لاہور میں مینارِ پاکستان کے پارک جسے سرکار نے گریٹر اقبال پارک کا نام دے رکھا ہے، وہاں چند روز پیشتر ایک نوجوان لڑکی کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے، اس کے بارے میں پورے ملک ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں بحث و مباحثے ہو رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں کسی خاتون کے ساتھ یہ قابل شرم واقعہ پہلی بار پیش نہیں آیا۔ پورے پاکستان کے شہروں، قصبوں اور دیہات میں جوان خواتین، چھوٹی معصوم بچیوں اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں، انہیں ظالمانہ انداز میں قتل کرنے اور انہیں اغوا کرکے فروخت کرنے کے واقعات تسلسل سے ہو رہے ہیں لیکن لگتا ہے کہ حکمران اور ریاستی اداروں کے کرتا دھرتا بے حس ہوچکے ہیں۔ ان کے لیے یہ روز مرہ کا معمول ہے، اس لیے وہ کسی ایسے قابل شرم واقعہ کا اس وقت تک سخت نوٹس نہیں لیتے جب تک میڈیا اور سوشل میڈیا پر کہرام برپا نہ ہوجائے پھر حکومت عوامی غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے میدان میں آجاتی ہے۔ وزراء جوشیلے بیانات جاری کرنا شروع کردیتے ہیں ورنہ ملک بھر میں روز ہی کئی گھناؤنے واقعات رونما ہوتے ہیں جن کا کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا اور نہ سفاکانہ اور دیگر جرائم کو روکنے کے لیے کوئی پالیسی تیار کی جاتی ہے۔ مینارِ پاکستان کے احاطے میں ہونے والے واقعہ کی بازگشت ابھی جاری تھی کہ لاہور میں ایک اور شرم ناک واقعہ کی ویڈیو سامنے آگئی ہے جس میں ایک اوباش نوجوان نے چنگ چی رکشے میں سوار لڑکی کے ساتھ بدتمیزی کردی۔ پھر ایک اور ویڈیو منظر آئی جس میں نوجوان کا جتھا ایک لڑکی پر تشدد کر رہا ہے اور عمر رسیدہ خاتون لڑکی کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔گریٹر اقبال پارک کیس میں سو سے زائد افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ پولیس نے ویڈیوز میں نظر آنے والے ملزمان سے متعلق اشتہار بھی جاری کردیا ہے۔ اس اشتہار میں عوام کو ملزمان کے بارے اطلاع دینے کی اپیل کرتے ہوئے یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ ملزمان کے بارے میں بتانے والے کا نام راز میں رکھا جائے گا۔ ادھر اگلے روز وزیراعلیٰ آفس میں اعلیٰ سطح کا اجلاس بھی ہوا۔ روایت کے مطابق اس بار بھی وزیراعلیٰ نے مینارِ پاکستان کے احاطے میں خاتون سے دست درازی اور لاہور میں پیش آنے والے بعض دیگر واقعات پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔ پنجاب حکومت نے فرائض میں غفلت برتنے پر ڈی آئی جی آپریشنز لاہور کو او ایس ڈی بنادیا ہے جبکہ ایس ایس پی آپریشنز اور ایس پی سٹی کو عہدوں سے ہٹادیا گیا اور ڈی ایس پی اور ایس ایچ او تھانہ لاری اڈہ لاہور کو معطل کردیا گیا ہے۔ گریٹر اقبال پارک کے پراجیکٹ ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر کو بھی معطل کردیا گیا۔لاہور کے واقعے پر وفاقی و صوبائی وزراء، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ کی قیادت اور دیگر مکاتب فکر کے حامل افراد نے بھی حسب معمول تشویش کا اظہار کیا اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان میں برسوں سے ایسا ہی ہوتا نظر آرہا ہے۔ ہر وزیر، مشیر، ترجمان اور معاون خصوصی اپنے اپنے انداز میں نوٹس لیتے ہیں، ٹی وی پر شکل دکھا کر اور
اخبار میں بیان چھپوا کر اپنا فرض پورا کردیتے ہیں۔ لاہور بلکہ پنجاب بھر میں جرائم کا گراف بڑھ گیا ہے، خصوصاً خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتی، ظلم و بریت کے ساتھ انہیں قتل کردینے کے جرائم غیرمعمولی طور پر بڑھ چکے ہیں۔ موجودہ حکومت جب سے برسراقتدار آئی ہے، پنجاب میں کئی آئی جی تبدیل ہوئے ہیں۔ سی سی پی اوز او ردیگر پولیس افسر تبدیل ہوئے لیکن بہتری آنے کے بجائے جرائم کی صورت حال سنگین سے سنگین تر ہوتی جارہی ہے۔ گریٹر اقبال پارک واقعہ کے پس منظر میں کئی پولیس افسر تبدیل کیے گئے ہیں، جب بھی کوئی سنگین جرم یا واقعہ ہوجائے تو چند پولیس اہلکاروں کو معطل کردیاجاتا۔ اس بارے میں بھی ایسا ہی ہوا لیکن پنجاب پولیس کے سربراہ کے بارے میں خاموشی اختیار کی گئی ہے۔میڈیا کے مطابق پولیس افسران کی معطلی کے پس منظر میں دیگر واقعات بھی شامل ہیں۔ چند روز قبل ایک صوبائی وزیر کا بھائی شادی کی تقریب میں قتل کردیاگیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب اور کئی اور اہم شخصیات اس تقریب میں شریک تھیں لیکن قاتل باآسانی اسلحہ لے کر تقریب میں بلاروک ٹوک آگیا۔ گریٹر اقبال پارک میں تشدد اور بدتمیزی کا نشانہ بننے والی لڑکی کی میڈیکل رپورٹ کے مطابق اس کے پورے جسم پرنیلگوں اور سکریچز کے نشانات ہیں۔ پورے جسم پر 13 نشانات واضح ہیں جبکہ درجنوں نیلگوں نشانات ہیں۔ متاثرہ خاتون نے ایس پی سٹی انویسٹی گیشن کے سامنے پیش ہوکر اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔ میڈیا کے مطابق گریٹر اقبال پارک میں سیف سٹی کے لگے ہوئے کیمرے بھی خراب نکلے۔ پولیس نے ملزمان پکڑنے کے لیے اقبال پارک انتظامیہ اور سوشل میڈیا کی فوٹیجز سے استفادہ کیا۔ کہا جارہا ہے کہ گریٹر اقبال پارک میں لگے کیمروں کے بارے میں انکوائری ہورہی ہے۔ اگر شہر میں لگے کیمروں کا جائزہ لیا جائے تو اصل صورت حال سامنے آجائے گی کہ کتنے کیمرے خراب ہیں اور انہیں ٹھیک کرنے کی جانب کوئی توجہ مبذول نہیں کی گئی۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ حکومتی اداروں نے اپنی کارکردگی بہتر بنانے اور عوامی مسائل کو بروقت اور درست انداز میں حل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی بلکہ جب بھی کوئی سانحہ رونما ہوجائے تو ڈنگ ٹپاؤ اقدامات کرکے معاملے کو ٹالنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ مؤقف اختیار کیا جاتا ہے کہ چند روز بعد لوگوں کی توجہ کسی اور طرف ہوجائے گی اور یہ معاملہ ٹھنڈا ہوجائے گا۔ اگر تھانوں اور عدالتوں کے ریکارڈز چیک کیے جائیں تو ایسے سینکڑوں افسوسناک واقعات ملیں گے جن کے رونما ہونے کے وقت حکمرانوں اور ریاستی اداروں نے روایتی پھرتیاں دکھائیں اور پھر معاملے کو فائلوں میں دبادیا گیا۔ کبھی کوئی ایسی پالیسی نہیں بنائی گئی کہ ایسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں یا ان کی تعداد میں خاطر خواہ کمی آجائے۔ دوسری جانب یہ بھی تشویش ناک ہے کہ ایسے شرمناک واقعات ایک تسلسل کے ساتھ کیوں رونما ہورہے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کی ذہنی پستی اور اخلاقی گراوٹ کی عکاسی کرتے ہیں۔ شہروں اور پبلک مقامات کو دیہات اور قصبوں کے مقابل محفوظ تصور کیا جاتا ہے مگر گریٹر اقبال جیسے پُرہجوم مقام پر نوجوانوں کے ایک گروہ نے جو شرمناک حرکت کی اس نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ دوسری جانب آزادی کا جشن منانے کے نام پر راہ چلتی خواتین سے جس دیدہ دلیری کے ساتھ بدتمیزی کی گئی وہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ لوگوں کے دل سے قانون کی گرفت اور سزا کا خوف ختم ہوگیا ہے۔ یہ سوچ بھی جرائم کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اوباش اور جرائم پیشہ افراد جانتے ہیں کہ وہ اگر پکڑے بھی گئے تو پولیس کو رشوت دے کر یا عدالتوں میں تگڑا وکیل کرکے سزا سے بچ جائیں گے اور کوئی بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ اگر محکمہ پولیس اور عدالتی نظام کو درست کردیا جائے اور ہر شخص کو یہ خوف ہو کہ کسی بھی جرم کے ارتکاب پر وہ سزا سے نہیں بچ سکے گا تو وہ کوئی بھی نازیبا حرکت کرنے سے پیشتر کئی بار سوچے گا۔ اس سے معاشرے میں جرائم کی تعداد میں واضح کمی ہوگی۔ وزیراعلیٰ نے سارا ملبہ پولیس افسران پر ڈال کر ان کے خلاف کارروائی تو کردی ہے مگر کیا اس سے معاملات درست ہوجائیں گے اور آئندہ ایسے شرم ناک واقعات رونما نہیں ہوں گے۔ ناگزیر ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے واضح پالیسی بنائی جائے۔ اداروں پر چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو مضبوط کیا جائے۔ اس کے علاوہ نظریاتی ابہام پیدا نہ کیا جائے۔