اسد شہزاد
2021ء اپنی عمر کا آغاز کرچکا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ 2020ء ہمارے لیے جو لمحہ فکر چھوڑ گیا جو زخم دے گیا، وسوسوں، سوچوں اور پریشانیوں میں مبتلا کرگیا… یہی 2020ء اپنے پیچھے ان گنت مسائل، الجھنیں دے گیا،وہ پچھتاوے دے گیا جو 2020ء کیا آنے والے کئی عشرے بھی ان کو ختم نہ کرپائیں گے۔
پاکستان کا یہ 74واں ’’سالِ نو‘‘ ہے، اگر 73سالوں کے سالِ نو کو دیکھتا ہوں تو یوں لگتا ہے کہ ہم نے کبھی بھی گئے وقت سے اپنے ماضی سے اپنے حال سے کوئی سبق نہیں سیکھا، نہ ہم نے اپنے پچھتائوں کی تلافی کی نہ ہم نے زخموںکو بھرنے دیا۔ ایک زخم کے اوپر کئی زخم کھاتے گئے۔ بُری سے بُری روایت کو اپنایا ضرور ہے مگر کوئی اچھی بات زمانے اور حالات سے نہ لے پائے اپنے کیے جرم دوسروں پر ڈالتے رہے، اپنے گریبانوں میں کبھی جھانکا نہیں، جھوٹ کے اوپر جھوٹ کی عمارت کھڑی کرتے گئے۔ سچ کو کبھی بنیادوں میں نہیں بھرنے دیا۔لیاقت علی خان سے نواز شریف تک کتنے وزیراعظم آئے، ایوب خان سے پرویز مشرف تک کتنے ڈکٹیٹر براجمان ہوئے۔ یہ سب اپنی قسمت تو تار گئے مگر انہوں نے عوام کی قسمت کا بیڑہ غرق کردیا،ہم نہ اپنا دین بچا سکے نہ مذہب اور جو تھوڑی بہت تھی ہماری شناخت ہم نے کھو دی۔
پاکستان دنیائے اسلامی کا سب سے بڑا ملک جو ایٹمی قوت رکھتا ہے، آج اپنے ہی حال میں بے حال ہے۔ بے کفن اورمجبور ہے، لاچار ہے، ہم 1947ء سے پہلے والے حالات کی طرف دھکیل دیئے گئے، ہماری کوئی رٹ نہیں، ہمارا کوئی دعویٰ نہیں، اب یہ دھرتی بھی اپنی دھرتی نہیں لگتی۔ اپنا گھر اپنا نہیں لگتا، اپنا قانون قانون نہیں لگتا، جدیدیت کی آڑ میں بے شرمی، بے حیائی اور نفرتوں نے جگہ جگہ ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ یہ وہ معاشرہ ہے جس کے مرد کی اب کوئی شناخت ہیں جس کی عورت بے دوپٹہ، بے لباس، چوراہے پر کھڑی کر دی گئی ہے۔
2020ء میں جو حالات تھے اس سے بُرے حالات کا سامنا ہمیں 2021ء میں کرنا ہے، اپنی روایات کو پروان چڑھانا ہے جو اب ناسور بن کر ہمارے اندر ایک زہر بن گیا۔ ہمیں کسی بھی طرف سے خیرسگالی کی آواز سنائی نہیں دے رہی، ہمیں کسی طرف سے خوشی کی خبر نہیں مل رہی، تم خدایت کا بہت دعویٰ کرتے ہو مگر اس پاک دھرتی پر تم نے جو فساد ڈال رکھے ہیں ان کی ذمہ داری قبول کیوں نہیں کرتے ہو، تم یہاں تو سب کچھ کرلو گے مگر آخرت کا بھی کچھ سامان کرلو … جس کی یہ دھرتی ہے کائنات ہے آسمان ہے وہ تمہارا بھی خدا ہے ہمارا بھی خدا ہے توپھر سمجھ لو کہ تم تنہا رہ جائو گے وقت کا پہیہ چلتا رہے گا۔
ہم خدا سے خیر کی دعا ہی کرسکتے ہیں … بے شک تو ہی رحمتوں والا ہے اور یہ قوم تیری ہی رحمتوں کی طلب گار ہے۔ تُو ہی قوم کی اور ملک کی حفاظت کر، تُو ہی وہی معاف کر، تُو ہی مدد فرما، ہم تجھی سے مانگتے ہیں تیرے ہی طلبگار ہیں۔
2020ء بھی بیت گیا … 2021ء کے چھوڑے ہوئے ورثوں میں اضافہ اور اضافہ کرتے کرتے 2020ء کے کھاتے میں بھوک، ننگ، تنگ، اجڑی زندگی، تباہیاں، بربادیاں، دہشت گردیانِ لہو ہی لہو، انسانیت کی تذلیل اور مایوسیاں ڈال گیا۔ 2021ء میں اپنی بارہ ماہ کی عمر کا آغاز کرچکا ہے۔ اگر 2020ء کی طرف لوٹ کر جاتا ہوں تو یہ بڑی تبدیلیوں کا سال تھا۔ 2020ء کیا دے گا یہ سوال ہر ایک کے کے ذہن میں ہے جبکہ حقائق یہ ہیں کہ یہ ہندسوں کا سال ہے۔ سن 1947ء سے سن 2021ء تک ہمارے عوام، ہماری دھرتی، ہماری قسمت کے ساتھ کیا کیا کھلواڑ نہیں ہوئے، جمہوریت کی آڑ میں ہندسوں کے کھیل میں سیاسی شاطرباز کھلاڑیوں اور ڈکٹیٹرز جرنیلوں نے اپنے مفادات، لالچ، اقتدار اور دولت کی ہوس نے ہماری تمام ان قربانیوں پر پانی پھیر دیا جو قائداعظمؒ نے آزادی دلاتے وقت دیں۔ حکمرانی کے تخت پر بیٹھنے والے سیاستدانوں نے فوجی حکمرانوں کے ساتھ مل کر ہمارا ایک بازو مشرقی پاکستان ہم سے الگ کردیا۔ یہ تو ایک بدترین مثال ہے۔ میں یہاں کس کس کا نوحہ پڑھوں، میں یہاں کس کس بربادی کا ذکر کروں، میں یہاں کس کس کے رونے روئوں، پہلے ہم برطانیہ کے غلام تھے۔ اب ہم امریکہ کے غلام ہیں، پہلے ہم پونڈز کے محتاج تھے اب بھوکی نگاہوں اور ہاتھوں میں کشکول پکڑے امریکی ڈالرز کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
2021ء کا سورج چڑھ چکا ہے۔ کیا ہو گا، کیا ہونے والا ہے؟ کب ہوگا؟ یہ سوال کوئی معنی نہیں رکھتے کہ پاکستان کے بارے میں 2021ء کوئی اچھے پیغامات کی علامت نہیں بنے گا کہ پھر سے انہی روایات کو نبھانا ہے جو پہلے سے ہوتا آرہا ہے۔
2020ء گزر گیا!
آہ ہماری آزادی کا ایک اور بدقسمت سال بیت گیا۔ اس جہان میں کون رہے گا، کون نہیں، پل کی کسی کو خبر نہیں مگر اتنی خبر ضرور ہے کہ 2020ء کی کڑیاں 2021ء کے ساتھ جڑی ہوئی نظر آئیں گی گو دوسری طرف دُنیا بدل رہی ہے کہ ہمیشہ بدلتی رہی، قدیم عرب کہا کرتے تھے کہ وقت کی تلوار ہر چیز کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔ زندگی انسان سے سمجھوتہ نہیں کرتی بلکہ آدمی کو زندگی سے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے اور جو وقت تیور کو نہ سمجھ سکے وہ اس کی خوراک بن جاتا ہے، دریا کی روانی کو روکا جائے تو وہ رواں رہتا ہے بپھرتا ہے اور پھر بکھرتا ہے۔ زمانہ خدا ہے اس لیے وہ برا نہیں ہوسکتا، وقت رکتا نہیں چلتا رہتا ہے صرف ایک عظیم ہستی کے لیے وقت کو روکا گیا رب تعالیٰ نے پیارے نبیﷺ کو معراج پر بلایا تھا اور پھر یہ وقت نبی پاکﷺ کا ہوگیا اور وہ چل پڑا اور اب تاقیامت چلتا رہے گا۔
جو لوگ وقت کا خیا ل نہیں کرتے خداتعالیٰ ان کے وقت سے برکت نکال لیتا ہے اور جو وقت کا احساس کرتے ہیں تو خدا تعالیٰ ان کے وقت میں برکت ڈال دیتا ہے۔ لگتا ہے کہ ہماری قوم کا وقت رک گیا ہے شاید اللہ تعالیٰ نے اس ایک وقت سے برکت نکال لی ہے یا شاید اس ل یے کہ ہمارے حکمران کمزور، بزدل اور نیک نیت نہیں تھے، ہمارے امریکی ریموٹ کنٹرولڈ یہ لیڈر وہی بولیاں بولتے ہیں جو ’’آقا امریکہ‘‘ بلواتا ہے، یہاں کون ہے جو بکا نہیں، کون ہے جو کمزور نہیں، کون ہے جو کرپٹ نہیں، کون ہے جو لیڈر کہلوانے کے قابل ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ ہماری وہ شناخت، وہ قومیت کہاں گئی جو 14اگست 1947کو ہمیں دی گئی تھی۔ … وہ جوش ولولہ کہاں گیا، وہ طاقت کہاں گئی جو قائداعظمؒ نے غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر پھر آزادی حاصل کی۔
2020ء میں ہمارے ساتھ کیا کیا کھلواڑ نہیں کھیلے گئے۔ فراڈ، شیطانیت، شرانگیزی، منافقت، حرس، ہوس، خودستائش، خودشناسی، قانون شکنی، فتنہ جوئی، الزامات، ظلم وجبر اور فراڈ پر مبنی یہ معاشرہ کس طرف دھکیل دیا گیا ہے کہ اس کی کوئی منزل ہی نہیں ہے۔ ماڈریٹ اور آزادی کے نام تک بے حیائی کے سب دروازے ہمارے گھروں کی طرف کھول دیئے گئے، پروگریسو اور سیکولر کے گائون پہننے والوں کے اندر کس قدر کھوکھلے ہو چکے ہیں کہ اب وہاں احساس نام کی کوئی بات ہی نظر نہیں آتی۔ وہ بے حس ہیں ان کے ضمیر مر چکے ہیں، ان کے درمیان رشتوں کا احترام ختم ہو کر رہ گیا ہے۔
2020ء گزر گیا، دنیا بدل رہی ہے، وقت بڑھتا جارہا ہے، انسانوں کے درمیان دوریاں بڑھتی جارہی ہیں، محبتوں کے فاصلوں میں بڑی دراڑیں پنہا ہو چکی ہیں، آنکھیں سونی ہیں دل خون کے آنسو رو رہا ہے، زبان پر التجا ہے بدھ سوکھ رہے ہیں سوکھے درخت کی مانند جسم کی ہریالی ختم ہو چکی ہے۔
2021ء بھی وہی تاریخ دہرائے گا یا اس سال کوئی بڑی تبدیلی آئے گی؟
اس سوال کو اگلے بارہ ماہ پر چھوڑ دیتے ہیں گو اس کا جواب 2020ء کی صورت میں ہمارے سامنے ہے مگر یہ الگ بات ہے کہ جہاں بے حس معاشرہ اور بے حس لوگ ہوں تو پھر کچھ نہیں بدلتا اور نہ پھر کوئی تبدیلی آتی ہے، یہ وہ معاشرہ ہے جہاں لوگ مرنا بھول گئے ہیں جہاں نفرتیں ہی نفرتیں ہیں، ہر طرف بہتا خون ہے، ہر طرف دکھ کی خبر ہے، ایک طوفانِ بدتمیزی برپا ہے، ایک سی مایوسی ہے تو پھر ایسے میں 2021ء سے کیا اُمید۔
٭…٭…٭