حوالے سے اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ طالبان نے اپنے سربراہ ملا ہیبت اللہ کو رہبر بنا کر صرف اپنے لوگوں کو ہی
حکومت میں شامل کیا ہے۔ اگرچہ اسے عبوری حکومت کا نام دیا گیا مگر حقیقت یہی ہے کہ اگر آگے چل کر وسیع البنیاد حکومت بنانے کا مرحلہ آ بھی گیا تو فیصلہ کن حیثیت طالبان کے گروہ کو ہی حاصل رہے گی۔ افغانستان کے حوالے سے اس وقت پوری دنیا بالخصوص ہمسایہ ممالک دو حوالوں سے تشویش میں مبتلا ہیں۔ پہلی کوشش تو یہ رہی ہے کہ حکومت کی تبدیلی کے بعد پیدا ہونے والے حالات کسی انسانی المیے کا باعث نہ بنیں۔ اسی لئے امریکا، یورپ، روس، چین، مشرق وسطیٰ کی حکومتوں سے لے کر ہمسایہ ممالک تک خوراک، ادویات وغیرہ پر فوکس کر رہے ہیں۔ دوسرا بڑا اور پیچیدہ معاملہ یہ ہے کہ افغان سرزمین کسی بھی طرح شدت پسند گروپوں کے لئے محفوظ جنت نہ بنے۔ پاکستان میں حالیہ دنوں میں روس، چین، ایران اور وسط ایشیائی ریاستوں کی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوں کے اجلاس کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہئے۔ طالبان حکومت ایسے گروپوں کے حوالے سے کیا سوچ رکھتی ہے اس کا اظہار ٹی ٹی پی کے متعلق ایک سوال کے جواب سے ہوتا ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے پاکستان کی حکومت کو ٹی ٹی پی سے بات چیت کرکے معاملات طے کرنے چاہئیں اور اس عمل میں علما کو بھی شامل کیا جائے۔ تاہم ترجمان نے واضح کیا کہ افغان سرزمین کو کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔ سو کہا جاسکتا ہے دنیا کے دیگر ممالک کے لئے بھی یہی پالیسی ہے۔ طالبان شعوری طور پر کوشش کر رہے ہیں کہ دنیا میں یہی تاثر جائے کہ وہ اپنے تمام فیصلے آزادانہ طور پر کر رہے ہیں۔پاکستانی روپے میں تجارت کے حوالے تجویز یہ کہہ کر مسترد کردی گئی کہ تمام تجارتی لین دین افغان کرنسی میں ہی ہو گا۔ بڑے تجارتی لین دین میں پاکستانی روپے کے استعمال کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔‘طالبان نے مزید کہا کہ ’ہماری شناخت ہمارے لئے بہت اہم ہے اور ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا جائے گا جو وطن کے مادی و روحانی مفادات کے خلاف ہو“افغانستان کا مستقبل طے کرنے کے لئے پوری دنیا یہ مطالبے کررہی ہے کہ بنیادی حقوق اور شخصی آزادیوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ ادھر طالبان عالمی برادری سے کہہ رہے ہیں وہ شریعت کے دائرے میں ہر طرح کی سہولتیں فراہم کریں گے، اس لئے ان کے ملک سے ہر سطح پر تعاون کیا جائے۔ طالبان امریکا سے بھی تعلقات قائم کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں پائے جانے تاثر کے برعکس طالبان انتظامیہ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہاں ہیں – قطر میں سفارتی رابطے ہونے کے بعد مسلسل مثبت اشارے دئیے جارہے ہیں اور بھارت سے کہا گیا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنے ترقیاتی منصوبے جاری رکھے۔مگر لگتا یہی ہے کہ بھارت اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ عالمی برادری کی جانب سے کوئی پیش رفت دیکھ کر ہی کرے گا۔ چین طالبان حکومت کے لئے اچھے جذبات اور گرمجوشی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ افغان عوام کے لئے امداد بھی بھجوائی جارہی ہے۔ مل کر تعمیر و ترقی کے عمل میں حصہ لینے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ مگر یہ دیکھنا ہوگا کہ اس حوالے سے کیے جانے والے وعدے حقیت کا روپ کب اور کیسے دھارتے ہیں۔ طالبان کو اپنے ہی ملک میں ایک بڑا چیلنج اس طبقے کی صورت میں درپیش ہے جو بیس سالہ جنگ کے دوران شہری علاقوں میں ایک مختلف ماحول کا عادی ہو چکا ہے۔ طالبان کی پابندیوں سے بیزار اس طبقے کے چھوٹے چھوٹے گروہ مظاہرے بھی کررہے ہیں – بعض مقامات پر ان پر تشدد بھی کیا گیا۔ ایسے طبقات کے خلاف طاقت کا استعمال طالبان کی بین الاقوامی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا سبب بنے گا۔ ان کے بعض مطالبات مانتے ہوئے دانشمندی کے ساتھ پیش آنا بھی ایک امتحان ہے۔ کچھ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ طالبان کی صفوں میں سب اچھا نہیں۔ حقانی گروپ کے ملا برادر کے حامیوں سے اختلافات ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے آگے چل کر بگاڑ کا باعث بن سکتی ہے۔پراسرار گروہ داعش کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کب بڑا مسئلہ بن جائے۔ کابل ائیر پورٹ پر بڑا حملہ کرکے وہ اپنی تخریبی قوت اور موجودگی ثابت کرچکا ہے۔ اگرچہ اس حملے میں امریکی فوجی بھی مارے گئے مگر داعش کے بارے میں سابق صدر حامد کرزئی یہ تک الزام لگا چکے ہیں کہ داعش کو ایک عالمی طاقت کی سرپرستی حاصل ہے۔ افغانستان میں داعش کے جنگجوؤں کو ایک سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لئے ہیلی کاپٹر استعمال کیے جاتے رہے۔جدید اسلحہ اور آلات بھی فراہم کئے گئے۔ دیکھنا ہوگا کہ داعش اب کس طرح سے اپنی کارروائیاں کرتی ہے۔ کرتی بھی ہے یا نہیں۔ بہر حال افغانستان میں داعش کی موجودگی طالبان کے لئے مستقل چیلنج بنی رہے گی۔ کیونکہ دیگر تنظیموں کی قیادت سے بات کرکے کسی حد تک سمجھایا جاسکتا ہے مگر داعش سے تو براہ راست نمٹنا ہی ہوگا۔ طالبان حکومت جوں جوں اپنی گرفت مضبوط کرتی جائے گی ان کے نظریات اور اقدامات کے سائے علاقائی ممالک پر بھی پڑنا شروع ہو جائیں گے۔ علاقے میں عالمی کھلاڑیوں کی مداخلت ختم ہونے کے آثار نہیں مگر کام کرنے کے انداز یقیناً تبدیل ہوسکتے ہیں۔ امریکا کو ہی دیکھ لیں امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ تب تک طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرے جب تک کہ طالبان بین الاقوامی مطالبات پورے نہیں کرتے۔کانگریس کی خارجہ امور کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا پاکستان وہ ملک ہے جو طالبان کے ارکان بشمول حقانیوں کو پناہ دینے میں شامل رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان سے تعلقات پر نظر ثانی کی جائے گی۔ پاکستان ایک عرصے سے کہہ رہا ہے کہ اپنی ناکامیوں کا ملبہ ہم پر ڈالنے کی کوشش نہ کرے اور ہمیں قربانی کا بکرا نہ بنایا جائے۔ بہر حال امریکی وزیر خارجہ نے جو کچھ کہا وہ کوئی اچھی علامت نہیں۔