’’موم بتیاں‘‘!

گزشتہ کالم ’’ زنان پسند معاشرے‘‘ میں، میں نے اپنے معاشرے میں عورت کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے ایک واقعہ عرض کیا تھا، اِس ضمن میں مزید کئی واقعات عرض کیے جاسکتے ہیں، کئی عرض نہیں بھی کیے جاسکتے کہ بے شمار’’ موم بتیوں‘‘ کی ناراضگی کا اندیشہ ہے، پر ایک تازہ واقعہ ضرورعرض کروں گا، ابھی پچھلے دنوں لاہور کی ایک معروف شاہرہ پر ایک آنٹی نے اپنی گاڑی سے ایک موٹرسائیکل سوار کو ہٹ کیا، اُس کی موٹرسائیکل دور جاگری، وہ خود بھی گر کر بُری طرح زخمی ہوگیا، رش کی وجہ سے وہ آنٹی وہاں سے فرار نہ ہوسکی، اُسے مجبوراً گاڑی روکنی پڑ گئی، وہ زخمی کو دیکھنے کے لیے گاڑی سے باہر نکلی تو بے شمار لوگ جن میں اکثریت ’’مردوں‘‘ کی تھی زخمی نوجوان کو چھوڑ کر آنٹی کے اِرد گرد کھڑے ہوگئے، اُس سے پوچھنے لگے ’’تہانوں کوئی سٹ تے نئیں لگی؟‘‘… یہ سوال کرنے والے ایک ’’مرد‘‘ سے میں نے کہا ’’بھئی سوال تو کوئی ایسا کرو آنٹی جس کا جواب دے سکے‘‘ …یہ کیا فضول سوال تم کررہے ہو ؟ ،ایک اور ’’مرد‘‘ بولا ’’ آنٹی تسی جائو ایس زخمی نوں اسی آپے سانبھ لاں گے‘‘…سو آنٹی وہاں سے کھِسکنے میں کامیاب ہوگئی، …یہی کام کسی مردنے کیا ہوتا، اور اُس کے نتیجے میں کوئی خاتون یا آنٹی زخمی ہوگئی ہوتی تو لوگوں نے مار مار کر اُس مرد کا کباڑہ کردینا تھا، ساتھ ہی ساتھ اُس کی گاڑی کا بھی کباڑہ کردینا تھا، سو اب بھی اگر کچھ ’’ موم بتیاں‘‘ یہ ’’بڑھکیں‘‘ لگاتی پھریں اِس معاشرے میں عورت کی کوئی عزت نہیں، ایسی ذہنیت یا مائنڈ سیٹ کا ہم کیا کریں؟ ۔میں ایک سوال پوچھنے کی جسارت کرتا ہوں ’’ ٹک ٹاکرا‘‘ بن سنورکر مینار پاکستان اِس لیے گئی تھی لوگ وہاں اُس کی عزت کریں؟ اُس کے لیے دوپٹے اور چادریں لے کر آئیں؟ اوراُسے ’’باجی باجی‘‘ کہہ کر بلائیں؟۔ اِس واقعے کی ایک تحقیقاتی کمیٹی بنی ہے، اِس کمیٹی کو اِس اُٹھنے والے سوال پر بھی غور کرنا چاہیے کہ شیطانوں یا درندوں نے ’’میڈم ٹک ٹاکرا‘‘ کی بے عزتی کہیں اُس کی اپنی اجازت یا خواہش پر تو نہیں کی ؟۔ …دُکھ صرف اِس بات کا ہے کسی خاتون کی بے عزتی کے ایک دو واقعات ہوتے ہیں جس میں قصور وار کو گرفتار بھی کرلیاجاتا ہے، بلکہ اِس پریشر میں کچھ بے گناہوں کو بھی گرفتار کرلیا جاتا ہے، اِس کے باوجود ’’موم بتیاں‘‘ کو ٹھنڈنہیں پڑتی، وہ اِن واقعات کو بنیاد بناکر ملک کو بدنام کرنے کے مشن یا ایجنڈے پر نکل پڑتی ہیں، اِس ضمن میں سوشل میڈیا بھی اُن کا ہم نوا ہو جاتا ہے اور ہمارے لاغر حکمران سوشل میڈیا کی تاب نہ لاتے ہوئے کچھ بے قصور افسران کو تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے ہی فارغ کردیتے ہیں، کاش لاہور کی ڈی آئی جی آپریشن کوئی خاتون ہوتی، کم ازکم اِس واقعے پر اُسے فارغ تو نہ کیا جاتا، …بے حرمتی چاہے کسی مرد کی ہو یا عورت کی قصور وار کو اُس کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔ میں یہ سوچ رہا ہوں مینار پاکستان میں جو بدسلوکی ایک خاتون کے ساتھ بے شمار مردوں نے کی وہی بدسلوکی کسی مرد کے ساتھ بے شمار عورتوں یا ’’موم بتیوں‘‘ نے کی ہوتی معاشرے یا حکمرانوں کا ردعمل تب بھی ایسا ہی ہوتا جیسا ’’ میڈم ٹک ٹاکرا‘‘ کی حمایت میں ہوا؟ ۔…مجھے افسوس ہوتا ہے جب کسی قصور وار کو اُس کے کسی جُرم پر قانون کے مطابق سزادینے کے بجائے لوگ یہ مطالبہ شروع کردیتے ہیں ’’ اسے سرعام چوکوں میں پھانسی پر لٹکا دیں‘‘، یہ مطالبہ کچھ لوگ منہ چُک کے شاید اس لیے کرتے ہیں کہ یہ قصور یا جُرم خود اُن سے سرزد نہیں ہوا ہوتا، …مینار پاکستان پر ’’میڈم ٹک ٹاکرا‘‘ کی بے عزتی کی خبر جب نیوز چینل پر چل رہی تھی ایک صاحب مجھ سے ملنے آئے ہوئے تھے، صرف چند سیکنڈ پہلے وہ ایک خاتون کے ساتھ اپنی دوستی کا ایک بیہودہ سا واقعہ مجھے سنا رہے تھے، میرے ڈرائنگ رُوم میں بیٹھے ٹی وی پر یہ خبر سُن کر فوری طورپر اُنہوں نے بھی یہی مطالبہ کیا ’’اِن لوگوں کو چوکوں میں پھانسی پر لٹکا دینا چاہیے‘‘۔‘‘ …میں نے عرض کیا پھر اِس واقعے کی بھی تحقیقات ہونے دیں کہیں اِس میں بھی اگلی کی مرضی تو نہیں تھی ؟‘‘ … کچھ ’’موم بتیوں‘‘ نے کچھ عورتوں کی مادرپدر آزادی کی آڑ میں بے شمار مردوں کی جوبربادی یا بدنامی کی وہ انتہائی قابل مذمت اِس حوالے سے بھی ہے کہ مردوں نے اِس پر چُپ سادھ لی، اُنہوں نے سوچا ہوگا اِس ’’زنان پسند معاشرے میں کون اُن کی سنے گا ؟‘‘۔بے شمار واقعات ہیں جن میں کچھ عورتوں نے مردوں سے زیادتی یا زبردستی کی، مردوں نے بھی اِس پر مظاہرے یا احتجاج وغیرہ کئے ہوتے شاید کچھ ’’ موم بتیوں‘‘ کا چاکا اِس قدر نہ کُھلتاملک کی عزت سے وہ کھیلنے لگتیں،…یہ کیا بات ہوئی کوئی مرد کسی پارک سڑک یا گلی محلے میں کسی عورت کو چھیڑے تو آج کل ہماری خوفزدہ پولیس فوراً اور ضرورت سے کچھ زیادہ حرکت میں آجائے اور کوئی عورت یا لڑکی کسی مرد یا لڑکے کو چھیڑے وہ بے چارہ کسی فورم پر احتجاج بھی نہ کر پائے ۔نہ یہ سوچ کر ’’ون فائیو‘‘ پر کال کر پائے کہ ایسی صورت میں پولیس بھی اُس کا مذاق ہی اُڑائے گی… مینار پاکستان پر ٹِک ٹاکرا‘‘ کی چند درندوں نے بے عزتی کی اُس کے دوروز بعد باقاعدہ ایک پلاننگ کے تحت اِس واقعے کی آڑ میں پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے سوشل میڈیا نے جو طوفانِ بدتمیزی برپا کیا مجھ سے نہیں رہا گیا، میں نے اپنے ٹوئیٹر اور فیس بک وال پر لکھا ’’ پاکستان میں بسنے والے بیس کروڑ فرشتو خُدا کے واسطے چند واقعات کی آڑ میں ایک خاص پلاننگ کے تحت پاکستان کو دنیا میں بدنام کرنے کی سازشیں بند کرو‘‘ ،… میری یہ تحریر تصویر کا دوسرا رُخ دکھانے کے لیے بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئی، اُس کے بعد صرف مردوں نے ہی نہیں بے شمار خواتین نے بھی ’’ٹک ٹاکرا‘‘ کے بن سنور کر مینار پاکستان جانے کی مذمت شروع کردی… ہمارا قانون یا سسٹم بھی کچھ معاملات میں عورتوں کو غیر ضروری رعایت دیتا ہے، بے شمار لوگ لین دین میں اپنی بیگمات یا دوسری رشتہ دار خواتین کے چیک جاری کردیتے ہیں کیونکہ اُنہیں پتہ ہوتا ہے عورتوں کو اول تو کوئی گرفتار نہیں کرتا، کرے بھی  اُن کی ضمانتیں بہت جلدی ہو جاتی ہیں، ہمارے ایک کاروباری ڈی آئی جی نے اپنی بیگم کے جتنے چیک جاری کررکھے ہیں، اور جتنے’’ بائونس‘‘ ہوچکے ہیں، اُن کی تفصیل پھر سہی !!  

ColumnDaily-Nai-Baatdemandssocietywomen rights