مالی سال 2021-22 کے وفاقی بجٹ میں حکومتی آمدنی بڑھانے اور بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لئے جو اقدامات تجویز کئے گئے ہیں اور خوراک کی بعض اشیا، پٹرولیم مصنوعات اور چینی وغیرہ پر ٹیکسوں کی رینج بڑھانے اور نئے ٹیکس لگانے کی جو تجاویز دی گئی ہیں ان کو سامنے رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ عیاں اور نہاں، بالواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار سے مہنگائی جو پہلے سے اپنے پنجے بری طرح گاڑے ہوئے ہے اس میں اتنا اضافہ ہو گا کہ کم وسائل اور کم آمدنی رکھنے والے عوام الناس کے وسیع طبقات کے لئے اپنے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا محال ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو جائے گا اور ہر کسی کی حالت غالبؔ کے اس مصرعے کی عکاسی کر رہی ہو گی:
مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا
غالب جیسے عظیم اور حقیقت پسند شاعر کا حوالہ شاید اتنا مناسب نہ لگے لیکن غالب کا ہی کہنا ہے:
غم عشق گر نہ ہوتا، غم روزگار ہوتا!
تو پتا یہ چلا کہ غم روزگار سے بچنا محال ہے خاص طور پر جب ایسے کٹھن حالات میں شب و روز بسر کرنا پڑ رہے ہوں جہاں ضروریات زندگی کو پورا کرنا دن بدن کٹھن سے کٹھن تر بلکہ ناقابل اختیار و برداشت ہوتا جا رہا ہو۔ خیر اس صورت حال کو ذرا آگے چل کر دیکھتے ہیں پہلے وفاقی بجٹ برائے مالی سال 2021-22 کے کچھ دیگر پہلوؤں کا اجمالی سا جائزہ لیتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث جاری ہی نہیں بلکہ اس انداز سے آگے بڑھ رہی ہے کہ وزیر خزانہ اس بحث کو سمیٹنے کے ساتھ ان سطور کی اشاعت تک مختلف وزارتوں اور ڈویژنز کے مطالبات زر کی منظوری بھی مل چکی ہو گی۔ اس وقت تک بجٹ پر عمومی بحث کا یہ غیرمعمولی پہلو سامنے آیا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی اسمبلی کے علاوہ حکومتی ارکان اسمبلی بھی بجٹ میں اعدادوشمار کے گورکھ دھندوں سے نالاں اور انہیں سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ اگلے دن اٹک سے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کامیاب ممبر قومی اسمبلی میجر ریٹائرڈ طاہر صادق کی قومی اسمبلی میں بجٹ پر تقریر کا لب لباب بھی بجٹ کا ہی پہلو یا دوسرے لفظوں میں 2658 ارب روپے (وہ اسے تین ہزار ارب روپے کہہ رہے تھے) کا خسارہ تھا۔ وہ بار بار پوچھ رہے تھے کہ یہ خسارہ کیسے پورا ہو گا۔ کیا اس کے لئے ٹیکس لگائے جائیں گے یا مالیاتی اداروں سے بھاری قرضے لئے جائیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان غیرمنتخب مشیروں کے نرغے میں گھرے ہوئے ہیں۔ وہ انہیں غلط مشورے دیتے ہیں جس سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہی نہیں ہو رہا ہے بلکہ عوام کی تحریک انصاف کی حکومت سے ناراضگی بھی بڑھ رہی ہے جو ہمارے لئے کسی صورت میں حوصلہ افزا پہلو نہیں۔ وزیراعظم کو اس کا ادراک کرنا چاہئے۔
کہا جا سکتا ہے کہ حکومتی رکن قومی اسمبلی میجر ریٹائرڈ طاہر صادق نے پارٹی قیادت سے بوجوہ اپنی خفگی کی بنا پر مخالفانہ تقریر کر کے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑے ہیں۔ مان لیا ایسا ہو سکتا ہے لیکن دیکھنا ہو گا کہ جو کچھ کیا گیا ہے وہ کس حد تک غلط یا صحیح ہے۔ نئے ٹیکس لگائے یا پہلے ہی موجودہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کرنے سے مہنگائی جس نے پہلے ہی عوام النا س کی زندگیوں کو اجیرن کر رکھا ہے میں اضافے سے عوام الناس کا جینا دوبھر ہو جائے گا اور ایسی صورت حال وجود میں آئے گی جس کا ذکر شروع میں مرزا غالب کے مصرعے کا حوالہ دے کر کیا جا چکا ہے۔
مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا
بجٹ میں دیئے گئے اعدادوشمار کو سامنے رکھ کر کچھ اسرارورموز سے پردہ اٹھائیں اور درپیش حقائق اور منظرنامے کو سامنے لائیں تو پتہ چلتا ہے کہ مالی سال 2021-22 کے بجٹ میں 3060 ارب روپے کی بھاری رقم جو کل بجٹ کا 36 فیصد بنتی ہے قرضوں پر سود کی ادائیگی کی مد میں رکھی گئی ہے۔ اب بجٹ خسارہ جس کا اوپر ذکر آیا ہے اسے پورا کرنے کے لئے مزید قرضے لئے جاتے ہیں تو پھر آئندہ بجٹ کے وسائل کا قرضوں کی ادائیگی میں تخمینہ موجودہ 36 فیصد کے تخمینے سے بڑھ کر کہیں اوپر پہنچ جائے گا۔اب بجٹ میں ہر سال کل آمدنی کا تقریباً
36 یا 37 فیصد اگر قرضوں پر سود کی مد میں خرچ ہو جاتا ہے تو پھر باقی 63 یا 64 فیصد آمدنی جو بچتی ہے اس سے مملکت کے دیگر ضروری مصارف کیسے پورے کئے جا سکتے ہیں۔ بلاشبہ ملکی دفاع ایک ایسا معاملہ ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اس طرح دفاعی اخراجات ہماری ایک ایسی ضرورت یا دوسرے لفظوں میں مجبوری ہے جسے ہر صورت میں فوقیت دینا پڑتی ہے۔ دفاعی بجٹ میں پچھلے سال کے مقابلے میں صرف 44 ارب روپے کا اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ اس مد میں حتیٰ الوسع کفایت سے کام لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ سال 2020-21 کے دوران دفاعی بجٹ 11289 ارب پر منجمد رکھا گیا تاہم بعد میں نظرثانی کر کے اسے 1326 ارب روپے کر دیا گیا۔ 2021-22 کے لئے دفاعی بجٹ 44 ارب روپے کے اضافے کے ساتھ 1370 روپے رکھا گیا ہے جو کل بجٹ کا 16 فیصد بنتا ہے۔ دفاعی بجٹ کے حوالے سے یہ نئی بات بھی سامنے آئی ہے کہ دفاعی بجٹ کے لئے مختص 1370 ارب روپے میں سے 7 فیصد پاک آرمی اور 9 فیصد دیگر دو فورسز فضائیہ اور بحریہ کے لئے مختص ہو گا۔ اچھا ہے اس سے فورسز کے مابین کسی طرح کی بھی بداعتمادی یا بدگمانی سے بچا جا سکے گا۔
بجٹ کے دیگر بڑے مصارف میں صوبوں کو ادائیگی، وفاقی ترقیاتی بجٹ اور سول حکومت کے اخراجات شامل ہیں۔ صوبوں کو ادائیگی کی مد میں 1166 ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے جو کل بجٹ کا تقریباً 14 فیصد بنتی ہے۔ وفاقی ترقیاتی بجٹ کے لئے 900 ارب روپے مختص کئے گئے جو کل بجٹ کا 11 فیصد بنتا ہے۔ سول حکومت کے لئے 1479 ارب روپے کی رقم جو کل بجٹ کا تقریباً 6 فیصد بنتی ہے رکھی گئی ہے۔ اخراجات کی ان مدوں کے ساتھ اگر سود کی ادائیگی (کل بجٹ کا 36 فیصد) اور دفاع کے اخراجات (کل بجٹ کا 16 فیصد) وغیرہ کو ملا کر دیکھا جائے تو یہ کل بجٹ کا تقریباً 83 فیصد بنتا ہے۔ باقی بجٹ کا تقریباً 17 فیصد بچتا ہے جس سے دیگر مصارف پورے کرنا یقینا انتہائی مشکل ہی قرار دیا جا سکتا ہے لیکن یہ بھی اس صورت میں ہو سکتا ہے جب بجٹ میں کوئی خسارہ نہ ہو اور اخراجات اور آمدن برابر ہوں۔جب پہلے ہی اخراجات کا تخمینہ 8487 ارب روپے اور وصولیوں کا ہدف 5829 ارب ظاہر کیا گیا ہو اور 2658 ارب کا خسارہ پہلے سے موجود ہو تو ایسی صورت میں حکومت کے لئے ایک ہی چارہ کار رہ جاتا ہے کہ کہ وہ عیاں اور نہاں، بالواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکسوں میں اضافہ ہی نہ کرے بلکہ بھاری قرضے لے کر اپنے اخراجات پورے کرے۔ ہر سال بجٹ میں اسی طرح کی ”باریک کاریگریاں“ کی جاتی ہیں۔ اس سال بھی ایسا ہوا ہے بلکہ کچھ بڑھ کر ہوا ہے کہ ایک طرف پٹرولیم لیوی کی مد میں مزید 160 ارب بٹورنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تو دوسری طرف ہر گھرانے کے استعمال کی اہم ترین شے چینی پر پہلے سے عائد ٹیکسوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ خوردنی تیل اور گھی کی قیمتوں میں اضافے کی نوید بھی سامنے آ چکی ہے۔ ایک مؤقر قومی روزنامے کے مطابق پاکستان بناسپتی مینوفیکچرر ایسوسی ایشن نے وزیراعظم اور وزیر خزانہ کو خط لکھا ہے کہ فنانس بل 2021-22 میں نئے ٹیکسوں کے نفاذ سے یکم جولائی سے کوکنگ آئل اور بنا سپتی گھی کے نرخوں میں 13 سے 18 روپے فی کلو اضافہ ہو جائے گا۔ چینی مہنگی، گھی مہنگا، بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ، آٹے کی قیمت روز بروز بڑھتی ہوئی۔ ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں اضافہ آخر متوسط اور اس سے نچلی آمدنی کے طبقات کیوں کر گزارا کر سکیں گے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد اضافے کا لالی پاپ نچلے درجے کے ملازمین اور ریٹائرڈ سرکاری ملازمین جن کا شمار بزرگ شہریوں میں ہوتا ہے کو درپیش مشکلات اور مصائب کا مداوا نہیں ہو سکتا۔ درجہ 1 تا بیس کے سرکاری ملازمین کو کچھ ہی عرصہ قبل 25 فیصد مہنگائی الاؤنس دیا گیا ہے اب تنخواہوں میں 10 فیصد مزید اضافے سے ان کے اشکوں کا کچھ مداوا ہو سکتا ہے لیکن ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشنز میں صرف 10 فیصد اضافہ کچھ قرین انصاف نہیں ہے۔ کوئی تو ہو جو اس کے لئے آواز بلند کرے۔