اسدشہزاد
زندگی کے بارے میں سوچا اور دیکھا جائے تو یہ صرف لمحوں کی کہانی ہے۔ ایک پل ہے تو دوسرے پل ختم … انسان زندگی اور موت کے درمیان ایک کھلونا ہے، جب تک اس کھلونے کا سیل چلتا رہے گا، یہ سانس چلتی رہے گی اور جب اچانک اس کا سیل جواب دے جائے گا تو یہ ختم۔ موت اٹل ہے، ہر ایک کو اس سے گزرنا ہے اپنے پیارے کے بچھڑنے کا غم ایک نہیں ہزاروں لوگوں کے لیے عمر کا روگ بن جاتا ہے۔ آج میرا بھی یہی روگ ہے کہ طاہر رئوف کا اچانک چلے جانا جس کے بارے میں کوئی یہ سوچ نہیں سکتا تھاکہ ہنستا مسکراتا، سب کو ملتا ملواتا، سب کو اکٹھا کرتا، سب کو ساتھ لے کر چلنے کا عزم لیے سب کے پاس جانا اور پھر اچانک پتہ چلے کہ وہ سب کو چھوڑ کراکیلا ہی لمبے سفر پر کبھی واپس نہ آنے کے لیے چلا گیا تو بہت دکھ ہوتا ہے۔ یہاں جب ان کے لیے کاموں، ان کی لکھی تحریروں کو دیکھتا ہوں تودل کو حوصلہ ہوتا ہے کہ وہ جسمانی طور پر تو میرے اردگردنہیں مگر روحانی طور پر وہ ہمیشہ کے لیے جب تک زندگی میرے ساتھ ہے طاہر رئوف بھی میرے ساتھ ہی ہیں۔
تیرا ہجر میرا نصیب ہے، تیرا غم ہی میری حیات ہے
مجھے تیری دوری کا غم ہو کیوں تو کہیں بھی میرے ساتھ ہے
میرے واسطے تیرے نام پر کوئی حرف آئے نہیں، نہیں
مجھے خوف دُنیا نہیں مگر تیرے روبرو میری ذات ہے
طاہر رئوف سب کے لیے دل، دریا اور سمندر تھے۔ ہنستا مسکراتا، بلند آواز میں پکارتا، لمحے میں کھنک انداز میں رعب کبھی خاموش چہرہ، کبھی خاموش لفظ کی طرح، مصب نظر وہ تو سکوت میں بھی قلم اور کاغذ کے ساتھ ہمکلام ہوتے تھے۔ آج سوچتا ہوں کہ وہ کس قدر عجیب انسان تھے کہ جب تک وہ حیات تھے سب جانتے کہ یہ طاہر رئوف ہیں اور جب وہ گئے تو ان کی زندگی پھر ان کے چاہنے والوں نے جس طرح ان کو خراج تحسین پیش کیا تو ایسے راز ہائے سربستہ ہوئے کہ یوں لگا شاید ان کے بچھڑنے کا اتنا غم نہیں جتنا ان کے چلے جانے کا دُکھ ہے۔
محبت کے بارے میں میرا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ محبت کوشش یا محنت سے حاصل نہیں ہوتی یہ عطا ہے، یہ نصیب ہے بلکہ یہ بڑے ہی نصیب کی بات ہے۔ زمین کے سفر میں اگر کوئی چیز آسمانی ہے تووہ محبت ہی ہے اور شاید طاہر رئوف محبت سے آشنا ہونے والا ایک انسان تھا جس نے ہر طرف اپنی محبت کے حسن کو حسین کررکھا تھا کہ آج ہر کوئی اس کے غم میں نڈھال ہے۔ ہر کوئی اس پر لکھ رہا ہے، ذیل کے کالموں میں ہم ان کے دوستوں، شاگردوں اور ان کے ساتھ صحافت کے طویل سفر ساتھ دینے والوں کے تاثرات دیئے جارہے ہیں،جنہوں نے ان کو خوب یاد کیا ان کی یہ باتیں ایک ریفرنس کے طور پر پیشِ خدمت ہیں۔
سینئر صحافی عطاء الرحمن طاہر رئوف کے بارے میں لکھتے ہیں کہ کیا ہنستی مسکراتی قہقہے لگاتی دوستوں کے ساتھ مذاق کرتی ان کے چہروں پر پریشانی کے آثار دیکھ کر دل و دماغ کی اتنی گہرائیوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتی زندگی تھی خود پریشان ہو جاتا دوستوں کے چہروں پر پھیلتی مسکراہٹوں کا متمنی ہوتا… سیاسی تبصروں اور تجزیوں میں کسی سے پیچھے نہ رہتا… ذاتی گفتگوئوں میں نہ کالم نگاری کرتے وقت اور نہ جوش خطابت کے عالم میں… نظریاتی پختگی میں کسی سے پیچھے نہ تھا… آئین کی بالادستی کو یقینی بنانا اس کی صحافت کا محور تھا… جمہوریت کے تسلسل پر آنچ آتی تو اس کے لیے راتوں کو سونا مشکل ہو جاتا… اس کی دھڑے بندی ذاتی نہیں نظریاتی تھی… یاروں کا یار تھا… دشمن اس کا کوئی نہ تھا… ان لوگوں کو معروضی تنقید کا نشانہ بنانے میں پیش پیش رہتا جو سورج مکھی پھولوں کی مانند چڑھتے سورج کو سلام کرنے میں دیر نہ لگاتے… خواہ ارباب قلم و صحافت ہوں یا میدان سیاست کے ابن الوقت کھلاڑی… ایک ہمہ جہت شخصیت تھی جو دیکھتے دیکھتے ہی ہاتھوں سے نکل کر ابدی راحت کی خاطر قبر میں جا کر لیٹ گئی… کئی برسوں سے ذیابیطس کا مرض لاحق تھا… ہمارے ساتھ اٹھتا بیٹھتا… عمومی طور پر پرہیز کی روش اختیار کرتا… میں کہ اس باب میں اس کے قبیلے کا رکن تھا… میری بدپرہیزی کا شہر کیا ملک بھر اور بیرونی دنیا کے دوستوں میں تذکرہ پایا جاتا ہے… رئوف طاہر اس سے خاص طور پر واقف تھا… کبھی کبھی بڑے خلوص کے ساتھ ٹوک بھی دیتا ’’سب چلتا ہے یار‘‘ میں لاپروائی سے جواب دیتا… وہ تفکر بھرے چہرے کے ساتھ خاموش ہو جاتا… پھر یوں ہوا اس برس کے آغاز پر میں اسی مرض یعنی تین دہائیوں سے چلی آنے والی ذیابیطس اور بے مثال بدپرہیزی کے شاخسانے کے طور پر دائیں پائوں کے عارضے کا شکار ہو گیا اس کا نتیجہ پائوں کی انگلی کو بھگتنا پڑا… دو ماہ ہسپتال میں پڑا رہا… رئوف طاہر کی بے چینی دیکھی نہیں جاتی تھی… ہسپتال کے چکر لگاتا… ہر دوسرے دن ٹیلی ٹیلیفون کرتا… گھر آ کر بستر پر دراز ہو گیا تو رئوف نے دوستوں کو ساتھ لے کر عیادت کی خاطر گھر آنا معمول بنا لیا… پھر اچانک ایک دن پروفیسر سلیم منصور خالد کا فون آ گیا کہنے لگے میں تو اسلام آباد آیا ہوں لیکن اچانک یہ جان گداز اور دل و دماغ کو ہلا کر رکھ دینے والی اطلاع ملی ہے رئوف طاہر کا انتقال ہو گیا۔
امجد اسلام امجد لکھتے ہیں کہ رؤف طاہر مرحوم سے بطور صحافی اور ایک ادب دوست قاری کے حوالے سے میرا ذاتی تعلق کم و بیش تین دہائیوں پر پھیلا ہواہے بقول اُن کے وہ اپنی طالب علمی کے زمانے سے میری شاعری کو پسند کرتے تھے اور اکثر اس کا اظہار اپنے کالموں میں بھی کرتے رہتے تھے لیکن اُن کی رحلت اس ذاتی حوالے اور صدمے سے کہیں زیادہ افسوس اور ذکر کی طلب گار ہے کہ اُن کے جانے سے ایک ایسا بیدار مغز،کمٹڈ، صاحبِ مطالعہ اور اپنے معاشرے کے لیے خوبصورت خواب دیکھنے والا شخص ہم سے جُدا ہوگیا ہے جس کے متبادل اب خطرناک حد تک کم ہوتے جا رہے ہیں۔
اُن کے جدہ قیام کے دنوں سے اب تک جب بھی ان سے ملاقات ہوئی ان کی محبت اور گرمجوشی میں کبھی کوئی کمی نظر نہیںآئی وہ جس بات کو حق اور صحیح سمجھتے تھے اس کی بہت ڈٹ کر حمایت اور وکالت کرتے تھے اور ایسے میں ان کا چہرہ سُرخ سے سُرخ تر ہوتاچلا جاتا تھا لیکن اگر مخاطب کے ساتھ اُن کا رشتہ احترام اور محبت کا ہوتا تو وہ بحث کے دوران یکدم خاموش ہوجاتے اور کوشش کرکے اِدھر اُدھر ہوجاتے اتفاق سے مجھے یہ منظر کئی بار دیکھنے کا موقع ملا ہے اور ہر بار وہ مجھے پہلے سے زیادہ اچھے لگے۔
اُن سے آخری ملاقات کوئی دو ہفتے قبل اخوت والے برادرم ڈاکٹر امجد ثاقب کے اُس برنچ میں ہوئی جو انھوں نے اخوت یونیورسٹی کی زیرِ تعمیر عمارات کے حوالے سے ترتیب دیا تھا حاضرین میں زیادہ تعداد پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والوں کی تھی جس میں ہر مکتبہ فکر کے دوست موجود تھے اور ہر کوئی اپنے اپنے نظریاتی موقف کی حمایت اور وضاحت میں بول رہا تھا۔
ایک صاحب نے گفتگو کے دوران میں پاکستان کے قیام اور دو قومی نظریئے کے بارے میں ایک ایسی بات کی جو مجھ سمیت ارد گرد بیٹھے بہت سے لوگوں کو بُری لگی لیکن اس سے پہلے کہ کوئی جواب میں بولتا قرآن پاک کی تلاوت سے پروگرام کا آغاز ہوگیا اور متعلقہ صاحب اُٹھ کر کچھ فاصلے پر جا بیٹھے۔ دو چار تقریروں کے بعد آخر میں مجیب الرحمن شامی کو دعوت خطاب دی گئی توانھوں نے باتوں باتوں میں بڑے نرم مگر مستحکم اندازمیںاس بات کا ایسا موثر جواب دیا کہ میں داد دیے بغیر نہ رہ سکا اور پاس بیٹھے ہوئے رؤف طاہر کی طرف دیکھ کر کہا کہ کیا ہی اچھا ہو اگر ہمارے میڈیا پر ہر شام کُڑک مرغیوں کی طرح لڑنے والے لوگ بھی برداشت اور تہذیب کا یہی رویہ اختیار کرلیں اور اختلافِ رائے کے باوجود ایک دوسرے کو وہ space دینا سیکھ لیں جو وہ اپنے لیے چاہتے ہیں تو بڑے سے بڑا مسئلہ بھی باہمی افہام و تفہیم سے حل کیا جاسکتاہے۔
اس پر رؤف طاہر نے اپنے مخصوص انداز میں سر ہلاتے ہوئے کہا ’’سر میڈیا پر ہونے والی یہ بحثیں مسائل کے حل کے لیے نہیں بلکہ حقِ نمک ادا کرنے کے لیے کی جاتی ہیں سو لوگ وہی ادا اور حلال کرتے ہیں دوسرے کو spaceتو وہ تب دیں اگر انھیں مخالفین سمیت اپنے ضمیر کی آواز بھی سنائی دے سکے‘‘۔
رؤف طاہر فطری طور پر ایک خواب دیکھنے والا آدمی تھا اس لیے اسے وہ شاعری زیادہ پسند تھی جس میں معاشرے کے اجتماعی خوابوں کو اپنے کلچر، تاریخ اور اخلاقی اقدار کے ساتھ آمیز کرکے پیش کیا جاتا تھا، ماضی کے ساتھ اس کی اس جذباتی وابستگی کی وجہ سے عام طور پر اُسے دائیں بازو کا ایک کٹر مذہبی مزاج کا رجعت پسند سمجھا جاتا تھا کہ اس کا زیادہ تر اُٹھنا بیٹھنا بھی اسی نوع کے لوگوں میں تھا مگر اس کے مزاج میں ہرگز وہ شدّت پسندی نہیں تھی کہ وہ اپنے نظریئے کے خلاف کہی جانے والی کسی بات کو بغیر سنے اور سوچے رد کردے۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ ’’رئوف طاہر کا انتقال ہوگیا۔‘‘ اندر ایک دیوارسی گری۔ دل ملبے تلے دبتا ہوا محسوس ہوا۔ یقین نہ آیا تو ڈرتے ڈرتے شامی صاحب کو فون کیا۔ غم سے بوجھل آواز نے سب کچھ کہہ دیا۔ ہمدم دیرینہ کی اچانک موت کا صدمہ ایسا تھا کہ اُن سے بات بھی نہیں ہوپارہی تھی۔ لرزتی انگلیوں سے میں نے سیل فون پر ر?ف طاہر کا نمبرملایا۔ آج اس کی گونج دار آواز کے بجائے، اس کے بیٹے آصف کی سسکیاں سنائی دیں۔ میں کیا پوچھتا اور وہ کیا بتاتا؟
جانے رئوف طاہر کو ایسی کیا جلدی تھی؟مانا اُسے اپنی رفیقہ حیات کے بچھڑجانے کا بہت غم تھا لیکن اس کا گھر کوئی ایسا سُونا بھی نہ تھا۔ ابھی تو معرکہ گرم تھا اور اس جیسے جانبازوں کی بڑی ضرورت تھی۔ جذباتی ہیجان کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو ایک ریاضت کیش صحافی کی قدرتِ زبان وقلم اس وقت جوبن پر آتی ہے جب وہ خود بڑھاپے کے منطقے میں داخل ہورہا ہوتا ہے۔ رئوف طاہر کی موت ایک ایسی ’’صحافت‘‘ کی موت بھی ہے جو پختہ کاری کے سارے مراحل طے کرکے بلوغت پاچکی تھی۔ یہ جنس بڑی تیزی سے نایاب ہوتی جارہی ہے۔ تیز پا برقی صحافت کی چکا چوند نے نوآموزوں کی توند تو بھردی ہے لیکن وہ جوہر نہ دے پائی جس سے رئوف طاہر بنتے ہیں۔
رئوف طاہر دھڑے اور دھڑلے کا آدمی تھا۔ عصبیت کی ننگی تلوار سے لیس، اپنے قبیلے کا جری سپاہی۔اس کی صحافت ایک تکون سے ترتیب پائی تھی۔ دل، دماغ اور قلم، مثلث کے تینوں کونے سختی کے ساتھ آپس میں جڑے تھے۔ جوجذبہ اس کے دل میں کسک پیدا کرتا، وہی اس کی شاخ فکر پر غنچہ بن کر پھوٹتا اور وہی اس کے الفاظ کو مہکار اور للکار دیتا۔ اس تکون کو اسلام، پاکستان اور جمہوریت بھی کہا جاسکتا ہے۔ رئوف طاہر منافقت اور دوغلے پن سے پاک تھا۔ بڑے بڑے نامور صحافی اور دانش ور لکھتے اور بولتے وقت، موسمی مصلحت کے تحت کبھی سفید اور کبھی سیاہ کی طرف لڑھکتے ہوئے بالعموم بیچ کی سُرمئی راہ پر چلتے رہتے ہیں۔ رئوف ان میں سے نہ تھا۔ اس کے ہاں بس دوہی رنگ تھے۔ سفید یا سیاہ۔
سعید آسی کہتے ہیں مجھے اپنی قلمکاری کی زندگی میں پہلی بار کالم لکھتے ہوئے اپنی کم مائیگی کا احساس ہوا ہے۔ دو دن تک اس ادھیڑبن ہی میں رہا کہ اپنے لڑکپن کے سجن رو?ف طاہر پر کچھ لکھتے ہوئے آغاز کہاں سے کروں۔ بے شک موت برحق ہے‘ کسی کی موت پر یقین نہ بھی آئے تو بھی اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے۔ ’’کل نفس ذائقہ الموت‘‘ ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور قدرت کی جانب سے یہ بے ثبات زندگی کا اٹل پیغام بھی ہے۔ پھر بھی رئوف طاہر کی ناگہانی رحلت پر اب تک یقین ہی نہیں آرہا۔ پیر کی صبح سب سے پہلے مجھے ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر کا مختصر سا پیغام وٹس اپ پر موصول ہوا‘ اس وقت میں دفتری کام کا آغاز کرچکا تھا۔ پیغام میں درج لفظ ’’رئوف طاہر‘‘ پر نظر پڑی اور اسے روٹین کا پیغام سمجھ کر نظرانداز کر دیا مگر دل کو دھڑکا سا لگ گیا‘ سو کچھ لمحے کے توقف کے بعد دل نے سارا پیغام پڑھنے پر مجبور کر دیا جس میں برادرم رئوف طاہر کے اچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر جانے کی جانکاہ خبر دی گئی تھی۔ دل میں بس اک ہوک سی اٹھی اور میں عملاً بے سدھ ہو گیا۔ جب یقین اور بے یقینی کی کشمکش شروع ہوئی تو ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر کو فون کرکے تصدیق چاہی۔ انہوں نے رندھے لہجے میں یہ کہہ کر تصدیق کی کہ رئوف صاحب کے بیٹے نے یہ خبر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی ہے۔ میں نے بے یقینی میں رئوف طاہر کے موبائل فون نمبر پر ڈائل کیا‘ بیٹے آصف رئوف نے کال اٹینڈ کی تو فوری طور پر نہ ان سے بات ہو پائی نہ مجھ سے۔ بس سسکیوں اور آہوں کا تبادلہ ہوا۔
نجم ولی خان کا کہتے ہیں کہ روف طاہر سے میری واقفیت اس وقت ہوئی جب میں نے ’خبریں‘ سے اپنی صحافت کا آغازکیا اور وہ ’نوائے وقت‘ میں رپورٹنگ کرتے اور ’جمہور نامہ‘ کے عنوان سے کالم لکھا کرتے تھے۔ مجھے ان کے کالم کی زبان، فصاحت، اس میں موجود بہائو اور روانی نے بہت متاثرکیا۔انہی دنوں میں پولیٹیکل بیٹ بڑے بھائیوں کی طرح محترم سلمان غنی کے پاس آ گئی تو رؤف صاحب سے رابطے کا ذریعہ اشرف ممتاز ہو گئے جو ان دنوں ’ڈان‘ میں تھے اور ان کے ساتھ ہی موٹرسائیکل پر کبھی نوابزادہ نصر اللہ کے ڈیرے،کبھی ماڈل ٹاؤن میں نواز شریف کے گھر خبرکی تلاش میں پہنچ جایا کرتے تھے۔ میں میجر (ر) طاہر کے ساتھ مل کر رپورٹنگ کررہا تھا، دوسری طرف’جنگ‘ میں پرویز بشیر تھے اور ماشااللہ ہیں،’پاکستان‘ میں نعیم اقبال ہوا کرتے تھے۔ نیوز ایجنسیز میں این این آئی سب سے اہم تھی اور وہاں خواجہ فرخ سعید نے ڈیرے لگالئے تھے۔ ہمارے ساتھ جو بہت متحرک ہواکرتے تھے وہ ’مساوات‘ کے چیف رپورٹر آغا افتخار مرحوم تھے یہ اس وقت کی سب سے اہم پولیٹیکل بیٹ کی لاہور جیسے اہم سیاسی شہر میں رپورٹنگ ہوا کرتی تھی۔ مجھے یہ کہنے میںعار نہیں کہ یہ سب کے سب اپنی اپنی فطرت کی نیرنگی کے باوجوددرویش تھے،جن کو یہ دُنیا لفافے کہتی ہے نجانے وہ کون تھے،کون ہیں اورکہاں ہوتے ہیں۔
رؤف طاہر ملنگ آدمی تھے، اپنی دھن میں مست۔ ہارون آباد ضلع بہاولنگر سے تعلق تھا اور وہاں اسلامی جمعیت طلبا کے ناظم تھے۔لاہور آئے تو نوازشریف کی محبت کے اسیر ہو گئے مگر ان پر یہ بات صادق آتی ہے کہ انسان جماعت اسلامی سے نکل جاتا ہے مگر جماعت اس کے اندر سے نہیں نکلتی، یعنی جو امانت اور دیانت سید ابوالاعلیٰ مودودی کے شاگردوں میں تربیت کے ذریعے رکھ دی جاتی ہے وہ میں نے ننانوے فیصد نکلتی ہوئی نہیں دیکھی۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ میری سیاسی سوجھ بوجھ بنانے میں اشرف ممتاز اوررؤف طاہر کی نوک جھوک نے اہم ترین کردارادا کیاسومیں اشرف صاحب کے ساتھ روف طاہر کی نماز جنازہ میں شرکت کے لئے جاتے ہوئے ان دنوں کویاد کر رہا تھا اور مجھے ان لوگوں سے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں جو صحافت کو محض بلیک میلنگ اور بدمعاشی کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں وہ اشرف ممتازکو دیکھ لیں اگروہ صحافت میںصداقت، دیانت اور توکل علی اللہ والے کسی حقیقی ولی اللہ کو دیکھنا چاہتے ہیں۔مجھے فخر ہے کہ میری یہ کمپنی رہی اور انگریزی محاورے کے مطابق انسان اپنی کمپنی سے ہی پہچانا جاتاہے۔
خورشید ندیم لکھتے ہیں کہ رئوف طاہر بھی چلے گئے۔لاہورمزیدویران ہوگیا۔ وہ چپکے سے بزمِ حیات سے اٹھ گئے مگر اداسی ہے کہ خاموش رہنے پر آمادہ نہیں۔ درد کی ایک لہر نہیں معلوم کب تک اس تنِ سوختہ میں تیرتی رہے گا۔شہرسنگ وخشت سے نہیں،مکینوں سے آبادہوتے ہیں۔ دروازے اور دریچے نہیں، یہ اُن سے جھانکنے والے پری رخ ہیں جن کی ایک جھلک دل میں شہر بسادیتی ہے۔ جب تک شمعِ حیات جھلملاتی رہتی ہے، اس شہرکے درو بام روشن رہتے ہیں۔ اس کا تعلق افتادِ طبع سے بھی ہے کہ آپ شہروں کو کیسے یاد رکھتے ہیں۔ کچھ فصیلوں تک محدودرہتے ہیں اور کچھ ان کے اندر جھانکتے اور پسِ دیوار مکینوں کو دیکھناچاہتے ہیں۔لاہورایک طلسم شش جہات ہے۔ اس کے در ودیوار اور عمارتیں بھی کم اہم نہیں۔ یہ سید علی ہجویری کی آخری آرام گاہ ہے،جو مرجع خلائق ہے۔ اہلِ تصوف کا مرکزِعقیدت۔ یہ قلعہ لاہورہے، برصغیر کے مسلم دورِ اقتدار کا محافظ۔ یہ بادشاہی مسجد ہے،مسلم شکوہ کی مظہراوراسلامی تہذیب کی امانت دار۔ یہ یادگارِ پاکستان ہے،جہاں اس خطے کی جدید تاریخ کا پہلا ورق رقم ہوا۔ یہ…خیر چھوڑیے،یہ داستان ایک کالم میں ختم ہو نے والی نہیں۔بتانا یہ ہے کہ لاہور کی عمارتیں بھی کم اہم نہیں‘ لیکن پھر وہی افتادِ طبع! لاہور میرے لیے ہمیشہ افرادکا شہر رہا ہے۔ عجب اتفاق ہے کہ میرے فکری سفر کاہرپڑائو لاہور ہے اور منزل بھی لاہور۔علامہ اقبال لاہور کے مکیں تھے۔ سید ابوالا علیٰ مودوی کا بسیرا یہیں رہا اور آخری ٹھکانہ بھی لاہور بنا۔ امام امین احسن اصلاحی کوبھی لاہور میں دیکھا۔ اس بیقراری کواگر قرار ملا تو لاہور میں، جب قدرت نے جاوید احمد غامدی صاحب کے در وازے پر لا کھڑا کیا۔ تینتیس سال سے یہیں پڑے ہیں اور کہیں اور جانے کا ارادہ بھی نہیں۔
صحافت سے پہلا تعارف بھی لاہور میں ہوا۔’’اشراق‘‘ میں لکھنا شروع کیا تومحترم مصطفیٰ صادق مرحوم نے‘وفاق‘ کے لیے لکھنے کو کہا۔ وہ ’’اشراق‘‘ کے مستقل قاری تھے۔مکرمی مجیب الرحمن شامی کوبھی پہلی بارجاوید صاحب ہی کے ہاں دیکھا۔ الطاف حسن قریشی اورشامی صاحب کا ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ میرے بچپن کے رومان کاحصہ تھا۔ پھر وہ وقت آیا کہ ’’زندگی‘‘ میں کالم لکھنے لگا۔ یہ 1990 ء کی دہائی کا قصہ ہے۔ یہیں پہلی باررئوف طاہرکو دیکھا۔دس بارہ برس پہلے اِس تعلق کااحیاہواجو آج تک قائم ہے۔ دل کا تعلق موت سے کہاں ٹوٹتا ہے؟ لاہور سے ایک بار پھر رشتہ استوارہوا تو ماضی کے تعلقات حوالہ بنے۔ کچھ کااحیا ہوا ا ور کچھ نئے تعلق وجود میں آئے۔’’دنیا‘‘ کا ادارتی صفحہ ایک پلیٹ فارم بنا جہاں زندگی کی گاڑی آکے ٹھہر گئی۔کئی مسافر آئے اور چلے گئے۔میں اور رئوف طاہر بھی مسافر ہی ہیں لیکن افتادِ طبع ایک جیسی پائی ہے۔رشتہ پلیٹ فارم سے بن جائے تو اسے منزل بنالیتے ہیں،الا یہ کہ خود منزل ہی گریزاں ہو۔ میں جب بھی لاہور گیا،کم ہی ایسا ہوا کہ رئوف طاہر سے نہ ملا ہوں۔میں فون پہ اپنے پہنچنے کی اطلاع دیتا توپہلی فرصت میں پہنچ جاتے۔ انکی خواہش ہوتی کہ اجتماعی ملاقات کی کوئی صورت نکل آئے۔اکثر یہ تمنا بر آتی۔ میں دل ہی دل میں ان کا شکریہ ادا کرتا کہ ان کے توسط سے بہت سے لوگوں سے ملاقات کی آرزو پوری ہوجاتی۔ محترم شامی صاحب کو ہمیشہ ایک مرکز کی حیثیت حاصل رہی۔ لاہور کی صحافت میرے لیے توشامی صاحب ہی کے مدار میں گھومتی ہے۔رئوف طاہر عمر میں مجھ سے کہیں بڑے تھے۔عمر ہی میں نہیں، اخلاق میں بھی بڑے تھے کہ مجھے بڑوں جیسااحترام دیتے۔ میں جانتا تھا کہ یہ معاملہ استحقاق کانہیں،ان کی محبت کا ہے۔
فاروق عادل کہتے ہیں کہ وہ مجھے ہمیشہ پورے نام سے مخاطب کرتے۔ عمر میں بڑے تھے، تجربے اور علم بھی لیکن ان کے رویے سے اس کا کبھی اظہار نہ ہوتا۔اُس روز ابھی ناشتہ میں نے نہیں کیا تھا کہ ان کا فون آیا، اپنی عادت کے مطابق پورے نام سے مخاطب کیا اور کہا:’’گزشتہ چالیس پینتالیس برس کے دوران میں جو کچھ میں نے لکھا ہے، وہ سب مجھ سے لے لو اور شاہ صاحب قبلہ سعود ساحر کا جو خاکہ تم نے لکھا ہے، مجھے دے دو’’.میرا خون سیروں بڑھ گیا اور کہا کہ رؤف طاہر بھائی، یہ جو دو چار ٹوٹے پھوٹے حروف ہم لوگ لکھ لیتے ہیں، آپ جیسے سینئرز اور بڑے بھائیوں کی تربیت کا نتیجہ ہے، خاموشی کے ساتھ میری بات سنی پھر کہا کہ درست کہتے ہو لیکن محنت بولتی ہے، وہ اس طرح جونیئرز کا حوصلہ بڑھاتے اور راہ نمائی کیا کرتے تھے۔ابھی کچھ دن ہوتے ہیں، موجودہ جمہوری جدوجہد کے تعلق سے میں نے کچھ لکھ دیا جس پر کئی احباب نے اعتراض کیا، بعض بزرگوں نے سخت لہجہ بھی اختیار کیا، شاید کسی کے تبصرے سے یہ تاثر بھی پیدا ہوا ہو کہ بات کہنے والا مقصد سے مخلص نہیں۔ فوراً دفاع میں آئے اور دو ٹوک لکھا کہ اختلاف جسے کرنا ہے، ڈنکے کی چوٹ پر کرے لیکن فاروق کی نیت پر شبہ کرنے کا حق کسی کو نہیں دیا جاسکتا۔ بحث کارخ ہی بدل گیا۔صبح ابھی اخبار میں نے نہیں دیکھا تھا کہ برادر محترم جاوید قریشی اور اس کے بعد عزیز بھائی ارشد ملک کے پیغامات نے جیسے روح قبض کر لی۔ واٹس ایپ کے پیغامات کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ’’لفافہ’’کھولنے سے پہلے ہی مضمون کا کافی حد تک اندازہ ہو جاتا ہے۔ بس، یہی وجہ تھی کہ دیر تک پیغام کھولنے کا حوصلہ نہ ہو سکا لیکن تفصیلات سے آگاہی بھی ضروری تھی، لہٰذا دل کڑا کے پیغام کھولا لیکن سچ یہ ہے کہ مکمل پڑھنے کا حوصلہ پھر نہ ہوا، رہ رہ کر خیال آتا کہ شہر جاناں میں اب باصفا کون ہے جو ہمارے جیسے پچھلی صفوں کے اہل قلم کی پشتی بانی کے لیے یوں سینہ ٹھونک کے کھڑا ہو جائے۔
سب سے زیادہ کورونا ویکسین لگانے والا ملک کون سا اور پاکستان کس نمبر پر ہے؟ حیران کن تفصیلات سامنے آ گئیں
خالد مسعود خان لکھتے ہیں کہ جو لوگ رئوف طاہر کو جانتے تھے وہ تو اسے جانتے ہی تھے جو نہیں جانتے وہ یہ جان لیں کہ لاہور چند روز پہلے ایک درویش صفت صحافی سے محروم ہو گیا ہے۔ میری اور رئوف طاہر کی نظریاتی اٹھان ایک ہی شخص سے جڑی ہوئی تھی۔ میرا رئوف طاہر سے پہلا تعارف مرحوم ذوالکفل بخاری کے توسط سے ہوا۔ تب ذوالکفل بخاری مکہ میں عربیوں کو انگریزی پڑھا رہا تھا اور رئوف طاہر جدہ میں اردو نیوز کے واسطے سے اردو کے پھولوں کی آبیاری کر رہا تھا۔ رئوف طاہر اپنے سعودی عرب کے اسی قیام کے دوران میاں نواز شریف سے راہ و رسم بنا بیٹھا اور پھر تا عمر اسے نبھاتا رہا۔
وہ دھڑے کا آدمی تھا۔ دھڑے کا آدمی اگر دھڑلے کا نہ ہو تو مزہ نہیں آتا۔ اس میں دونوں خوبیاں تھیں۔ شاید اسی وجہ سے میری جب بھی اس سے ملاقات ہوئی تکلف کا ایک پردہ سا درمیان میں رہا۔ میں میاں نواز شریف کا ناقد تھا اور وہ میاں صاحب کا صرف ممدوح ہی نہیں، متوالا تھا۔ لاہور میں رئوف طاہر سے میری ملاقاتوں کا بہانہ دوستوں کے بچوں کی خوشیوں میں شرکت کے طفیل چلتا رہا تھا۔ میری اس سے آخری ملاقات بھی ارشاد عارف کے بیٹے شاہ حسن کے ولیمہ کی تقریب میں ہوئی۔ میں ملتان سے سیدھا تقریب میں آیا تھا۔ تھوڑی تاخیر ہو چکی تھی اور میں پنڈال کے اندر کسی میز پر دوستوں کو تلاش کر رہا تھا، اسی دوران مجھے رئوف طاہر کی آواز سنائی دی۔ بلند آہنگ رئوف طاہر دکھائی دینے سے پہلے ہی سنائی دے دیا کرتا تھا، اور یہی ہوا۔ دوستوں کے ساتھ تعلقات خوشگوار رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ کبھی بھی اس کی کمزوری کو نہ چھیڑا جائے اور میاں نواز شریف اس کی کمزوری تھا۔ میری اور اس کی گفتگو کے دوران کبھی بھی سیاست نہیں آتی تھی۔ مجھے علم تھا کہ اس کا نتیجہ بدمزگی کے علاوہ اور کچھ نہ ہو گا۔ لیکن اس سیاسی گفتگو سے مراد محض حالیہ سیاسی صورتحال تھی۔ رئوف طاہر پاکستانی سیاست کا ایسا انسائیکلوپیڈیا تھا، جو اچانک ہی ہمیں چھوڑ کر چلا گیا ۔