نثار کی“ للکار“

سنجیدہ موضوع پر بات کرنے سے پہلے ایک لطیفہ“ بھرے دربار میں محافظوں نے بادشاہ سلامت کو بتایا کہ آپکی چہیتی ملکہ ایک وزیر کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ بادشاہ نے فورا ًکہا پیچھا کرو، محافظوں نے بتایا کہ کیا تھا مگر دونوں شہر سے نکل کر جنگل میں گھس گئے، بادشاہ نے کہا کہ جنگل کے باہر ناکہ لگاؤ، محافظوں نے کہا کوئی فائدہ نہیں اور بعد میں وہ جنگل سے نکل کر صحرا میں داخل ہوگئے ، بادشاہ بولا پھر صحرا کے باہر پہرہ لگا دو، محافظوں نے کہا بے کار ہے، وہ صحرا عبور کرکے سمندر میں جا چکے ہیں ، بادشاہ نے کہا اپنی کشتیاں پیچھے لگاؤ، محافظوں نے کہا ایسا ہی کیا تھا مگر وہ ہماری حدود سے ہی نکل گئے۔ بادشاہ نے حسرت سے پوچھا کیا اب کوئی طریقہ نہیں، محافظوں نے کہا نہیں بادشاہ سلامت، بادشاہ نے ٹھنڈی آہ بھری اور سمندر کی طرف ہاتھ کرکے بھاگنے والوں کو کوستے ہوئے کہا“ جاؤ تمہارا بیڑا ہی غرق ہو“ کچھ ایسی ہی حالت آجکل چودھری نثار علی کی ہے۔ مسلم لیگ ن نے الیکشن 2018 میں ٹکٹ جاری نہ کرکے ان کا پارٹی سے باہر جانے کا راستہ دکھا دیا تھا مگر وہ طویل عرصے تک اس امید پر کسی اور پارٹی میں شمولیت سے گریز کرتے رہے کہ نواز شریف کا بیانیہ فارغ ہو جائے گا اور پارٹی کا کنٹرول ان کے ہم خیال شہباز شریف کے پاس آجائے گا، ایسا ہو جاتا تو ممکن تھا کہ مسلم لیگ ن میں چودھری نثار کیلئے پھر سے جگہ بن جاتی۔ بہر حال ایک خاص مدت سے زیادہ انتظار ممکن نہیں تھا ویسے بھی انہیں اپنے صاحبزادے کو حلقے کی سیاست میں سامنے لانا ہے سو انہوں نے نئی سیاسی لائن اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ظاہر ہے وہ برسر اقتدار جماعت پی ٹی آئی میں شمولیت کو ترجیح دیں گے۔ یہ ان کا حق ہے اور کسی کو اس پر اعتراض کرنے کا کوئی حق بھی نہیں تاہم چند دعووں کی وضاحت ہونی چاہئے۔ چودھری نثار نے اپنے انٹرویو میں 2014 کے دھرنوں سے متعلق کہا ہے کہ“دھرنوں کے وقت کی ویڈیو کلپس نکال لیں، اخبارات نکال لیں، میں ایک قدم بھی پی ٹی آئی اور قادری صاحب کو ادھر سے آگے جانے کی اجازت دینے کے حق میں نہیں تھا جہاں میں نے جگہ دی تھی – میں نے پرائم منسٹر ہاؤس سے اٹھ کر جاکر ایف سی، رینجرز اور پولیس کو کہا کہ آپ آپریشن شروع کریں، میں پنجاب ہاؤس پہنچا تو پیچھے پرائم منسٹر نے پی ٹی آئی اور طاہر القادری کو ریڈ زون میں داخلے کی اجازت دیدی، میں نے تواس پر استعفیٰ دیدیا تھا ”ہوسکتا ہے کہ چودھری نثار نے وزارت داخلہ سے استعفیٰ دیا ہو مگر وزیر اعظم نواز شریف نے نامنظور کردیا ہو۔ اصل سوال تو یہ ہے کہ عمران اور قادری کے دھرنوں کو بزور طاقت ریڈ زون میں آنے سے روکا جاتا تو خون خرابے کاذمہ دار کون ہوتا – یہ کارواں ماڈل ٹاؤن لاہور سے ہی دس لاشیں گرائے جانے کے بعد زبردست دباؤ ساتھ لے کر گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس اینکر نے چودھری نثار کا انٹرویو لیا اسی نے ایک سے زائد مرتبہ اپنی کالموں میں لکھا کہ دھرنا دینے والوں کو اسلام آباد آکر لاہور سے آٹھ، دس گنا زیادہ لاشیں گرانے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔ سو حکومت کے پاس طاقت سے روکنے کا آپشن موجود ہی نہ تھا۔ ایسے میں چودھری نثار فورسز کو استعمال کرکے کس کا مشن پورا کرنا چاہتے تھے؟ کیا کوئی تردید کرسکتا ہے کہ اس روز بلوائیوں کو ریڈ زون میں آنے کی اجازت دینے کے باوجود خون خرابے کی کوشش کی گئی۔بعض چینلوں نے تو خبریں بھی چلا دیں۔ موجودہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری اس وقت جس چینل میں ملازمت کررہے تھے وہاں ایسی ہی خبر چلانے کے پاداش انہیں برطرف کرکے باقاعدہ اعلان بھی کیا گیا۔ ریڈ زون میں آنے کے بعد کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا مگر جس طرح سے ایوان صدر، وزیر اعظم ہاؤس، پارلیمنٹ ہاؤس، پی ٹی وی سمیت مختلف عمارتوں پر دھاوا بولا گیا،سپریم کورٹ کی دیواروں پر شلواریں لٹکائی گئیں جو زبان استعمال کی گئی وہ منا ظر پوری دنیا نے دیکھے۔اور بڑی حد تک یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ اس فساد کا ماسٹر مائنڈ کون ہے، جسے اس بات کی بھی پروا نہیں کہ پوری دنیا میں یہ مناظر حکومت کے ہی نہیں بلکہ ایٹمی طاقت پاکستان کی جگ ہنسائی کا سبب بن رہے ہیں۔ اسی انٹرویو میں ایک سوال کے جواب میں چودھری نثار نے دعویٰ کیا کہ ملا عبد الغنی برادر پاکستان کی جیل میں تھے تو وزیر اعظم نواز شریف نے انہیں افغان حکومت
کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا مگر میں نے رکاوٹ ڈال دی۔ اس الزام کا جواب ن لیگ کی قیادت کی جانب سے آنا چاہئے۔ مگر ابھی چند روز پہلے ہی مشاہد حسین نے انکشاف کیا ہے کہ اس سے پچھلے دور حکومت میں جب نواز شریف خاصے مضبوط اور بااختیار وزیر اعظم سمجھے جاتے تھے۔ایک روز پی ٹی وی پر خبر چل گئی کہ پاکستان نے ملا عمر مرحوم کی طالبان حکومت کو تسلیم کرلیا ہے۔ نواز شریف نے خبر دیکھ کر وزیر اطلاعات مشاہد حسین سے رابطہ کیا۔ وہ بھی لاعلم نکلے۔ مزید تحقیقات کیں تو پتہ چلا دفتر خارجہ کو ایک ادارے کی جانب سے ایسا کرنے اور پھر پی ٹی وی پر خبر چلانے کا کہا گیا تھا۔ سوال تو یہ ہے کہ اگر اس دور میں یہ حال تھا تو 2013 میں آگے پیچھے دھرنوں اور اداروں کے زبردست محاصرے میں چلنے والی حکومت اس طرح کا فیصلہ کیسے کرسکتی تھی۔ چودھری نثار نے یہ وضاحت بھی نہیں کی کہ کیا افغان صدر حامد کرزئی ملا برادر سے مذاکرات کرنا چاہتے تھے یا اپنے ہاں منتقل کرکے انتقام کی پیاس بجھانا مقصود تھا۔ فریقین کا موقف آنے تک معاملہ واضح نہیں ہوسکتا۔ ابھی حال ہی میں وفاقی وزیر شیریں مزاری نے شکوے کے انداز میں کہا ہے کہ امریکہ نے پاکستان پر دباؤ ڈال کر ملا برادر کو رہا کرایا پھر مذاکرات کیے۔ تو کیا مذاکرات کرنا ممنوعہ فعل ہے؟ چودھری نثار نے ایک دلچسپ بات یہ بھی کہی کہ وہ سیاست میں عبدالولی خان کو آئیڈیل مانتے ہیں۔اگر وہ اسفندیار ولی کا نام لے لیتے تو شاید اتنی حیرانی نہ ہوتی۔ اس”انکشاف“ پر اتنا تبصرہ ہی کافی ہے۔ چودھری نثار نے آصف زرداری کو اچھا انسان اور زیرک سیاستدان قرار دیا مگر اس کی جو وجہ بتائی وہ قابل غور ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایک سیاسی ورکر کے طور پر میں سمجھتا ہوں پیپلز پارٹی اپنے سیاسی کارڈز صحیح کھیل رہی ہے، ایک سیاستدان کو خاص کر سیاسی لیڈر کو اتنے ہی پاؤ ں پھیلانے چاہئیں جتنی چادر ہے بلکہ اس سے تھوڑے کم پھیلانے چاہئیں، پیپلز پارٹی اپنی سیاسی طاقت اپنے مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے پاؤ ں پھیلارہی ہے، میرا خیال ہے کہ موجودہ حالات میں سب سے بہتر سیاسی کارڈ کھیل رہی ہے،اس تبصرے سے واضح ہوگیا کہ چودھری نثار کو یقین ہے کہ پیپلز پارٹی مکمل طور پر اسی دائرے کے اندر رہ کر سیاست کررہی ہے جو غیر سیاسی قوتوں نے اس کے اردگرد کھینچ رکھا ہے۔ اس بات پر آصف زرداری کو شاباش یقیناً چودھری نثار جیسا ”مرد شناس“ ہی دے سکتا ہے۔ چودھری نثار نے وزیر اعظم عمران خان کو نیک نیت، اچھا انسان اور اچھا لیڈر قرار دیتے ہوئے کہا عمران جب سیاستدان نہیں صرف کرکٹر تھا اور دنیا میں اس کی شناسائی اور مقبولیت تھی اس نے اس وقت بھی مجھے بڑی عزت دی۔عمران خان یہ کہتے تھے کہ میرا سکول کے زمانے سے ایک ہی دوست ہے اور وہ نثار ہے۔میری اس کے بارے میں اچھی سوچ ہے جو آج بھی موجود ہیں۔چوہدری نثار نے کہا کہ میں پاکستان کا واحد سیاستدان ہوں جس کا عمران خان سٹیج پر چڑھ کر خواہ وہ دھرنے کا سٹیج تھا یا الیکشن سے پہلے انتخابی مہم، مجھے دعوت دی کہ آپ ہماری پارٹی میں آئیں، یہ ساری چیزیں میرے ذہن میں ہیں ”۔ چودھری نثار کو اگر واقعی عمران خان کے ان خیالات پر یقین ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ دونوں میں دو طرفہ محبت ہے۔ اپنی اگلی ممکنہ پارٹی کے قائد کو اچھا انسان، اچھا لیڈر اور نیک نیت قرار دئیے جانے کے بعد اب چودھری نثار بھی سابق چیف جسٹس ثاقب کے ساتھ ایک ہی لائن میں کھڑے نظر آتے ہیں جنہوں نے عمران خان کو صادق اور امین قرار دیا تھا۔ چودھری نثار کی جانب سے کی گئی اور باتوں پر بھی گفتگو کی جاسکتی ہے مگر وہ محض وقت کا زیاں ہوگا۔اس انٹرویو کے ذریعے بنیادی طور پر انہوں نے اپنے سابق قائد نواز شریف کا للکارا ہے۔مگر دوسرے کیمپ نے اسے اس قدر غیر سنجیدہ لیا کہ تبصرہ کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ سو یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے نواز دشمنی کی بنیاد پر سیاست چمکانے کی کوشش کی تو زیادہ پذیرائی ملنے کا امکان نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ چودھری نثار نے مسلم لیگ ن کو نہیں چھوڑا بلکہ مسلم لیگ ن کی قیادت نے انتہائی سرد رویہ روا رکھنے کے بعد ان کے لیے اپنی پارٹی کے دروازے بند کردئیے – پی ٹی آئی میں چودھری نثار سے کیا سلوک ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ چودھری نثار کو اپنی جس خوبی پر ناز ہے وہ کئی قدم اور ان سے بھی آگے بڑھ چکے ہیں۔ کئی مرتبہ تو شاہ محمود، پرویز خٹک جیسے پرانے کھلاڑی بھی نئے پلیئرز کا مقابلہ نہیں کر پاتے۔ فواد چودھری،فیصل واوڈا، علی زیدی حتیٰ کے مراد سعید کے بھی افسروں سے براہ راست تعلقات ہیں۔حکمرانی کے لیے اسٹیبلشمنٹ کا پسندیدہ ترین ماڈل اب عثمان بزدار ہے۔ تاکہ جو کام جس وقت بھی کہا جائے وہ بغیر کسی اگر مگر اور چوں چراں کے ویسے ہی ہو جائے،یوں بھی زمانہ بہت فاسٹ ہوچکا ہے۔ چودھری نثار تو وزیر داخلہ جیسے اہم منصب پر براجمان ہوتے ہوئے بھی موبائل فون پاس نہیں رکھتے تھے۔ اب ذرا مسلم لیگ ن کی بے ڈھنگی پالیسیوں کا بھی ذکر ہو جائے۔ سو جوتے، وقفے وقفے سے سو پیاز کھاتے ہوئے ابھی تک کوئی پروگرام واضح نہیں۔ شہباز شریف اور حمزہ شہباز واضح طور منت ترلہ کرکے پرانی نوکریوں پر واپس آنا چاہتے ہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز آر یا پار کی بات کرکے ماحول گرماتے ہیں پھر طویل عرصے تک چپ سادھ لیتے ہیں۔ افغانستان کے متعلق عسکری حکام کی حالیہ بریفنگ کے بعد مسلم لیگ ن کے اکثر ارکان اسمبلی کو لگ رہا ہے کہ انہیں 2023 میں انتخابات میں کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اکثریت شدید پریشانی سے دوچار ہے اور پارٹی قیادت کی پالیسیوں کے حوالے سے مطمئن نہیں۔ کیا یہ عجیب نہیں مسلم لیگ ن نے ایک طرف تو مشاہد حسین،خواجہ آصف، رانا تنویر، اور اس طرح کے کئی ارکان کو نہ صرف کو ساتھ رکھا ہوا ہے بلکہ عہدے بھی دے رکھے ہیں اور دوسری جانب چودھری نثار جیسے تجربہ کار سیاستدان کو زبردستی نکال باہر کیا۔ کچھ اورنہیں تو نثار میں یہ صلاحیت تو تھی کہ مسلم لیگ ن کے مخالفین بالخصوص پیپلز پارٹی کی ڈٹ کر مخالفت کرتے تھے اور تابڑ توڑ جواب دیتے تھے۔ آج عالم یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کبھی غیبی اشاروں پر اور کبھی خود اپنے مزے کے لیے شریف خاندان کا مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں۔ بے شک چودھری نثار پر بلا اجازت اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں کا الزام تھا مگر قیادت مضبوط اور پالیسی واضح ہو تو اس طرح کی شخصیات پارٹی میں ہونے کے باوجود ایک کونے میں بیٹھ کر دہی سے روٹی کھانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتیں۔

e-paperNai Baat NewspaperNaveed ChaudhryPakistan