وطن عزیز ہی نہیں پورے خطے میں ایک غبار ایک دھول دھواں، بصارت ہی نہیں بصیرتوں کو بھی متاثر کرنے والا طوفان اُمڈا ہوا ہے۔ جس میں حقائق، افواہیں، سازشیں، نئی منصوبہ بندیاں زیر زمین بھی جاری ہیں اور ستم یہ ہے کہ اہل زمین آسمان پر ہونے والے مشوروں سے غافل ہیں۔ قدرت اپنا نظام چلانے میں بے باک ہے۔مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب ضیاء کے زمانے میں پاکستانی تو قطار میں لگے ہوتے اور ایک ہزار روپے میں غیر ملکی پناہ گزین شناختی کارڈ حاصل کر رہے تھے۔ واہگہ اور ایئر پورٹ پر دو نمبر ویزا والے بھی باقاعدہ عزت کے ساتھ منزل پر پہنچتے۔ کوئی غیر نہیں تھا یہ اپنے ہی متعلقہ ادارے تھے جو چند ہزارکے عوض وطن فروشی کرتے رہے۔ ظاہر ہے ان کو پوچھنے والا کوئی نہ تھا اور اگر کوئی تھا بھی تو اس کا دھیان دوسری سرگرمیوں کی طرف تھا۔ لہٰذا آج سیاسی اور علاقائی صور تحال پر تبصرہ کرنے والے بہت ہیں۔ میرا دل ہے کہ آپ سے دل کی بات مگر بیدلؒ کی زبانی کروں۔ قبلہ محمد صادق صاحب جو ہیں تو پٹھان تنولی مگر اپنے نام کے ساتھ خان نہیں لکھتے کہ خان کہنے بولنے اور بتانے میں گردن میں ایک غیر محسوس سا تفاخر پید اکرتا ہوا جھٹکا سا آتا ہے جو کہیں کبر کے علاقہ میں داخل نہ کر دے کیونکہ کبریائی صرف اللہ کو زیبا ہے۔
میری چھوٹی بیٹی وردہ فاطمہ نے ابن عربی سے ملاقات کرائی جبکہ قبلہ محمد صادق صاحب نے جو فہم قرآن و حدیث، تصوف، کشف کے حوالے سے میرے رہبر ہیں نے بہت سے مشاہیر سے ملاقات کرائی جن میں ابو المعانی میرزا عبدالقادر بیدل بھی شامل ہیں جو مغلیہ دربار میں ملازمت کرتے تھے ایک دن ایک دوست کے لیے تعریفی قصیدہ لکھ دیا۔ وہ قصیدہ چلتے چلتے شہنشاہ کے بیٹے کے پاس پہنچا اس نے پڑھ کر حیرت وخوشی کا اظہار کیا کہ یہ نگینہ ہمارے دربار میں موجود ہے پیغام بھیجا کہ میرے لیے بھی قصیدہ لکھیں بیدلؒ نے جواب دیا کہ میں قصیدہ خوانی اپنی مرضی سے اپنے دوستوں کی توکر لیتا ہوں لیکن شاہوں کی نہیں اور اگلے روز گھر سے ہی استعفیٰ بھیج دیا۔ جب کسی اللہ والے کے پاس بیٹھیں تو محفل میں عجیب نور ورنگ ہوا کرتے ہیں جتنی دیر بیٹھیں اور ذکر جاری ہو وہ قبولیت کی گھڑیاں ہوا کرتی ہیں۔ میں نے دیکھا کہ صاحب نظر و بصیرت، کشف و تصوف سے ملاقات کے بعد کثرت کی دوڑ میں سر پٹ دوڑنے والے باقاعدہ مویشی نظر آتے ہیں۔ چلیں پھر
قبلہ محمد صادق خان تنولی کی وساطت مرزا عبدالقادر بیدلؒ سے ملتے ہیں۔ بیدلؒ سے جن کے لیے مرزا اسد اللہ خان غالب نے کہا کہ
طرز بیدل میں ریختہ کہنا
اسد اللہ خان، قیامت ہے
اشعار فارسی میں ہیں ترجمہ حاضر ہے
بیدل راہ حمد ذات حق تجھ سے بمراحل دور ہے
خاموش کہ اس کی شان کا بیان الفاظ میں ممکن نہیں
………………
بیدل ؔ! کوئی عرش حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا
جب تک کہ خاک راہ احمدؐ مرسل نہ ہو
………………
ؑٓبیدل! عالم کی ایجاد سے پہلے ظہور احمدؐ کی امید ہے نور احد
نے مجھے (انسان کو) حلقہئ میم کے سائے میں رکھا
………………
دشمن کے گھٹنے ٹیکنے کو، عاجزی نہ سمجھو
آمادہئ دشمنی تفنگ کا بھی یہ انداز ہوتا ہے
………………
لالچی! محترم نہیں ہوتا
شرم آتی نہیں بھکاری کو
………………
جب چراغ تحقیق اس وادی میں نہیں ہے تو
یہاں کتنے ہی خورشید پیدا ہوں، تیرگی کم نہیں ہوگی
………………
خاکساروں سے منزل مقصود کا پتا پوچھو، اس
دشت میں راستے سے اچھا کوئی رہنما نہیں ہوتا
………………
بیدل اگر دشمن انکسار ظاہر کرے تو خوش نہ ہو
خمیدہ تلوار، خوں ریزی میں زیادہ کارگر ہوتی ہے
………………
اے بد صورت صاف دلوں سے تعریف کی امید نہ رکھ
خانہئ آئینہ میں اسباب خوشامد نہیں ہوتا
………………
بیدل! ستم کوشی سے مظالم ختم نہیں ہوتے
آبِ خنجر و شمشیر سے آگ نہیں بجھتی
………………
غیرت بے نیازی نے، لب سوال پر مہر لگا دی ہے
میں حاجت مند ہوں، لیکن گدا مزاج نہیں!
………………
مرا سوز دل رونے سے دور کیوں نہیں ہوتا
اگر پانی آگ کو بجھاتا ہے
………………
کوئی اس کام کی جرأت نہ کرے جو نہ کرنا چاہیے
گر اس بات کو جان لے کہ خدا
………………
زاہد تو بھی اپنی شمع غرور اطاعت جلائے رکھ
اس شبستان میں رحمت پروانہ وار شمع گناہ پر فدا ہے
………………
عنقا کی تلاش میں، اس طرح کہاں پہنچنا چاہتا ہے
کہ نہ تصور منزل واضح ہے، نہ مطلوب سے آشنائی
………………
خموشی میں، لفظ و معنی کی تفریق نہیں ہو سکتی
لیکن حرف سادہ منہ سے نکل کے دو پہلو ہو جاتا ہے
………………
دہر مقصود تیرے گریبان ہی میں ہے
بے خبر موج کی طرح ساحل پر کیوں سر پھوڑ رہا ہے
………………
میں نے فقر سے دنیا کو زیر قدم رکھا
لوگ جاہ پر تکیہ کرتے ہیں، میں ٹھکراتا ہوں
………………
سیکڑوں، پتھر اور قطرے، آئینے اور موتی بن گئے
حیف! مرے دل خانہ خراب کی حالت نہ بدلی
………………
میری خموشی، گفتگو سے زیادہ اثر رکھتی ہے
اور میری کمان تیر کی محتاج نہیں ہے
………………
اس کی تلوار کی کاٹ دیکھنے والی ہے
زخمی یوں پھڑ پھڑایا کہ مقتل گلستاں ہو گیا
………………
کوئی قطرہ ایسا نہیں، جس میں سیکڑوں سمندر نہ ہوں
کوئی ذرہ ایسا نہیں جو ہزاروں آفتاب نہ رکھتا ہو
………………
بیدل اسباب جہاں کی کوئی حقیقت نہیں ہے
زندگی خواب پریشاں سے زیادہ کچھ نہیں
………………
غم دنیا، خیال آخرت، داغ محرومی، دردِدل
اک پل کی زندگی کے کندھے پر دنیا بھر کا بوجھ رکھ دیا
………………
گفتگو تھی اختیار و جبر کی تحقیق میں
بندہئ مجبور بیدلؒ دم بخود سنتا رہا!
………………
تکلف بر طرف زہد و تقویٰ سے انکار نہیں مگر
میں بندہئ دردِ دل ہوں، دردِ سر نہیں چاہتا!
………………
میں نے ابتدا میں انتہا دیکھی، سحر شام محسوس ہوئی
ازل کا پردہ اٹھتے ہیں عدم کامنظر دیکھا
………………
کہا اک حرف تو نے زخم کہنہ ہو گیا تازہ
خدا رکھے نمک رکھتی ہے کتنا گفتگو تیری!
………………
تیرے ابرو کے دنبالے دل میں پیوست ہو گئے
تیری کمان بھی تیر کا کام کرتی ہے
………………
بیدل تو بھی صفائی قلب سے سراغ راز حاصل کر
سکندر نے حسن معنی کا نظارا چشم آئینہ سے کیا تھا
………………
لالہ داغ دار، گلاب گریباں چاک، بلبل نوحہ گر ہے
عبرت کے سوا، بہار کے پاس چمن کے لیے کچھ نہیں
………………
جب کسی دوست اور شخصیت سے شناسائی ہو جائے تو پھر دروازے باہر کے بجائے اندر کی طرف منکشف ہوتے ہیں جن کے کھلنے سے اپنے آپ سے ملاقات ہوجاتی ہے۔ اپنے آپ سے ملاقات صاحب نظر و تصوف و کشف سمجھتے ہیں کس سے ملاقات ہے۔ نہ جانے اتنے عظیم درویش شاعر کو ہمارے نصاب سے کیوں غائب کر دیا گیا۔ میری کوشش تھی کہ پہلے ان کے پیغام کی ایک جھلک اور پھر زندگی کے نمایاں پہلو آپ تک پہنچاؤں با ذن اللہ توفیق ہوئی تو باتیں ہوتی رہیں گی۔