افغانستان کے حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ دھماکہ خیز ہوتے جارہے ہیں۔ مثالی صورتحال تو یہ ہے کہ دو پڑوسی ممالک کے درمیان سرحدیں اور سکیورٹی انتظامات اس قدر مضبوط ہونے چاہئیں کہ ایک طرف کے حالات کا اثر دوسری جانب نہ پڑے۔ جیسا ہمارے اور ایران کے درمیان طویل سرحد ہے مگر کشیدگی کے اکا دکا واقعات ہی پیش آتے ہیں۔ بارڈر پار کرکے آنا آسان نہیں۔ ایرانی تیل سمیت چند دیگر اشیا سمگل ہوکر آتی ہیں تو یہی سمجھا جاتا ہے کہ دونوں طرف کے حکام کی رضا مندی سے ہی ایسا ہو رہا ہے۔ اب ایک اچھی پیش رفت کے طور پر افغانستان کے ساتھ ایران سے منسلک سرحد پر بھی آہنی باڑ لگانے کا عمل جاری ہے۔ افغان بارڈر پر اسی سے نوے فیصد تک کام مکمل ہوچکا۔ اس کے باوجود خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے طالبان اور افغان فورسز کے درمیان لڑائی میں شدت آتے ہی افغان عوام کی بڑی تعداد مہاجر بن کر پاکستان کا رخ کرلے گی۔ یوں ہم پر معاشی دباؤ تو آئے گا ہی مگر ساتھ ہی امن و امان کے مسائل بھی پیدا ہونگے۔ افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا بے مقصد نہیں۔ سب سے پہلے اس تاثر کو درست کرنے کی ضرورت ہے کہ امریکہ اور نیٹو اتحادی کوئی جنگ ہار کر نہیں جا رہے۔ بے تحاشا مالی اخراجات اور فوجیوں کی دیر تک اپنے وطن سے دور تعیناتیوں نے ملک کے اندر ایک بے چینی پیدا کردی تھی۔ سو بہتر سمجھا گیا کہ اب افواج کو واپس بلا لیا جائے۔ اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ جانے والے کھیل ختم کرکے سامان لپیٹ کر نکل گئے تو یہ انتہائی احمقانہ قسم کی خوش فہمی ہے۔ جن علاقائی مقاصد کے لئے افغانستان میں بیس سال تک فورسز رکھنا ضروری سمجھا گیا ان میں سے کئی تاحال پورے نہیں ہوسکے۔ غیرملکی افواج کے انخلا سے قبل ہی کوئی متبادل حکمت عملی تیار کرلی گئی ہوگی۔ اس کے بارے میں تمام چھوٹے بڑے اور علاقائی فریقوں کو درست اندازہ لگانا ہوگا تاکہ نقصانات سے بچا جاسکے۔سب سے پہلے تو یہ بات یاد رکھی جائے کہ نائن الیون کے بعد امریکی یلغار شروع ہوتے ہی افغانستان میں طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ نیٹو افواج کی افغانستان موجودگی کے دوران طالبان نے گوریلا کارروائیوں کے ذریعے مزاحمت کا سلسلہ جاری رکھا مگر اس کے بعد سے اب تک حکومت حاصل نہیں کر پائے۔ اس تمام عرصے میں امریکہ کے صرف 2400 فوجی دوران لڑائی مارے گئے جبکہ دس لاکھ سے زائد افغانوں کو خون میں نہلا دیا گیا۔ شاید کبھی کوئی ایسا واقعہ بھی پیش نہیں آیا کہ اتحادی افواج نے کسی مقام پر براہ راست حملہ کیا ہو اور شکست کھائی ہو۔اسی لڑائی کے مہلک اثرات پاکستان پر مرتب ہوئے اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ستر سے اسی ہزار پاکستانی لقمہ اجل بنے۔ ان بیس برسوں میں طالبان کی یہی بڑی کامیابی ہے کہ انہوں نے نہ صرف خود کو بلکہ اپنی تنظیم اور طاقت کو بھی برقرار رکھا۔ کامیابی سے گوریلا کارروائیاں کرتے رہے۔ امریکی فوج پورے افغانستان سے طالبان کے خاتمے میں ناکام رہی۔ اس بات کے بھی مصدقہ شواہد موجود ہیں کہ امریکی حکام نے افغانستان کے مختلف حصوں سے بھاری مقدار میں معدنیات نکالیں۔جن میں لیتھیم بھی شامل ہے۔ اس کے ساتھ جدید ترین ہتھیاروں کے کئی تجربات بھی کیے۔ایٹم بم کے بعد دنیا کا سب سے طاقتور بم (GBU-43/B)پاکستان سے منسلک سرحدی علاقے میں چلا کر نتائج دیکھے۔ ڈرون طیاروں کی تمام اقسام کو آزمایا۔ انٹیلی جنس کا نظام اتنا مربوط اور مضبوط تھا کہ جب پشاور میں آرمی پبلک سکول کے دلخراش واقعہ کے بعد امریکہ سے رجوع کیا گیا تو افغان سرزمین پر ہی ٹی ٹی پی کے سربراہ فضل اللہ کو ٹریس کرکے تین ساتھیوں سمیت ایک کار میں بھسم کردیا گیا۔ امریکہ اپنی جنگی مہم کے دوران افغان طالبان کی لیڈر شپ کو ختم نہ کرسکا تو اس نے ہی قطر میں طالبان کا دفتر کھلوا کر انہیں بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حیثیت دے دی۔ حقیت یہی ہے کہ امریکہ کی افغانستان میں موجودگی نے اس تمام عرصے کے دوران پورے خطے پر اثرات مرتب کئے۔ سابق سویت یونین اور اسکے ٹوٹنے سے الگ
ہونے والے ممالک روس اور وسط ایشیا کے ممالک وسائل اور صلاحیتیں رکھنے کے باوجود جاپان یا جنوبی کوریا نہیں بن سکے – چین کو خطرہ رہا۔ ایران کو بھی دھڑکا لگا رہا۔ پاکستان کے ساتھ جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔افغانستان سے امریکی انخلا کے مقاصد کیا ہیں۔ کیا وہ روس کی طرح شکست کھا کر بکھرنے جارہا ہے یا پھر ویت نام جیسی ہزیمت کا سامنا ہے؟ یقیناً ایسی صورتحال نہیں اور نہ ہی خطے میں امریکی دلچسپی میں کمی آئی ہے۔ سو معاملہ اتنا سادہ نہیں۔خدشات کے عین مطابق امریکی انخلا کے ساتھ ہی افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی شروع ہوچکی ہے۔ مگر اب 90 کی دہائی والا معاملہ نہیں۔ سعودی عرب اور پاکستان بھی یہ نہیں چاہتے کہ طالبان بزرو طاقت کابل پر قبضہ کریں۔افغانستان جیسے ملک میں وسیع البنیاد حکومت قائم کرنا آسان نہیں۔ طالبان پچھلی بار کی طرح اس مرتبہ بھی طاقت سے قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ امریکی بلکہ عالمی آشیرباد سے قائم ہونے والی اشرف غنی حکومت کے اندر بھی اختلافات ہیں۔اس پیچیدہ صورتحال میں یہ سمجھنا ہوگا کہ آخر امریکہ کیا چاہتا ہے؟ ایک بات تو طے ہے کہ اگر امریکہ نہ چاہے تو طالبان اقتدار پر قابض نہیں ہوسکتے۔ حکومت چلانے کے لیے کسی شہر یا مرکز میں موجودگی لازمی شرط ہے۔ امریکہ مخالفت کرتا رہا تو بمباری کرکے سب ملیا میٹ کرتا رہے گا۔ طالبان کو بھاگ کر پہاڑوں وغیرہ میں پناہ لینا پڑے گی۔ بھاگ دوڑ کر باقی سب تو ممکن ہے مگر حکومت نہیں بنائی جاسکتی۔ یہ بھی تو دیکھنا باقی ہے کہ کیا امریکہ واقعی افغانستان میں کوئی مضبوط حکومت یا امن وامان چاہتا ہے۔ اس وقت علاقے میں امریکہ کی سب سے زیادہ دلچسپی چین کے معاملات میں ہے۔ افغانستان میں اس سے پہلے یا اب جو بھی کھیل کھیلا جاتا ہے پاکستان پر اس کے براہ راست اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ہماری جانب سے سب سے زیادہ واویلا افغان مہاجرین کی آمد کی صورت میں ممکنہ طور پر پڑے والے معاشی دباؤ کے حوالے سے کیا جارہا ہے – یعنی عالمی برادری سے امداد مانگی جارہی ہے۔ امن امان کے حوالے سے بھی خدشات کا ذکر کیا جارہا ہے مگر اس میں وہ شدت نہیں۔ حالانکہ بدقسمتی سے دہشت گردی کا عفریت ایک بار پھر سے سر اٹھا رہا ہے۔ لاہور میں حافظ سعید کے گھر کے قریب دھماکے کے بعد سے وزیرستان میں مسلسل دہشت گردی کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ بلوچستان بھی زد میں ہے، داسو میں چینی انجینئروں کی بس پر حملے نے ایک بار پھر سے خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ اس سب کے باوجود ابھی تک امریکہ کا رویہ مناسب نہیں۔ امریکی وزیر خارجہ بھارت کا دورہ کرکے چلے گئے مگر پاکستان نہیں آئے۔ اطلاعات یہی ہیں کہ پاکستان پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ افغانستان میں بھارت کے کردار کو تسلیم کیا جائے۔ یقیناً یہ امریکہ کا اشارہ تھا جب پچھلے دنوں ازبکستان میں ایک بین الاقوامی تقریب کے دوران افغان صدر اشرف غنی نے وزیراعظم عمران خان کی موجودگی میں الزام لگا دیا کہ پاکستان نے دس ہزار جنگجو افغانستان میں داخل کردئیے ہیں۔افغان صدر کی اس اشتعال انگیز حرکت کے باعث پاکستان کی جانب سے تمام فریقوں کو اپنے ہاں مذاکرات کی میز پر بٹھا نے کا پروگرام بھی دھرا رہ گیا۔ لگتا یہی ہے کہ افغان صورتحال کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس آئی اور قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف کا دورہ امریکہ بھی زیادہ مفید ثابت نہیں ہوا۔ افغانستان کا اندرونی محاذ ابھی پوری طرح گرم نہیں ہوا مگر تمام پڑوسی ممالک نے تیاریاں شروع کردی ہیں۔ تاجکستان کی سرحد بھی روسی فوج اور ٹینک پہنچ چکے ہیں۔ ازبکستان الرٹ ہے۔ ایران نے شام اور عراق کی طرز پر افغانستان کے لیے بھی ایک ملیشیا تیار کرلی ہے۔ چین نے طالبان رہنماؤں کو اپنے ہاں مدعو کرکے بارڈر کو محفوظ بنانے اور ایسٹ ترکمانستان موومنٹ کو مدد فراہم نہ کرنے کا کہا ہے۔چینی حکام اسی طرح اشرف غنی کی حکومت سے بھی مکمل رابطے میں ہیں۔ چین میں یہ سوچا جارہا ہے کہ افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہوا تو اسکے اثرات سرحد پار تک آئیں گے۔اسلامی انتہا پسندی میں اضافہ ہوگا۔بیجنگ کو بجا طور خدشہ ہے کہ امریکہ فوجی انخلا کے باوجود افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھے گا اور حالات کی خرابی کو چین کے مفادات کو نقصان پہچانے کے لئے استعمال کرے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں شدید بدامنی پیدا ہونے کی صورت میں داعش، القاعدہ، ٹی ٹی پی جیسے گروہوں کو پنپنے کے لیے محفوظ ٹھکانے میسر آسکتے ہے۔لسانی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم شروع ہوگئی تو پڑوسی ممالک پر بھی اثر انداز ہوسکتی ہے۔ کیونکہ ایسے ہی ماحول میں عالمی شاطروں کو اپنی چالیں چلنے کا موقع ملتا ہے۔ اس حوالے سے مذموم ارادوں کو آشکار کرنے کے لئے اشرف غنی کا ایک بیان ہی جس میں ایک بار پھر پاکستان پر طالبان کی پشت پناہی کا الزام لگایا گیا ہے اور دعویٰ کیا کہ طالبان ’پنجاب کے کہنے پر‘ افغانستان میں جنگ کو طول دے رہے ہیں۔افغانستان کے حالات سے پاکستان متاثر ہوتا آرہا ہے۔ سرحدی علاقوں کے لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جنرل ضیا کا دور ہو یا جنرل مشرف کا راج عام پاکستانی ہی متاثر ہوئے۔ فوائد صرف حکمران اشرافیہ کے ایک محدود گروہ نے سمیٹے۔افغانستان تیسری مرتبہ گریٹ گیم کے لئے میدان بنا تو شاید اس مرتبہ حکمران طبقات بھی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ افغانستان میں خانہ جنگی ہی نہیں بلکہ کسی مستحکم حکومت کے قیام کے بھی علاقائی اثرات مرتب ہونگے۔ جو کسی کے لئے خوشگوار تو کسی کے لیے تلخ ثابت ہوسکتے ہیں۔ فی الحال تو یہ دعا کی جانی چاہئے کہ کوئی معجزہ ہو، اتفاق رائے سے جمہوری عمل کے ذریعے منتخب حکومت قائم ہو جائے اور دائمی امن آجائے۔ اس کھیل کا سب سے بڑا کھلاڑی اب بھی امریکہ ہی ہے۔ سو علاقائی شطرنج پر اس کی چالوں پر نظر رکھنا ہوگی۔ یہ بھی طے ہے کہ اب کسی کو بیٹھے بٹھائے کوئی سہولت نہیں ملے گی بلکہ اپنی اپنی بقا اور مفادات کے تحفظ کے لئے سب کو اپنے حصے کی“ قربانیاں“ دینا ہوں گی۔