وزیراعظم عمران خان کو حکومت برطانیہ کی بے اعتنائی کی وجہ سے اپنا دورہ برطانیہ یکدم منسوخ کرنا پڑا ہے… اس کے محرکات پر آگے چل کر قدرے تفصیل کے ساتھ بات کریں گے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ہمارے وزیراعظم خان بہادر عمران کو خارجہ پالیسی کے میدان میں تقریباً ہر اہم ملک کے ساتھ اعلیٰ سطحی تعلقات کے حوالے سے مسلسل سردمہری کا سامنا ہے… چین جیسے قریبی اور ہر طرح کے حالات میں کام آنے والے ملک کی کوئی بڑی اور قابل ذکر شخصیت موجودہ حکومت کے تین سالوں میں پاکستان کے دورے پر نہیں آئی… وزیراعظم عمران وہاں یقینا گئے ہیں… سعودی عرب کی جانب سے منہ موڑ دینے کے بعد ایک ارب ڈالروں سے زیادہ رقم کی امداد کا قضیہ درپیش تھا… کچھ سی پیک کے حوالے سے اس انتہائی قابل اعتماد دوست کے شکوک و شبہات دور کرنا مقصود تھے لیکن اس دورے سے پہلے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے وہاں پہنچ کر فضا ہموار کی اور یوں تعلقات میں قدرے خوشگوار نرمی پیدا ہو گئی حالانکہ سی پیک کا عظیم منصوبہ جتنی پاکستان کی ضرورت ہے اس سے کہیں زیادہ چین کے لیے اہمیت رکھتا ہے اس وقت اس منصوبے کو امریکہ اور یورپی ممالک کی جانب سے کئی چیلنج بھی درپیش ہیں… شاید امریکی دبائو کا ہی نتیجہ ہے کہ سی پیک کی رفتار میں خاصی کمی واقع ہو گئی ہے حالانکہ نوازشریف کے عہد میں یہ جس سرعت کے ساتھ تکمیل کے مرحلے طے کر رہا تھا اگر وہ جاری رہتی تو ہمارے خطے کے اندر ایک بڑے تجارتی اور معاشی انقلاب کی شروعات جنم لے چکی ہوتیں… چنانچہ چین کے ساتھ عمرانی دور حکومت میں ہمارے تعلقات خوشگوار ہونے کے باوجود پہلے کی مانند معیاری نہیں رہے… کم و بیش یہی صورت حال ہمیں سعودی عرب جیسے روزِاول سے پاکستان کے ساتھ روحانی، تجارتی اور معاشی روابط کو ہر لمحہ فروغ دینے والی صورت حال باقی نہیں رہی… نوازشریف کے ساتھ اس کی حکومت کے آخری دنوں میں تو اس لیے شکررنجی پیدا ہو گئی تھی کہ 2015 میں ہماری پارلیمنٹ نے یمن کی قرارداد منظور کر ڈالی جس میں سعودیہ اور ایران کے درمیان یمن کے تنازع پر کسی قسم کی ممکنہ جنگ کی صورت میں غیرجانبدار رہنے کا عندیہ دیا گیا تھا لیکن 2018 میں جب عمران بہادر کو پاکستانی اقتدار کے سنگھاسن پر لا بٹھایا گیا تو پاک سعودی تعلقات کا گراف یک دم اوپر کی طرف جانا شروع ہو گیا… ہمارے نئے نویلے وزیراعظم ریاض اور جدہ گئے… پاکستان کا خزانہ خالی ہونے کا رونا باآواز بلند رویا… فوری مدد کے طالب ہوئے پھر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بھی جوابی دورے پر پاکستان آئے… حکومت کا خیال تھا کئی مشترکہ اقتصادی منصوبوں کی بنیادیں رکھ دی جائیں گی اور ادھار پر تیل تو بمقدار کثیر ملے گا مگر صرف ایک ارب ڈالر وہاں سے فوری طور پر عطا ہوا… ہمارے وزیراعظم صاحب امریکہ جانے لگے تو انہیں شاہی طیارہ فراہم کیا گیا لیکن واپسی کے سفر کے اندر معلوم نہیں جدہ کے اندر کس رنجش کو نمو ملی کہ پاکستانی وزیراعظم کو کمرشل فلائٹ پر واپس آنا پڑا… بڑی اللہ آمین کے بعد تعلقات کو قدرے بحال کرنے کی صورت پیدا ہوئی اور اس میں بھی آرمی چیف جنرل باجوہ نے آگے بڑھ کر سعودی حکمرانوں کو کچھ اطمینان دلایا تو وزیراعظم کا ایک اور دورہ ممکن ہوا… اس کے بعد اب کہیں جا کر وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر اور مالی امور پر وزیراعظم کے خصوصی معاون وقار مسعود خان نے اعلان کیا ہے کہ سعودی دوستوں کی جانب سے ڈیڑھ بلین ڈالر سالانہ کے حساب سے ادھار پر تیل ملنا شروع ہو جائے گا… جب ان سے سوال کیا گیا کہ وعدہ تو آپ سے تین بلین ڈالر سالانہ کے ادھار تیل کا ہوا تھا تو جواب ندارد…
اس حقیقت سے تو پاکستان کا بچہ بچہ واقف ہے کہ جب سے امریکہ میں جوزف بائیڈن انتخابات جیت کر وہاں کے عہدہ صدارت کے منصب پر فائز ہوئے ہیں انہوں نے پاکستانی وزیراعظم کے ساتھ
ٹیلی فون پر رسمی گفتگو کرنا بھی گوارا نہیں سمجھی… اسی پر اکتفا نہیں امریکہ کے وزیر خارجہ، وزیر دفاع یا بائیڈن حکومت کے کسی بھی قابل ذکر نمائندے نے ہمارے وزیراعظم کو کسی بھی مسئلے پر اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی حالانکہ پاکستان کے آرمی چیف اور دیگر فوجی عمائدین کے ساتھ ان کے روابط مسلسل جاری ہیں… شاید ان کے نہاں خانہ دماغ میں یہ خیال راسخ ہو چکا ہے کہ پاکستان میں اصل اختیارات کے مالک عسکری قوت کے حامل ارباب بست و کشاد ہیں… عمران کی حیثیت محض سویلین شو پیس کی ہے… اب جو افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا مکمل ہونے والا ہے… اس حوالے سے واحد سپر طاقت کو ایک مرتبہ پھر پاکستان کی جانب سے سٹرٹیجک تعاون کی ضرورت آن پڑی ہے وہ ہماری سرزمین پر باردگر فوجی اڈے کے بھی طالب ہیں مگر اپنی یہ ڈیمانڈ بھی انہوں نے پاکستان کے فوجی حکام کے سامنے رکھی ہے… اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے بلاشبہ جرأت گفتار سے کام لیتے ہوئے ایک امریکی ٹیلی ویژن کو انٹرویو کے دوران دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے امریکہ کو کوئی خفیہ یا ظاہری اڈہ دینے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا… بلاشبہ یہ ایک اصولی مؤقف ہے جو ہماری حکومت کے سربراہ نے اختیار کیا ہے اس پر الفاظ اور روح کے ساتھ عمل درآمد بھی ہونا چاہیے لیکن پاکستان کی سٹرٹیجک ہسٹری اور گزشتہ افغان جنگوں میں ہمارے کردار پر گہری نظر رکھنے والے صاحبان بصیرت کا کہناہے کہ 9/11 کے فوراً بعد پاکستان کے چوتھے فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے غیرمشروط تعاون کے ساتھ ملک افغاناں پر جن حملوں کا آغاز کیا گیا تھا اس وقت ڈرون حملوں کے لیے جو 20 سالہ معاہدہ طے ہوا تھا اسے ابھی تک برقرار سمجھا جا رہا ہے اور شاید امریکہ اعلان کیے بغیر اس کی بنیاد پر ہمارے کسی اڈے کو خفیہ طور پر دوبارہ استعمال نہ کرنا شروع کر دے چونکہ اس مسئلے کو پاکستان کی پارلیمنٹ میں زیربحث نہیں لایا گیا لہٰذا آگے جا کر کئی قسم کے خدشات جنم لے سکتے ہیں تاہم اس ضمن میں اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ 2012 میں ہماری پارلیمنٹ نے باقاعدہ ایک قرارداد کے ذریعے خط تنسیخ پھیر دیا تھا لہٰذا خفیہ اڈوں کا وہ معاہدہ جس کا ان دنوں ذکر کیا جاتا ہے اب مؤثر نہیں رہا بلکہ ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے اسے کالعدم قرار دیا جا چکا ہے… وزیراعظم کا اصولی بیان سامنے آنے کے بعد ضروری ہو گیا ہے کہ اب اس مسئلے کو پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پوری شرح و بسط کے ساتھ زیربحث لایا جائے اور تمام جزویات کے ساتھ پاکستانی مؤقف کا کھلے الفاظ میں اعادہ کیا جائے… جناب عمران خان نے واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے اپنے حالیہ مضمون میں امریکیوں کے اس ارادے کا بھی ذکر کیا ہے کہ وہ فضائی بلندیوں سے کہیں اوپر (ABOVE HORIZONS) سے سرزمین افغاناں کے حالات کو کنٹرول کریں گے… لیکن اس کنٹرول کا نظام کہاں سے آپریٹ ہو گا اس کے بارے میں ابہام پایا جاتا ہے…
بات شروع ہوئی تھی ہمارے وزیراعظم کے دورہ برطانیہ کے اچانک منسوخ ہو جانے کی… پاک برطانیہ تعلقات کی تاریخ میں شاید کم ہی ایسا ہوا ہو کہ کسی پاکستانی سربراہ مملکت کے مجوزہ دورہ برطانیہ کے ساتھ وہاں کی حکومت کی جانب سے اس قدر بے اعتنائی کا سلوک کیا گیا ہو کہ ہماری جانب سے اس رویے کو توہین آمیز سمجھ کر پورے دورے کا پروگرام منسوخ کر دیا جائے… برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے ٹیلیفون پر اپنے پاکستانی ہم منصب کو وہاں پر ہونے والے کرکٹ میچ کو دیکھنے کی دعوت دی تھی… پاکستان کی جانب سے اسے فوری طور پر قبول بھی کر لیا گیا… ہماری حکومت کی خواہش تھی اور توقع بھی کی جا رہی تھی کہ پاکستان برطانیہ کے ساتھ تعاون، دوستی اور دوطرفہ تعلقات کا اسی طرح کا دس سال کا معاہدہ طے کرے گا جس میں تجارت اور دفاع پر خصوصی توجہ دی گئی ہو جیسا کہ گزشتہ مہینے برطانیہ اور بھارت کے درمیان طے پایا ہے لیکن لندن سے موصول ہونے والی معتبر خبروں کے مطابق برطانیہ ہمارے ساتھ ایسے کسی معاہدے پر آمادہ نظر نہیں آتا… ان کی جانب سے پاکستان کے وزیراعظم کو 8 سے 10 جولائی کے درمیان ہونے والے کرکٹ میچ کی دعوت دی گئی ہے جس کے بعد زیادہ سے زیادہ ٹین ڈائوننگ سٹریٹ پر ایک رسمی ملاقات ہو سکتی ہے لیکن وفود کی شکل میں پاکستانی حکومت کی خواہشات کے برعکس کسی قسم کے مذاکرات ہوں گے نہ کوئی معاہدہ زیرعمل لایا جائے گا… وزیراعظم عمران خان کی خواہش تھی کہ ویمبلے سٹیڈیم میں پاکستانی وزیراعظم کے لئے ایک استقبالیے کا انعقاد کیا جائے جہاں پاکستانی تاجر برادری اور برٹش پاکستانیوں کے ساتھ ملاقات کا اہتمام بھی کیا جائے… لیکن برطانیہ نے کورونا وبا کے پیش نظر ایسی کسی سہولت فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے… یوں پاک برطانیہ تاریخ کے انوکھے واقعے کے طور پر اس دورے کو منسوخ کرنا پڑا حالانکہ وزیراعظم کئی بار تاثر دے چکے تھے کہ ان کے برطانوی حکمرانوں کے ساتھ ایسے تعلقات ہیں کہ جب مناسب سمجھیں گے لندن پہنچ کر نوازشریف کو وہاں سے اٹھا کر پاکستان لے آئیں گے… اب یہ عالم ہے کہ جناب وزیراعظم کے لیے خود وہاں جانا ممکن نہیں ہو رہا… اس پورے تناظر پر نگاہ ڈالیے تو معلوم ہو گا کہ بھارت کے وزیراعظم مودی نے تو ان کے بار بار کے ٹیلیفون کے باوجود کسی قسم کی بات کرنا مناسب نہیں سمجھا وہ تو خیر دشمن ہے لیکن امریکہ جس کے ہم 70 سال سے اتحادی چلے آ رہے ہیں اس کے صدر نے بھی گھاس نہیں ڈالی… چین اور سعودی عرب کی حکومتیں پہلے ہی منہ موڑے بیٹھی ہیں اور اب برطانیہ جہاں عمران خان نے اپنی جوان عمر کا بہترین حصہ گزارا ہے… سابقہ سسرال وہیں پر ہے… بچے بھی وہیں نشوونما پا رہے ہیں اس کی حکومت نے بھی پرکاہ سے زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی… کیا کوئی پاکستانی کبھی اپنے وزیراعظم یا سربراہ مملکت کی اس حد تک ’’کامیاب‘‘ خارجہ پالیسی کا جو ہمارا منہ چڑاتی نظر آ رہی ہو تصور کر سکتا تھا…