آزادیٔ کشمیر کی توانا آواز خاموش ہوگئی، اگرچہ اس کی گونج وادی میں آج بھی سنی جاسکتی ہے۔ ہرگز نہ نمیرد آں کہ دلش زندہ شد بہ عشق! سید علی گیلانی آزاد ہوگئے! (دنیا مومن کا قید خانہ ہے۔‘: صحیح مسلم) سالہا سال غاصب دشمن کی جیلوں یا گھر میں نظربند رہنے والا۔ نظریہ پر جینے والا شیر جو پاکستانیوں سے بڑھ کر پاکستانی تھا۔ یہاں فلمیں، ڈرامے، گانے، ٹیبلو، بینر، کشمیری جھنڈے، جلوس، ہاتھوں کی زنجیر بناکر، گلا پھاڑ نعرے لگاکر بیانات دے کر کشمیر خاص خاص دنوں میں آزاد کروانے کا زبانی جمع خرچ ہوتا۔ وہاں علی گیلانی کی پوری زندگی بھارت کو للکارنے صعوبتیں اٹھانے کی عملی مشقت تھی۔ آئین جوانمرداں حق گوئی وبے باکی، اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی! جبر کے شکنجے میں 8 لاکھ فوج کے بوٹوں تلے کشمیریوں کے حقوق روندنے والا بھارت، بوڑھے شیر کے جسد خاکی (میں پنہاں شرر) سے لرزاں وترساں تھا۔ کرفیو لگایا۔ نیٹ سروسز بند کیں۔ نہ صرف گھر میں گھس کر میت پر ناجائز قبضہ کیا بلکہ مزاحمت کرنے پر گھر والوں کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ فوجی محاصرے میں تدفین ہوئی۔ رعب ودبدبے، ہیبت کی لہریں بھارتیوں کے سینے شق کر رہی تھیں، سید علی گیلانی کئی ماہ سے دل اور گردوں کے مرض میں مبتلا تھے۔ 92 سال کی عمر تک جس دل گردے سے جنگ آزادی لڑی شاید یہ اسی بنا پر تھا! استقامت اور عزیمت کی زندۂ جاوید علامت، شارح اقبال، تحریر وعمل دونوں سے۔ سید علی گیلانی! مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ، عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام۔ وہ اپنا فرض نبھاکر رخصت ہوئے۔ آزادیٔ افغانستان میں سبھی حریت پسندوں کے لیے بہت بڑا سبق پوشیدہ ہے۔ چوبیس پارٹیاں نہیں، یک جان یک زبان سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند، جس میں دشمن کو رخنہ تلاش کرنا ناممکن ہو۔ اللہ سے وابستگی، قرآن سے وابستگی پر اتحاد واتفاق بمطابق سورۃ آل عمران وسورۃ الحج۔ پھر فتح آسمان سے اترتی ہے۔ راستے کھلتے ہیں چٹانیں منہ دیکھتی رہ جاتی ہیں، شرط یہ ہے کہ: ’اگر تم مومن ہو!‘ (آل عمران۔ 139) افغانستان میں صرف امریکا اور اس کے مغربی حواریوں کا پیسہ نہیں ڈوبا۔ ذلت ونکبت صرف انہی کے حصے میں نہیں آئی۔ بھارت کی سرمایہ کاری بھی رائیگاں گئی۔ غم وغصے سے ہاتھ چبا رہا ہے۔ فارمولا واضح ہے۔ افغانستان میں ایک طرف ایمان اور استقامت کے کوہ گراں تھے، دوسری طرف نفاق، بدعنوانی، چور بازاری، دنیا پرستی، کی انتہا! یہی حق وباطل کی مثال ہے۔ ’جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔‘ (الرعد۔ 17) امت مسلمہ کا المیہ آج یہی تو ہے کہ قول ثابت (کلمہ طیبہ) سے منہ موڑے دنیا میں ڈراموں فلموں میں آزادی کے پھریرے لہراتے پھرنا۔ آزادی اسکرینوں پر، آن لائن نہیں ملتی، ایک ایک خلیے، رگ، ہڈی سے خراج مانگتی ہے! طالبان نے حجت اس امت پر تمام کردی ہے۔ طالبان کا کلمہ صرف جھنڈوں پر نہیں لہرا رہا، ہر بن مو پر ثبت ہے اور خون کے ہر قطرے میں اس کی خوشبو بستی ہے! ہمارے ہاں سازشوں کی تھیوریاں پیش کرکے اپنی ناکامیوں کے جواز گھڑے جاتے رہے۔ ادھر امریکا، بھارت، اسرائیل، فرانس، برطانیہ کی ساری انٹیلی جنس ایجنسیوں کے گرو بیٹھے عرق آلود پیشانیاں پونچھ رہے ہیں! حق کے مقابل کوئی چال کامیاب نہیں ہوتی۔ ومکر اولئک ھو یبور۔ اور ان کا مکر خود ہی غارت ہونے والا ہے۔ (فاطر۔ 10) خود ہمیں آئینہ ایام کے گزشتہ بیس سالوں میں اپنا احتساب کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ پاکستان، جو اس جنگ میں اپنی لاکھ جانوں کی قربانی کی بات کرتا ہے تو وہ ہم نے افغانستان کی حریت، افغانوں کی مدد یا اللہ کی خوشنودی اور مسلم اخوت، نفاذ شریعت کیے لیے نہیں دی۔ امریکا اور بین الاقوامی طاقتوں، عالمی جنگ پرستوں کی جنگی ضروریات، انہی کے اہداف میں تعاون اور اپنی معیشت کی اغراض کے لیے دیں۔ طالبان سے نہ اس کا صلہ مانگا جاسکتا ہے، نہ انہیں اب مشورے اور ہدایات دی جاسکتی ہیں۔ صرف اپنا سا منہ لے کر رہا جاسکتا ہے!
ان بیس سالوں میں جس رکن دین کو خود مسلمانوں نے چھپا دیا، بھلا دیا، عین وہی سببِ نجات بنا افغانستان کے لیے۔ کفر بجا طور پر جس سے دہشت زدہ رہا، اسی کا سامنا اسے کرنا پڑا اور اس کے بدترین خدشات پورے ہوئے۔ یعنی جہاد فی سبیل اللہ! ابوالکلام آزاد نے اسے بیان کیا ہے، ’قرآن کا قانون عروج وزوال‘ میں، یوں گویا وہ ہمارے حالات دیکھ کر امت پر رواں تبصرہ کررہے ہوں۔ اتنے کھرے دوٹوک لہجے پر آج وہ ہوتے تو گوانتامو پہنچے ہوتے! لکھتے ہیں: آج جب ایک دنیا جہاد کی دہشت سے کانپ رہی ہے، جبکہ عالم ِمسیحی کی نظروں میں یہ لفظ عفریت مہیب یا ایک حربہ بے امان ہے، جبکہ اسلام کے مدعیان خود نصف صدی سے کوشش کررہے ہیں کہ کفر کی رضا کے لیے اہل اسلام کو مجبور کریں کہ وہ اس لفظ کو لغت سے نکال دیں۔ جبکہ بظاہر انہوںنے کفر واسلام کے درمیان ایک راضی نامہ لکھ دیا ہے کہ اسلام، لفظ جہاد کو بھلا چکا ہے لہٰذا کفر اپنے توحش کو بھول جائے۔ تاہم آج کل ملحد مسلمین اور مفسدین کا ایک حزب الشیطان بے چین ہے کہ بس چلے تو یورپ سے درجہ تقرب وعبودیت حاصل کرنے کے لیے ’تحریف الکلم عن مواضعہ‘ کے بعد سرے سے اس لفظ کو قرآن سے نکال دے۔ میں صاف صاف کہتا ہوں کہ اسلام کی حقیقت ہی جہاد ہے۔ دونوں لازم وملزوم ہیں…… اسلام کی تمام عبادتیں اسی کے لیے ہیں۔ اس کے تمام جسم اعمالی کی روح یہی شے ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کی یاد کو اس نے ہمیشہ زندہ رکھنا چاہا اور عیدالاضحیٰ کو یوم جشن ومسرت بنایا۔‘ (اللہ کے حکم پر ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کا سرتسلیم خم کردینا! جان قربان کرنے والی فدائیت!)
جب مذکورہ عقیدہ، زبان سے ادا ہونے کے بعد روبہ عمل آتا ہے تو نتائج ہمیشہ ہی محیرالعقول ہوئے۔ عدد، معدود، اسلحے، ساز وسامان جنگ کی ریل پیل، عالی شان مسندوں اور مجالس والی شہنشاہیاں سب عقیدہ کے مقابل صفر ہوگئیں۔ مسلمان بے سروسامان 313 تھے، تو بدر میں کفر کے لدے پھندے لشکر کے 70 جنرل میکنزی کی سطح کے سردار مرے پڑے تھے اور ایسے ہی 70 قیدی ہوئے۔ یہی کہانی احد، خندق، خیبر، تبوک سے ہوتی ہر خطے میں سلطنتیں الٹاتی الٹاتی افغانستان آن پہنچی اور 3 مرتبہ دہرائی گئی۔ دروغ گوئی حافظہ ندارد کے مصداق باطل ہر دفعہ منہ کی کھاکر بھول گیا اور پھر نئی چالوں، نئے دم خم سے اپنا نیا قبرستان آباد کرنے آن اترا۔ جو کہانی کل تھی وہی آج ہے۔ فاقوں سے پٹخے پیٹوں والے، کھجور کی چپلوں، پیوند زدہ لباسوں، چیتھڑوں میں لپٹی تلواروں والوں نے اس وقت کا ’نیو ورلڈ آرڈر‘ تین براعظموں پر قائم کردیا تھا جو سفید جھنڈے پر لکھے کلمے والا آرڈر ہے! مقابل جب سپین کا راڈرک تھا تو طارق بن زیاد کل 12 ہزار فوج ننگی تلواریں اور کچھ نیزے لیے فتح یورپ کا دروازہ کھولنے جا اترا۔ علاقے کے گورنر، تھیوڈومرنے راڈرک کو اطلاع دی کہ ’ہماری زمین پر ایک بلااتری ہے ہم نہیں جانتے کہ آسمان سے نازل ہوئی ہے یا زمین سے!‘ یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے! (عین وہی جو اچانک افغانستان کے طول وعرض پر چھا گئے!) مقابل ایک لاکھ فوج تھی راڈرک کی، قیمتی اسلحے، گھوڑوں سے مزین! بس یہ دیکھ لیجیے کہ اسپین میں 800 سالہ حکمرانی کا آغاز اس تناسب کی فوج سے ہوا۔ طارق کی تلوار فیصلہ کن تھی۔ فتح ونصرت نے قدم چومے۔ ہسپانوی مقتولین کی لاشوں سے میدان پٹ گیا۔ راڈرک کا سفید گھوڑا دلدل میں (فرار کے بعد) پھنسا ملا جس پر یاقوت وزبرجد سے مرصع ساز کسا ہوا تھا۔ قریب ہی راڈرک کا موزہ جس پر یاقوت اور موتی ٹکے تھے پڑا تھا۔ زرتا رحلہ جو بیش قیمت جواہرات سے مرصع تھا گرا پڑا تھا۔ شان وشوکت والا بادشاہ دریا میں کود کر نسیاً منسیاً ہوگیا۔ خستہ حال فوج نے دور مظلمہ میں ڈوبے یورپ کو اسپین کی عظیم علوم وفنون بھری حکمرانی سے آراستہ کیا! ملاعمرؒ امیرالمؤمنین امارت اسلامی، قندھار سے ایک جوڑا اور کچھ رقم، صدقۂ فطر اور ذاتی مصارف کے لیے خاموشی سے لیے نکل گئے۔ لمبے سادہ کپڑے اور بڑی پگڑی ان کا لباس تھا۔ 2005ء میں جگہ تبدیل کی تو 5 گھنٹے پیدل سفر کیا رات کے گھپ اندھیرے میں کھائیوں جھاڑیوں امریکی اڈے اور حکومتی حفاظتی چوکیوں سے بچتے بچاتے۔ مقابل فوج کی شان وشوکت، چمکتی سواریاں، شاندار وردیوں پر آراستہ ستارے میڈل، ہیبت انگیز قوت دیکھ لیجیے!
گرماؤ غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے
کنجشک فرو مایہ کوشاہیں سے لڑا دو!