پاک افغان تعلقات اور بھارت کا منفی کردار

بھارت کا منفی کردار پاک افغان تعلقات میں مسلسل رکاوٹ ہے پاکستان کی طرف سے ایک سے زائد بار دوطرفہ تعلقات بہتر بنانے کی تجاویز دی گئیں اقتصادی، دفاعی اور سلامتی کے حوالے سے تعاون بڑھانے اور درپیش چیلنجز کا مل کر سامنا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا لیکن کبھی مثبت جواب نہیں ملا بلکہ سرد مہری اختیار کی گئی حالانکہ مشترکہ مذہبی و ثقافتی اقدار کی بنا پر شمال مشرقی ہمسائے سے قابلِ رشک تعلقات ہونے چاہیے تھے لیکن یہ تعلقات عوامی سطح پر تو نظر آتے ہیں لیکن حکومتی سطح پر کہیں نظر نہیں آتے البتہ روسی انخلا کے بعد طالبان کے دورِ حکومت میں مختصر عرصہ کے لیے سرحدوں پر امن قائم ہوا لیکن جلد ہی دہشت گردی کا بہانہ بنا کر امریکہ نے چڑھائی کر دی اور ایک کٹھ پتلی حکومت بنا دی جسے افغان حریت پسندوں نے تسلیم کرنے کے بجائے امریکی جبر و غلبے کے خلاف بھرپور مزاحمت شروع کر دی جواب میں افغان صدر حامدکرزئی جیسے غیر مقبول چہروں نے اقتدار کے لیے بھارتی سازشوں کی حوصلہ افزائی کی جس سے افغانستان میں بھارت کو قدم جمانے کا موقع ملا لیکن اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت نے افغان سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو معاشی، اقتصادی اور دفاعی حوالے سے بہت نقصان پہنچایا جس سے پاک افغان تعلقات میں تلخی بڑھی۔
پاکستان نے روس یا امریکہ کی طرح سازشوں کے باوجود  افغانستان کے خلاف کبھی کوئی احمقانہ قدم نہیں اُٹھایا بلکہ ثبوت اور دلائل سے بھارتی چیرہ دستیوں کو بے نقاب کیا مگر حامد کرزئی جیسا شخص ہو یا اب اشرف غنی کی صورت میں اغیار کا کارندہ ایوانِ صدر میں فروکش ہو کسی نے پاکستان کے تحفظات دور کرنے کی کبھی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی بلکہ اپنے مسائل و ناکامیوں کا ذمہ دار بھی پاکستان کو قرار دینے کی روش اپنائی ماضی میں بھی پشتونستان اور بلوچ تحریکوں کو شہ دی اور اب بھی اپنی سرزمین استعمال کرنے کے لیے دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے لیکن اب حالات بدل رہے ہیں امریکی سیاسی مفاہمت کرائے بغیر چلتے بنے ہیں جس سے افغان حکمران خود کو بے یارومددگار تصور کرنے لگے ہیں بھارتی قونصل خانے بند ہونے سے آمدن کے ذرائع کم ہوئے ہیں لیکن لڑانے کے لیے بھارت کی طرف سے گولہ و بارود اور ہتھیار جہاز بھر بھر کر بھیجے جا رہے ہیں طرفہ تماشہ یہ کہ دوعشروں تک افغان فوج کی تربیت کے باوجود ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام ہے فوجی اہلکار لڑائی کے دوران مقابلے کے بجائے راہ فرار اختیار کرنے اور ہمسایہ ممالک میں پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں اسی بنا پر افغان حکومت عملاً کابل تک محدود ہو چکی ہے اشرف غنی اغیار کا کارندہ بننے کے بجائے اگر ہمسایوں سے تعلقات بہتر بناتے اور ملک میں سیاسی مفاہمت کی کوشش کرتے تو آج یوں بے یارومددگار نہ ہوتے لیکن ہنوز بھارت کے ہاتھوں کھلونا ہیں یہی پالیسی پاک افغان تعلقات بہتر ہونے میں رکاوٹ ہے۔
پاکستان میں افغان سفیر کی بیٹی سلسلہ علی خیل کے اغوا کی من گھڑت کہانی کو طوفان بنانے کی کوشش کی گئی مگر پاکستان نے کمال مہارت سے دو یوم میں ہی سچ و جھوٹ بے نقاب کر دیا۔ گھر سے نکلنے، ٹیکسیاں بدلنے اور قیام کرنے کی جگہوں تک کی تفصیلات جاری کر دیں۔ پھر بھی افغان حکومت نے عجلت میں سفیر کو واپس بلانے کا احمقانہ فیصلہ کیا حالانکہ اگر تفتیش میں عدم تعاون کی بات تھی تو وزارتِ خارجہ کے ذریعے تحفظات بتانے کا آپشن موجود تھا لیکن ایسا نہیں ہوا جس کا مطلب صاف شفاف تفتیش نہیں محض دباؤ ڈالنا ہے پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر بھارت دباؤ بڑھانا چاہتا ہے اِس سوچ میں افغان حکومت آلہ 
کار ہے اگر افغان حکومت کو پاکستان اتنا ہی کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے تو لگے ہاتھوں تیس لاکھ اپنے شہری بھی واپس بلا لیتے تاکہ پاکستان کی اقتصادیات اور معاشیات پر کچھ دباؤ کم ہوتا لیکن افغان حکومت کی ویسے تو رٹ نہ ہونے کے برابر ہے اسی لیے سفیر بلا کر دو مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ایک پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کیا جائے دوم پاکستان پر دباؤ ڈال کر طالبان کو سیاسی مفاہمت کرانے پر مجبور کیا جائے۔ حالانکہ جب طالبان کو مسلسل فتوحات مل رہی ہیں امریکہ و نیٹو کی جدید ترین ہتھیاروں سے لیس طاقتور افواج نکلنے پر مجبور ہیں تو طالبان کیونکر اشرف غنی کو تسلیم کرنے یا کسی کے دباؤ میں آ سکتے ہیں۔ اگر حامد کرزئی سیاسی مفاہمت کی مخالفت نہ کرتے اور اب اشرف غنی حکومت بھی دوحہ معاہدے کی طے شدہ شرائط کی پاسداری کرتے ہوئے قیدی طالبان کو رہا کرنے سے انکاری نہ ہوتی تو حالات یکسر مختلف ہوتے۔ مگر حامد کرزئی کی طرح اشرف غنی بھی ہر صورت بھارت کی خوشنودی چاہتے ہیں۔ یہی چالبازی سیاسی تصفیے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ کیونکہ طالبان داخلی و خارجی دونوں حوالے سے مکمل خود مختاری چاہتے ہیں لیکن افغان حکومت مالی مدد کی بنا پر بھارت و امریکہ کی چاکری ختم کرنے پر آمادہ نہیں۔
عیاں حقیقت یہ ہے کہ افغان قومی سلامتی کے مشیر حمداللہ محب بھارتی خفیہ ایجنسی را کا دوست ہے۔ یہ شخص پاکستان کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کا سرپرست اور شریکِ کار بھی ہے اور پاکستان کے خلاف مغلظات بکنے کی شہرت رکھتا ہے۔ اسی بنا پر پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے اِس شخص سے ملنے اور بات کرنے کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ افغان حکومت میں شامل اکثر چہروں کی بدزبانی کی وجہ پاک افغان تعلقات میں سرد مہری آ گئی ہے اور بھارت اِس سرد مہری کو تلخی میں بدلنے کے لیے کوشاں ہے۔ جس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ اول پاکستان دشمنی، دوم افغانستان کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں بھارت معاشی اور سیاسی طور پر زخم خوردہ ہے۔ اُس کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ضائع ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ بھارت اپنی ہزیمت کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیتا ہے اسی لیے افغان سفیر کی بیٹی کے اغوا کی جھوٹی کہانی کو سچ ثابت کرنے میں بھی مددگار بننے کے ساتھ سرد مہری کی فضا کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے بے سروپا الزام تراشی پر آ گیا ہے، مقصد دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا ہو۔
پاک افغان حکومتوں میں موجود سردمہری کے ایام میں بھی دونوں ممالک کی عوام میں روابط کم نہیں ہوئے۔ سپن بولدک پر طالبان حملوں کی وجہ سے بھاگنے والے آفیسروں سمیت چھیالیس اہلکاروں کو پاک فوج نے نا صرف محفوظ راستہ دیا بلکہ تحائف دے کر واپس افغانستان روانہ کیا لیکن اِس حسنِ سلوک کو بھی افغان حکومت جھٹلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ رواداری اور مہمان نوازی کے باوجود افغان نائب صدر امر اللہ صالح و دیگر تنقید کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے۔ اشرف غنی، امر اللہ صالح و دیگر اعلیٰ عہدیداروں کی نماز عید کی ادائیگی کے دوران راکٹ فائر ہونے کی ویڈیو سوشل میڈیا کی زینت بنی۔ اس میں این ڈی ایس کے سابق سربراہ امر اللہ صالح خوفزدہ نظر آتے ہیں۔ ویڈیو کی خفت مٹانے کے لیے بھی پاکستان پر الزام تراشی کرتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل کسی طور ایک ذمہ دار ہمسائے کے شایانِ شان نہیں۔  خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ اور موجودہ نائب صدر امر اللہ صالح 1971کی پاک بھارت جنگ کی تصویر شیئر کرتے ہوئے ٹویٹر پر طنزیہ جملے لکھتے ہیں۔ پاک افغان تلخی میں مزید اضافے کے لیے بھارتی وزارتِ خارجہ بھی دن رات بیان بازی میں مصروف ہے لیکن افغان قیادت کیوں حماقتوں کا سلسلہ ترک کرنے سے انکاری ہے؟ چین کی مشہور کہاوت ہے کہ گھر میں لگی آگ دور کے پانی سے نہیں بجھائی جا سکتی۔ لیکن افغان حکومت ہمسائے کو چھوڑ کر دیگر ملکوں سے تعاون طلب کر رہی ہے۔ حالانکہ دراندازی کرنے والے اُن سے مخلص نہیں بلکہ ایسے ملکوں کے اپنے مفاداتی اہداف ہیں جن کا شریک کار یا آلہ کار بن کر جنگ و جدل کا ماحول پیدا کرنا افغان عوام کے لیے سود مند نہیں۔ چین، پاکستان، ایران، امریکہ، روس اور ترکی سمیت کئی ممالک سے طالبان مذاکرات میں مصروف ہیں لیکن افغان حکومت کا بھارتی کردار کی موجودگی پر اصرار دونوں ممالک میں تعلقات کی ناہمواری کا باعث ہے۔

e-paperHameed Ullah BhattiNai Baat NewspaperPakistan