اسرائیل نے مشرقی مقبوضہ بیت المقدس میں شیخ جراح کے بعد سلوان کے علاقے ال بوستان سے فلسطینیوں کے گھر غیرقانونی طورپرگرا کر 15 بچوں سمیت 78 افراد کو بے گھر کردیا ہے۔اس کے علاوہ صیہونی حکومت نے "حی البستان” میں واقع تمام مکانات کو مسمار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اپنے گھر بچانے اور اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاج کرنے والے فلسطینیوں پر اسرائیلی فورسز نے شدید تشدد کیا اور ان پر ربر کی گولیاں برسائیں اور آنسو گیس کی شیلنگ کی جس سے چار فلسطینی زخمی ہو گئے اور سوشل میڈیا پر ’سیو سلوان‘ بھی ٹرینڈ کرنے لگا ہے۔ مقبوضہ بیت المقدس میونسپلٹی نے7 جون کو ال بوستان علاقے میں فلسطینیوں کے گھر گرانے کے احکام جاری کیے تھے اور 21 دن کی مہلت دیتے ہوئے کہا تھا کہ فلسطینی اپنے گھر خود گرائیں ورنہ حکومت یہ کام کرے گی اور اسرائیلی آباد کار تنظیم اس علاقے میں ایک مذہبی تھیم پارک بنانا چاہتی ہے۔
صیہونی حکومت کی بلدیہ یہودی سازی کے منصوبے کے تحت کافی عرصے سے حی البستان میں فلسطینیوں کے سیکڑوں مکانات کو مسمار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاہم مقامی آبادی کے دباؤ کی وجہ سے اس منصوبے پر عمل درآمد کو موخر کردیا گیا ہے۔حی البستان کی دفاعی کمیٹی کے ایک رکن فخری ابودیاب نے بتایا ہے کہ اس محلے میں فلسطینیوں کے 100 گھرانے آباد ہیں جنہیں ان کے گھروں سے بے گھر کیا جارہا ہے۔خودساختہ اسرائیلی ریاست کے ساتھ عرب ملکوں کے سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد سے فلسطینیوں کے خلاف صیہونیوں کے روئیے میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور آئے دن فلسطینیوں کے مکانات کو مسمار کئے جانے سے متعلق افسوسناک خبریں عالمی میڈیا پر دیکھنے اور سننے کو مل رہی ہیں۔
اس سے قبل مشرقی یروشلم میں شیخ جرح علاقے
سے بھی فلسطینیوں کو زبردستی نکالا گیا تھا۔اسی دوران اسرائیلی فوجوں نے پہلا حملہ مسجد اقصیٰ میں نماز کی ادائیگی کے دوران کیا اور دستی بموں کا بھی بے دریغ استعمال کیا۔ فلسطینی باشندے صہیونیوں کی مزاحمت کیلئے ڈٹ گئے تو ان پر مظالم کا سلسلہ اور بھی دراز کر دیا گیا۔ فلسطینیوں پر مظالم کے یہ روح فرسا مناظر مقامی اور عالمی میڈیا کے ذریعے پوری دنیا نے دیکھے۔ ترکی اور ایران کا اس پر فوری ردعمل سامنے آیا۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے فلسطینی صدر محمود عباس اور حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور اسرائیلی حملے کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے اس حملے کو صرف مسلمانوں ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت پر حملے کے مترادف قرار دیا جبکہ اسرائیل کے اس سفاکانہ اقدام پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئٹرس بھی خاموش نہ رہ سکے جنہوں نے اسرائیلی حکام کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کی اور کہا کہ تمام قیادتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دہشت گردی کیخلاف کردار ادا کریں۔ انہوں نے اپنے جاری کردہ بیان میں اسرائیل پر زور دیا کہ وہ انہدام اور بے دخلی کے عمل کو بین الاقوامی انسانی قانون اور انسانی حقوق کے قوانین کی روشنی میں روک دے۔ اسی طرح اسرائیلی فوجیوں کی اس جنونیت کا امریکہ‘ روس‘ یورپی یونین اور خلیجی ممالک کے بعض سفیروں نے بھی نوٹس لیا اور اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ ایسے اقدامات سے گریز کرے جس سے مسلمانوں کے مقدس ماہ کے دوران صورتحال مزید خراب ہو جائے۔
اسرائیل فلسطین، مسجد اقصیٰ اور غزہ میں ظلم، جبر، قتل و غارت گری اور جنگی جرائم کی انتہا کو پہنچ گیاہے۔ اسرائیل ناجائز، شریر اور انسانیت کے ماتھے پر بدنما داغ ریاست ہے۔اسرائیل کے ناسور کا خاتمہ ہی عالمی امن کے لیے ناگزیر ہے۔پورے ملک میں اسلامیان پاکستان فلسطینیوں کے پشتی بان اور صیہونیت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں جبکہ مسلم حکمران بیانات، ٹیلی فون اور بے روح اجلاس کرنے پر ہی محدود ہیں۔کشمیر، فلسطین، افغانستان، شام اور یمن کے مسلمانوں کا حق ہے کہ ملت اسلامیہ متحد ہو جائے۔بے حسی، نمائشی سرگرمیاں اور بزدلی ترک کریں اور پوری امت کو اسرائیل، بھارت اور امریکی صہیونی سامراج کے خلاف متحد کر کے عالمی امن کے قیام اور مظلوم مسلمانوں کو ظلم سے نجات دلانے کے لیے ایکشن پلان بنائیں۔ امریکہ اندرونی اور بیرونی طور پر اسرائیل کا سرپرست اور بھارت کی پشتی بانی پر مامور ہے۔عالم اسلام کا اتحاد ہی تمام سامراجی اور مسلم و اسلام دشمن طاقتوں کو زیر کرسکتاہے۔ مسلم ممالک میں اقتصادی، جغرافیائی، انسانی صلاحیتوں اور قدرتی وسائل کا وسیع میدان موجود ہے۔مسلم دنیا کو کسی بیساکھی اور چاپلوسی کی ضرورت نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ہم مسلمانوں پر یہ حقیقت واضح فرمادی ہے کہ امریکہ، اسرائیل، انگلینڈ، فرانس وغیرہ کبھی مسلمانوں اور اسلامی ممالک سے خوش نہیں ہوں گے۔ یہ یہودی اور عیسائی صرف اس وقت خوش ہوں گے جب سارے اسلامی ممالک اور مسلمان اسلام چھوڑ دیں اور ان کے مذہب کے تابع بن جائیں۔ یہ لوگ مسلمانوں کے ساتھ جو معاہدے کر رہے ہیں وہ جھوٹے ہیں اور ان کی امن اور انسانیت کی باتیں دھوکہ ہیں۔اس آیت کی سچائی ہم اسلامی ممالک میں دیکھ سکتے ہیں کہ جہاں مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ اور نبی صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے بتائے ہوئے نظام کے بجائے یہودیوں اور عیسائیوں کے نظامِ حکومت اور قوانین کو اپنایا لیکن کیا وہ ہم سے خوش ہوئے؟ ہم نے عدالت، تعلیم، معیشت، میڈیا اور دیگر بنیادی شعبوں میں انہی کے بنائے ہوئے اصول اور طریقے اپنائے مگر وہ ہم سے راضی نہ ہوئے اور ان کے مطالبے بڑھتے گئے۔